تحریر: ڈاکٹر صفدر محمود
انسان ظاہر اور باطن کا نمونہ ہے۔ ظاہر ہمارے لئے ہے کیونکہ ہم ظاہر میں ہیں اور ہماری آنکھوں پر ساٹھ پردے ڈال دیئے گئے ہیں۔ باطن ہمارے رب کے لئے ہے جو باطن کی کیفیات سے آگاہ رہتا ہے۔ نیت کا اپنا اجر ہے لیکن انسان، انسان کی نیت نہیں پہچان سکتا۔ کوشش بھی کرے تو غلطی کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے۔ نیت اور باطن صرف ان ہستیوں پر عیاں ہوتا ہے جن کی نگاہوں سے پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں۔ انہیں لوگ صاحبان باطن کہتے ہیں۔
مطلب یہ کہ ہم ظاہر بیں لوگ تو ظاہر کو دیکھتے اور ظاہر سے اندازے لگاتے ہیں۔ ہم کیا جانیں کہ اس کوٹ یا قمیض کے پیچھے دھڑکنے والا قلب اور باطن تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے یا تجلیات الٰہی کا مسکن ہے۔ مجھے یہ تو احساس تھا کہ ڈاکٹر صاحب زاہد و عابد انسان ہیں اور سچا زاہد و عابد انسان کبھی محروم نہیں رہتا لیکن یہ ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک صاحب باطن بھی ہیں۔ انگلستانی سوٹ زیب تن کئے اور قیمتی ٹائی لگائے جب وہ پہلی بار ملے تومجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ امریکہ کینیڈا سے فارغ التحصیل کارڈیالوجسٹ (ماہر امراض قلب) کو ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ اگرچہ وہ میڈیکل سائنس کے طالب علم تھے اور میڈیکل سائنس پر بہت سے تحقیقی مقالات لکھ کر عالمی سطح پر داد حاصل کر چکے تھے لیکن اللہ پاک نے انہیں ان کے اصلی شعبے سے غافل نہیں رکھا تھا۔ انہوں نے قرآن مجید کا منظوم ترجمہ بر زبان انگریزی موٹی موٹی چار جلدوں میں چھاپا تھا اور اصل کے ساتھ اردو ترجمہ بھی دیا تھا۔ Faith in unseen رموز تخلیق اور ان کی کئی کتابیں قدرت کے رازوں کو آشکار کرتیں اور قدرت کے نظام کو سمجھنے میں رہنمائی کرتی ہیں۔ذکر ہو رہا ہے ڈاکٹر عبدالرشید سیال کا جو ملتان میں سیال میڈیکل سنٹر کے نام سے اپنا اسپتال چلاتے ہیں وہ کبھی کبھار لاہور تشریف لاتے تو ملاقات ہو جاتی۔ کبھی اپنی نگاہ اور باطن کی سیر کراتے تو میں حیرت میں گم ہو جاتا۔
دعا، الحمدللہ، شکر اور جنت کی ابدی زندگی پر ہمارا ایمان ہے لیکن یہ ایمان، ایمان غائب کے زمرے میں آتا ہے اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ زندگی ہی میں ان کے مظاہر دکھا دیں تو پھر ایمان غائب کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ برسوں بعد مجھے ان کا ایک محبت نامہ موصول ہوا جس میں ان کے ایک ذاتی روحانی تجربے کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ ان کی اجازت سے اسے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!
ایک روز جب میں دفتر میں داخل ہوا تو ایک 22سالہ انتہائی کمزور لڑکی میرا کمرہ صاف کر رہی تھی۔ اس کے کپڑے انتہائی پرانے، کپڑوں کا رنگ گو کہ سفید تھا لیکن اس پر اتنی گرد پڑی ہوئی تھی کہ وہ مشکل سے سفید نظر آتے تھے۔ میں نے اپنی سیکرٹری سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جواب ملا کہ ہماری پہلی صفائی والی آیا بیماری کی وجہ سے کام چھوڑ گئی ہے، یہ لڑکی اُس کی جگہ پر آئی ہے۔
دن گزرتے گئے۔ اس بچی کی آنکھوں کی حیا اور چہرے کی معصومیت ایک پیغام دیتی تھی، میں نے کبھی اس سے متعلق پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس بات کو کوئی چھ ماہ گزر گئے تو ایک روز میری سیکرٹری نے مجھے کہا کہ اسے دو چارپائیاں لے دیں اور پھر اس نے وہ واقعہ سنایا جو اس کے ساتھ گزشتہ رات پیش آیا تھا، کہنے لگی کہ روزانہ اس کا شوہر سائیکل پر لینے اسے آتا تھا۔ کل جب وہ کافی دیر تک نہیں آیا تو میں اس کو اس کے گھر چھوڑنے چلی گئی۔ یہ ایک ویرانے میں چھپڑ سا تھا میں نے اندر داخل ہونا چاہا تو اس نے روکا کہ آپ اندر نہ جائیں۔ میں زبردستی اندر گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہاں پر ماسوا ایک لالٹین کے کچھ بھی نہ تھا۔ اس کے دو بچے زمین پر لیٹے ہوئے تھے میں نے پوچھا کہ تم اور تمہارا خاوند کہاں سوتے ہیں؟ تو اس نے زمین کی ایک جانب اشارہ کر کے بتایا کہ وہاں۔ میں نے پوچھا تمہارے پاس کوئی چارپائی، بستر، رضائی، تکیہ، برتن وغیرہ کچھ نہیں؟ تو وہ رو پڑی اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن اسے دو چارپائیاں لے کر دے دیں اور کچھ برتن بھی ۔ جب میں نے کچھ کپڑوں کے پیسے دیئے اور اسے کرایہ پر گھر لے دیا تو اس کی حالت دیدنی تھی۔ دراصل میرا پروگرام اس کو ایک گھر لے کر دینے کا تھا۔
چند روز پہلے میں نے اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق دفتر میں صلاۃ التسبیح شروع کی تو قیام کے دوران اچانک محسوس ہوا کہ میں آسمان میں ایک ایسے مقام پر ہوں جہاں فرشتے خداوندِ قدوس سے براہ راست احکام وصول کرتے ہیں۔ چاروں طرف تاحد نظر سفید لباس میں ملبوس فرشتے ہی فرشتے ہیں، اتنے میں رب العزت کی آواز گونجتی ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب کی عبادت کا ثواب دوگنا کر دو۔ اس کے فوراً بعد تمام فرشتے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔ سب فرشتے حیران ہیں کہ اس بچی نے اپنے پالن ہار رب العزت سے کیا مانگ لیا ہے کہ ایک تو رب العزت نے اس بندے کو تمام عمر کی عبادت کے برابر ثواب بخشا ہے اور ساتھ ہی ایسی نعمتیں عطا کی ہیں جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔
میں نے نوافل مکمل کئے، بچی کو بلوایا اور اس وقت میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور اس سے استدعا کی کہ وہ ایک بار پھر رب العزت سے میرے لئے ویسی ہی دعا مانگے۔ کچھ دن بعد القاء ہوتا ہے کہ اس نے تو کچھ نہیں مانگا لیکن جو کچھ بھی آپ نے اسے دیا ہے وہ اتنی خوش تھی اور جب رات کو وہ چارپائی پر لیٹی تو زاروقطار رو رہی تھی اور زبان پر ’’الحمدللہ‘‘ تھا۔ رب العزت کو اس کی یہ ادا پسند آئی اس لئے انعام تو آپ ہی کو ملنا تھا۔ میں نے اگلے روز اس لڑکی کو بلوا کر اس کے گھریلو حالات معلوم کئے تو پتہ چلا کہ اس نے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاری ہے۔ وہ بالکل ان پڑھ تھی لیکن نماز کی پابند تھی۔ گھر میں کبھی سالن نہ بھی ہوتا تو وہ سوکھی روٹی اور مرچوں سے پانی کے ساتھ پیٹ بھر لیتی اور ہر حال میں رب العزت کا شکر ادا کرتی اور کہتی ’’الحمدللہ‘‘ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے، ایسے بھی تو لوگ ہوں گے جن کو یہ سوکھی روٹی بھی میسر نہیں۔ چھوٹی سی عمر میں جب وہ چودہ سال کی تھی ماں باپ نے خالہ زاد کےساتھ رشتہ طے کر دیا اور شادی ہو گئی۔ شوہر ایک موٹر سائیکل کی دکان پر کام کرتا تھا کبھی سو، دو سو روپے کما کر لاتا۔ ایک سال کے اندر 2جڑواں بچے پیدا ہوئے کبھی اوپلے تھاپے اور کبھی کسی کے گھر میں 20روپے روزانہ پر کام کیا لیکن ہر حال میں اس نے رب العزت کا شکر ادا کیا۔ شروع میں سسرال والوں نے ایک چھپڑ میں رہنے کی جگہ دی پھر وہاں سے بھی نکال دیا اور ہم نے معصوم بچوں کے ساتھ بھینسوں کے کمرے کےایک نکڑ میں رہ کر گزر بسر کی اور جب اس اسپتال میں نوکری ملی تو ایک کرایہ کا کمرہ لے لیا آپ جانتے ہیں کہ آج مہنگائی کا کیا عالم ہے لیکن ہر حال میں ذات باری تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ آج میں اتنی خوش ہوں کہ میں زندگی بھر تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کبھی ایسا بھی ہو گا۔ آج پھر میں اپنے رب کے حضور سربسجود ہوں اور اپنے ڈاکٹر صاحب کی بھلائی اور خوشی کے لئے دعا کرتی ہوں۔ مجھے گھر مل گیا، گھریلو اشیاء مل گئیں۔
میں نے جب اس بچی سے انتہائی دردمندانہ اپیل کی کہ ایک مرتبہ پھر وہی دعا مانگو جو تم نے رات کو میرے حق میں مانگی تھی تو اس نے ذہن پر زور دے کر کہا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا تھا۔ میں بس بے انتہا خوش تھی، خوشی میں زاروقطار رو رہی تھی اور زبان پر ’’الحمدللہ‘‘ تھا اور دل میں آپ کے لئے دعا تھی، وہ دعا کیا تھی میں نہیں جانتی صرف اور صرف آپ کی صحت اور خوشی مانگ رہی تھی اس جہان میں اور آخرت میں بھی ۔(بشکریہ جنگ)
|
12:11 AM (2 hours ago) |