تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،نئے زمانے میں لوگوںکے پاس وقت کی شدید قلت ہوگئی ہے۔۔ وہ ہر چیز چھوٹی ہی مانگتے ہیں۔۔گاڑیاں چھوٹی،موبائل چھوٹے۔۔کسی سے بات کریں تو مختصر جوابات۔۔یس، نو۔ اوکے وغیرہ۔۔ اسی طرح جوہمارے بچپن میں ہماری نانیاں،دادیاں اور مائیں کہانیاں سونے سے پہلے سنایا کرتی تھیں، وہ بھی مختصر ہوتی جارہی ہے۔۔ ہمیں یاد ہے ہمارے والد ہمیں کہانیاں سنایاکرتے تھے، ایک بار انہوں نے ایسی کہانی اسٹارٹ کی۔۔ جو سترہ دن تک چلتی رہی۔۔ والد محترم کہانی سناتے تھے ، ہم سنتے سنتے سوجاتے ہیں اور اگلے روز وہیں سے شروع کرنے کی فرمائش کرتے تھے۔۔ اب تو ماؤں، دادیوں ، نانیوںکے پاس بچوں کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ وہ خود ٹی وی کے آگے بیٹھی رہتی ہیں، بچے موبائل ،کمپیوٹرز اور ٹیبلٹس کے دیوانے بنے ہوئے ہیں۔۔ آج چھٹی کا دن ہے اس لئے آپ کو مزید بور نہیں کریں گے ، چلیں آپ کو کچھ اوٹ پٹانگ شارٹ اسٹوریز سناتے ہیں۔۔
کہتے ہیں کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دسترخوان پر لا کر چُن دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔۔’’آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں؟‘‘۔میزبانوں نے جواب دیا۔۔’’بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں‘‘۔مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں کھانے کے بعد ڈنڈے سے ضیافت نہ کی جاتی ہو۔ اُس نے پھر تفتیش کی۔۔’’پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہوگا۔ کچھ تو استعمال ہوگا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے؟‘‘۔میزبانوں میں سے ایک نے کہا۔۔’’اے معزز مہمان ہمیں نہ مقصد معلوم ہے نہ استعمال۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے‘‘۔مہمان نے دل میں سوچا۔۔ ’’بے خطر کیسے کھاؤں؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہے‘‘۔پھر اس نے اعلان کردیا۔۔’’جب تک آپ لوگ یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہاں بزرگوں کے زمانے سے مہمان کے دسترخوان پر ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے، کیڑے کو پتھر میں رزق پہنچانے والے کی قسم میں آپ کا ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گا‘‘۔اب تو پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی کہ مہمان نے کھانے سے انکار کر دیا ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا اور دسترخوان پر رکھا ہوا ڈنڈا دیکھا تو برس پڑے۔۔’’ارے کم بختو! تم نے اتنا بڑا ڈنڈا لا کر رکھ دیا؟اِسے کم کرو۔ ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے تھے‘‘۔ڈنڈا فی الفور آری سے کاٹ کر دو تین فٹ کم کر دیا گیا۔ مگر مہمان پھر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اسے اپنے سوال کا جواب درکا ر تھا۔ اب ایک نسبتاً زیادہ بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے بھی سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بھی ڈنڈا ناپ کر دیکھا اور اعتراض کیا کہ۔۔’’ڈنڈا اب بھی بڑا ہے۔ ہمارے بزرگ تو مہمانوں کے آگے ایک چھوٹی سی پتلی سی ڈنڈی رکھا کرتے تھے‘‘۔مذکورہ بزرگ کے کہنے پر باقی ماندہ ڈنڈا کاٹ کر اور چھیل کر ایک چھوٹی سی ڈنڈی بنا دیا گیا۔ گو کہ اب ڈنڈے کا سائز اور جسامت خطرے سے باہر ہوگئی تھی، مگر مہمان کا تجسس برقرار رہا۔ اب تک آنے والے بزرگوں نے صرف سائز اور خطرات ہی کم کیے تھے۔ اس کا استعمال اور اس کا مقصد کوئی نہ بتا سکا تھا۔مہمان اب بھی کھانا زہر مار کرنے پر تیار نہ ہوا۔ اب ڈھونڈ ڈھانڈ کر گاؤں کا ایک ایسا بزرگ ڈنڈا ڈولی کرکے لایا گیا جس کے سر کے بال ہی نہیں بھنویں تک سفید ہو چکی تھیں۔ جب انھیں ڈنڈے کی شکل و صورت اور اس کا سائز تفصیل سے بتایا گیا تو وہ بھڑک کر اپنی لاٹھی ڈھونڈنے لگے۔ چیخ کر بولے۔۔ ’’ارے عقل کے اندھو! ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک ننھا منا سا تنکا رکھا کرتے تھے، تاکہ اگر مہمان کے دانتوں کی ریخوں میں گوشت کا کوئی ریزہ پھنس جائے تو وہ خلال کرکے اسے نکال باہر کرے‘‘۔۔کہانی کی دُم: زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی بات، کوئی بدعت، شروع تو خلال کے تنکے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر اس کے پیروکار اسے بڑھا کر لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بنا دیتے ہیں اور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے۔
باباجی کوافسردہ دیکھا تو وجہ دریافت کی۔فرمانے لگے۔۔کل میں اپنے فیملی ڈاکٹر سے ملا۔۔ انہوں نے مشورہ دیا۔۔زیادہ ورزش کریں۔ کولڈ ڈرنکس یا آئس کریم نہ خریدیں۔ سادہ پانی پئیں ۔ ڈرائیو نہ کریں – بس استعمال کریں یا صرف پیدل چلیں۔ باہر نہ کھائیں، گوشت، سمندری غذا اور بیکری کی چیزوں سے پرہیز صرف سبزیاں یا دال مونگ کھائیں۔ کوئی BBQ یا چینی یا کابلی پلاؤ وغیرہ نہیں۔ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟۔۔ اس نے کہا ’’تمہاری پنشن بہت کم ہے‘‘۔۔یہ سن کر ہم سب ہنس پڑے، اچانک ہمارے پیارے دوست نے کہا۔۔میری امی کو مجھ سے ایک طویل عرصے سے یہ شکایت تھی کہ میں دانت برش کرنے کے بعد ٹوتھ پیسٹ کا ڈھکن کھلا چھوڑ دیتا ہوں۔۔ روز روز کی شکایت سے تنگ آ کر میں نے تہیہ کر لیا کہ یہ بری عادت چھوڑ دونگا۔۔ پورا ایک ہفتہ یاد سے ڈھکن بند کرتا رہا، اکثر واش روم میں بار بار جا کر چیک کرتا رہاکہ کہیں ڈھکن کھلا تو نہیں چھوڑ دیا۔۔ ایک ہفتے کی اس فضول مشقت کے بعد امید تھی ماں بہت خوش ہوگی ۔۔ لیکن وہ دن کبھی نہیں آیا۔ کل شام سب فیملی اکٹھے بیٹھی تھی کہ اچانک ماں نے بھری محفل میں میری طرف دیکھ کرکہا۔۔یہ تم نے اب دانت برش کرنا کیوں چھوڑ دَِیے ہیں؟۔۔
ایک یہودی نے روس چھوڑ کر اسرائیل میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت لی اور روس سے روانہ ہوا۔ ائرپورٹ پر اس کے سامان کی تلاشی لی گئی تو لینن کا ایک مجسمہ بر آمد ہوا۔ انسپکٹر نے پوچھا، یہ کیا ہے؟یہودی نے کہا۔۔ جناب، آپ نے غلط سوال کیا ہے! آپ کو کہنا چاہیے تھا یہ کون ہے؟یہ لینن ہے، جس نے اشتراکیت کے ذریعے روسی قوم کی خدمت کی میں ان کا بڑا فین ہوں اس لیے یادگار کے طور پر ان کا مجسمہ اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔روسی انسپکٹر بڑا متاثر ہوا اور کہا، جاو ٹھیک ہے۔۔یہودی ماسکو سے تل ابیب ائرپورٹ پر اترا تو ان کے سامان کی تلاشی لی گئی اور وہ مجسمہ بر آمد ہوا تو انسپکٹر نے پوچھا، یہ کیا ہے؟یہودی نے کہا۔ آپ کا سوال غلط ہے آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ یہ کون ہے؟یہ مجرم لینن ہے یہی وہ پاگل ہے جس کی وجہ سے میں روس چھوڑنے پر مجبور ہوا!اس کا مجسمہ میں یادگار کے طور پر اپنے ساتھ لایا ہے تاکہ صبح و شام اس کو دیکھ کر اس پر لعنت بھیج سکوں!اسرائیلی انسپکٹر متاثر ہوا اور کہا۔۔ جاؤ ٹھیک ہے۔۔۔یہودی اپنے گھر پہنچا اور مجسمہ نکال کر گھر کے ایک کونے میں سنبھال کر رکھ دیا۔خیریت سے اسرئیل پہنچنے پر اس کے رشتہ دار ملنے آئے جن میں اس کا ایک بھتیجا بھی تھا،پوچھ بیٹھا۔۔ انکل یہ کون ہے؟۔۔یہودی بولا تمہارا سوال غلط ہے تمہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ کیا ہے؟یہ دس کلو سونا ہے اس کو بغیر کسٹم کے لانا تھا میں نے اس کا مجسمہ بنوایا اور بغیر کسی ٹیکس اور کسٹم کے لانے میں کامیاب ہوا۔۔کہانی کی دُم:ہمارے سیاستدان اسی یہودی کے شاگرد ہیں۔جو بتاتے کچھ ہیں اور معاملہ اندر سے کچھ اور ہوتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نشہ دولت کا ہو،طاقت یا شہرت کا۔۔ہمارے مذہب نشے کو حرام کہاگیا ہے،ہرقسم کے نشے سے دور رہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔