تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
میرا تو خیال تھا کہ اب لوگ ہمارے کالمز کو سیریس لینا چھوڑ گئے ہیں۔ انہیں اب کسی پر اعتبار نہیں رہا۔ ہر اس بندے سے ان کا اعتبار اٹھ گیا ہے جس کو وہ اپنا رہنما یا گرو سمجھتے تھے۔ ان کیساتھ اتنے دھوکے ہوئے ہیں کہ اب وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔ ہاں اب اگر وہ اعتماد کرتے ہیں تو اس لیٹرے پر جو اُن کی پسند کا ہو۔ اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ میرے پچھلے دو کالموں پر مختلف فیڈ بیک آیا ہے۔ ”وزیراعظم کاکڑ لمز میں‘‘ کے عنوان سے چھپنے والے کالم پر پاکستان کے ممتاز کالم نگار اور ڈرامہ نویس عطاالحق قاسمی صاحب کا وائس نوٹ آیا۔ اس کالم میں مَیں نے مختلف وزرائے اعظم کا موازنہ کیا تھا کہ وزیراعظم بننے سے پہلے اور بعد میں ان کے رویے کیسے بدلے یا اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان میں جو عاجزی اور انکساری تھی‘ وزیراعظم ہاؤس پہنچتے ہی وہ غائب ہو گئی اور اس کی جگہ تکبر اور غرور نے لے لی۔ قاسمی صاحب کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف اس معاملے میں کبھی نہیں بدلے۔ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی لوگوں سے عاجزی و انکساری سے ملتے ہیں اور وزیراعظم بننے کے بعد بھی انہوں نے میاں نواز شریف کو مہمانوں کی پلیٹوں میں کھانا ڈالتے دیکھا ہے۔ وہ لوگوں سے اچھی طرح سے ملتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ وزیراعظم بن کر تکبر کا شکار ہوئے۔ میں نے اسی کالم میں لکھا تھا کہ میری چونکہ میاں نواز شریف سے ان کے وزیراعظم بننے کے بعد ملاقات نہیں ہوئی لہٰذا میں اس بارے کوئی رائے نہیں دے سکتا کہ وہ دیگر کی طرح بدلتے ہیں یا نہیں لیکن اگر عطا الحق قاسمی صاحب کہہ رہے ہیں تو ان کی بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
دوسرے کالم بعنوان ”جہانگیر ترین اور علیم خان کا ٹرمپ کارڈ‘‘ پر بھی اسحاق خاکوانی اور علیم خان کی طرف سے اس کالم میں اٹھائے گئے نکات کا جواب بھیجا گیا ہے۔ عموماً میں اپنے کالمز میں لوگوں کے کمنٹس یا جواب شامل نہیں کرتا کہ ہر بندے کی اپنی اپنی رائے ہے اور انہیں اس کا حق ہے۔ اس لیے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے آخری دفعہ کب اپنے کالم میں کسی پر کچھ لکھا اور اس نے مجھے جواباً لکھ بھیجا ہو اور میں نے اس کا نقطۂ نظر اپنے کالم میں شامل کیا ہو۔ خیر اس کالم پر پہلے علیم خان اور پھر اسحاق خاکوانی کی طرف سے تحریری جوابات موصول ہوئے۔ ایک اچھی چیز یہ ہوئی ہے کہ دونوں نے عوام کی طرح پہلے لعن طعن‘ طنز یا گالیوں کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے بڑے سلیقے اور طریقے سے اپنا مؤقف مجھ تک لکھ کر پہنچایا جسے پڑھ کر میں نے سیکھا کہ کسی ناقد کو کیسے جواب دیا جا سکتا ہے۔ پہلا ری ایکشن اسحاق خاکوانی کی طرف سے تھا۔ وہ جہانگیر ترین کے قریبی دوست اور ان کی نئی پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ان کی نئی پارٹی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ اگر ان کی حکومت بن گئی تو وہ مزدور اور ورکرز کی کم از کم تنخواہ پچاس ہزار روپے کر دیں گے۔ میرا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اور علیم خان دونوں بڑے بزنس مین ہیں اور ان کے ہاں ہزاروں ورکرز کام کرتے ہیں‘ اس لیے پہلے انہیں اپنی فیکٹریوں کے ورکرز کی کم از کم تنخواہ پچاس ہزار کرنی چاہیے تاکہ لوگ ان کے اس منشور کو سیریس لیں اور ممکن ہے ان کا یہی اکلوتا نعرہ انہیں مزدور کلاس سے ووٹ ڈلوانے کا سبب بن جائے اور اس سے دیگر سیاسی پارٹیوں پر دباؤ بھی بڑھے گا۔
اگرچہ جہانگیر ترین اور علیم خان کے حوالے سے کبھی شکایتیں نہیں آئیں کہ ان کا اپنے ورکرز کیساتھ رویہ اچھا نہیں لیکن جو بات میں کررہا تھا‘ وہ سیاسی تناظر میں تھی کہ اگر وہ ایک وعدہ کر رہے ہیں تو بہتر ہوگا کہ وہ اس کی شروعات اپنے کاروباری اداروں سے کریں۔ اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت کوئی سیاسی نعرہ دیتی ہے یا کوئی نئی پالیسی یا اصلاحات کی بات کرتی ہے تو اس وقت ذاتی لیول کی بات پیچھے رہ جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کسان گنے کی قیمت بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس وقت جہانگیر ترین چاہیں بھی تو وہ اکیلے اپنی مل کا ریٹ نہیں بڑھا سکتے۔ ان کا اپنا سارا کاروبار بند ہو جائے گا اگر وہ مارکیٹ سے ہٹ کر کسانوں کو زیادہ ریٹ دینا شروع کر دیں گے‘ تاہم وہ کسانوں کو ادائیگی وقت پر کرتے ہیں۔ اسحاق خاکوانی کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ جہانگیر ترین اپنے ملازمین کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے ان کا اپنا گھریلو باورچی‘ جس کا نام اللہ دتہ ہے‘ 35برسوں سے ان کے گھر پر کام کررہا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے وہ صرف تنخواہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے یا اس نے یونہی اپنی پوری عمر گزار دی ہے ہمارے پاس‘ کچھ غیرمعمولی ہم بھی کرتے ہوں گے۔
علیم خان صاحب کی طرف سے جواب ان کی ٹیم کے رکن گوہر عزیز کی طرف سے بھجوایا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ صرف ایک بات آپ کے گوش گزار کرنی ہے جو آپ نے اپنے کالم کے آخری پیرا گراف میں کی ہے۔ عبدالعلیم خان صاحب اپنے تمام کاروباری اداروں میں پہلے ہی چھوٹے ملازمین کو 50ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ تنخواہیں دے رہے ہیں جس کی تصدیق آپ اپنے ذرائع سے بھی کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ملازمین کو میڈیکل کی سہولت بھی حاصل ہے۔ امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا اور آپ مناسب سمجھیں تو اس وضاحت کو اپنی تحریر میں کہیں جگہ بھی دے سکتے ہیں۔ آپ کا شکریہ۔
یقینا بہت سارے ادارے اپنے ملازمین کا خیال رکھتے ہیں جو کہ اچھی بات ہے۔ ادارے اپنے سٹاف کی محنت سے ہی بڑے بنتے ہیں۔ مجھے یہ سب پڑھ کر یاد آیا کہ ایک دن میں اپنے ایک بزرگ دوست کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک بیٹا وہیں آ گیا۔ اُس دوست کے بیٹے بھی کاروبار کرتے ہیں۔ وہ بتا رہا تھا کہ کیسے اس کا بزنس میں مسلسل نقصان ہورہا ہے۔ میں سنتا رہا۔ کچھ دن بعد اس دوست کا ایک اور بیٹا مجھے کسی کیفے پر مل گیا۔ میں نے کہا یار کیا وجہ ہے کہ تم تو اچھا بزنس کررہے ہو‘ تم سے کبھی نہیں سنا کہ تمہیں نقصان ہورہا ہے یا تم اپنے کاروبار سے ناخوش ہو۔ ہمیشہ کہتے ہو پرافٹ ہورہا ہے لیکن تمہارا بڑا بھائی کہتا ہے کہ اس کا بزنس نقصان میں جا رہا ہے۔ اس نوجوان نے ایک ایسی بات کی جس نے میرے سوچنے کا انداز ہی بدل دیا۔ وہ کہنے لگا کہ رؤف بھائی میں نے کاروبار کا ایک اصول بنا رکھا ہے کہ جو لوگ میرے کاروبار میں مدد کرتے ہیں‘ جن کی وجہ سے میں پرافٹ کماتا ہوں‘ میں ان کیساتھ اس انکم کا مناسب حصہ شیئر کرتا ہوں۔ وہ حوصلہ پا کر مزید محنت کرتے ہیں اور ہم کاروبار میں مزید کماتے ہیں۔ اپنے بھائی کے بارے کہنے لگا کہ ہے تو میرا بڑا بھائی لیکن اس کا دل نہیں کرتا کہ وہ اپنے کاروبار سے جو پیسہ کماتا ہے اس میں سے ان لوگوں کو بھی حصہ دے جن کی محنت کی وجہ سے اسے مالی فائدہ یا پرافٹ ہوا۔ ایسا کرنے سے آپ کا ورکر یا ساتھی یا وہ اہم لوگ جو آپ کی آپ کے کاروبار میں مدد کررہے ہوتے ہیں‘ وہ پھر دل ہار جاتے ہیں۔ پھر وہ بھی سوچتے ہیں کہ انہیں کیا پڑی کہ وہ جان مار کر محنت کریں۔ جتنی تنخواہ مل رہی ہے اتنا ہی کام کریں جبکہ انسانی فطرت ہے کہ وہ انعام کی لالچ میں زیادہ محنت کرتا ہے۔
خیر جو کاروباری گُر وہ نوجوان سیکھ چکا تھا وہ اس کا بڑا بھائی کبھی نہ سیکھ سکا حالا نکہ وہ دونوں ایک ہی گھر میں‘ ایک ہی ماحول میں پلے بڑھے۔ انسانی فطرت بھی عجیب شے ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)