akhbaraat ya kharkaar camp

اخبارات یا خرکار کیمپ؟؟

تحریر: علی عمران جونیئر

ہرصبح پیشانیوں یعنی لوح پر جگمگاتی قرآنی آیات ۔۔ ان کے ترجمے ۔۔ سب کو راہ حق پر چلنے کی نصیحتیں۔۔ لیکن سب کو نصیحت اور خود ۔۔۔۔!!!!!   عالم یہ کہ روز صبح کا آغاز ایک سفید جھوٹ سے ۔۔ کراچی سے شائع ہونے والے درجنوں ڈمی یعنی گمنام اخباروں  کا کم وبیش یہی عالم ہے ۔۔ ان میں سے بیشتر اخبارات کو کوئی جانتا بھی نہیں ۔۔ لیکن ان کے مالکان جو اخباری تنظیموں کے فعال عہدیداران بھی ہیں ۔۔اور بزعم خود صحافت کے چیمپین بھی ۔۔۔ وہ دھڑلے سے اپنے اپنے اخبارات کی اشاعت کو ہزاروں اور بعض تو لاکھوں میں بیان کرتے ہیں ۔۔ اور اسی کی بنیاد پر سرکاری اشتہارات وصول کرتےہیں ۔۔ آپ خود تصور کیجئے کہ آج کل سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں جب صف اول کے اخبارات کی اشاعت سکڑ کر چند ہزار پرآگئی ہے۔۔۔ ان اخبارات کی اشاعت خواب میں بھی اتنی نہیں ہوسکتی جتنا کہ حلفا ڈکلئیرکی جاتی ہے۔۔۔یہ ایسا جھوٹ  ہے جو روز بولا جاتا ہے ۔ دھڑلے سے ۔۔ بغیر خوف خدا کے ۔۔۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ۔۔ اصل کھیل اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔۔۔اشاعت کے اس جھوٹے ڈکلیریشن پر سرکاری اداروں سے اشتہارات سمیٹے جاتے ہیں ۔۔۔اور انہیں اپنا حق سمجھ کر ڈکار لیا جاتا ہے۔۔

 ان کے بھاری بھرکم اشتہاری بل اطلاعات کے سرکاری ادارے بہ وجوہ  روک لیں تو سب مل کر ان کا ناطقہ بند کردیتے ہیں ۔ اسے صحافیوں اور صحافت  پر کاری حملہ قرار دیا جاتا ہے ۔۔اخباری تنظیموں کے ہنگامی  اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں ۔المیہ یہ ان صحافتی تنظیموں میں بھی ایسے ایسے اخبارات کے مالکان عہدیداران ہیں ۔۔ جن کے اخباروں سے خود ان کے گھر والے بھی واقف نہیں ہوتے ۔۔۔ دھونس ۔۔ دھمکی ۔۔ بلیک میلنگ ۔۔ غرض رقم نکلوانے کےلئے ہر ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے ۔۔۔ اور یہاں استعمال کیا جاتا ہے بے چارے کارکنوں کو ۔۔  باور کرایا جاتا ہے کہ اشتہارات کے بلوں کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں وہ صحافیوں کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کرپائیں گے ۔۔ اس طرح  جعلی واجبات بروقت وصول کئے جاتے ہیں ۔ بات صرف اشتہارات تک ہی محدود نہیں ہوتی ان گمنام اخبارات کے نام پر مختلف نفع بخش دھندے بھی کئے جاتے ہیں اور ان سے بھی مال بنایا جاتا ہے ۔۔ ان اخبارات کے مالکان کا جن کا بظاہر کوئی کاروبار نہیں۔۔ نہ ہی صحافت سے ان کا کوئی لینا دینا ہوتا ۔۔۔ ان کے شاہانہ ٹھاٹھ بڑے بڑے سیٹھوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ۔ ان کی نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں ۔ ان کے پرتعیش گھر ۔ ان کے غیرملکی دورے ۔۔ ان کا بینک بیلنس ۔۔ ان کی اولادوں کے ٹھاٹھ ۔۔ سب کچھ ان کے جھوٹے دعووں کی چغلی کھاتے ہیں ۔۔۔المیہ یہ ہے کہ ان اخبارات کی پیشانیوں پر ان ہی مالکان کے نام بطور ایڈیٹر بھی جگمگا رہے ہوتے ہیں ۔۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو اردو میں ایک خبر بنانے کے بھی اہل نہیں ۔۔ اس طویل تمہید کا مقصد اصل میں یہ بتانا ہے کہ یہ سارا ریکٹ کام کس طرح کررہا ہے ۔۔اب تصویر کا ایک اور رخ ملاحظہ فرمائیے ۔۔ ان گمنام اور ڈمی اخبارات  کے دفاتر میں کام کرنے والے باقاعدہ اور پیشہ ور صحافیوں کی تعداد سیکڑوں پر محیط ہے۔۔ یہ وہ مخلوق ہے جو کسی قطار شمار میں ہی نہیں ۔۔صحافت کے یہ جبری مزدور ۔۔ باقاعدگی سے اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں ۔۔ ان کی گزربسر کا کلی انحصار ان ہی اداروں پر ہے ۔پورا پورا اخبار چند صحافی مل کر بناتے ہیں ۔۔ان اخبارات کے نام نہاد ایڈیٹر جو مالک بھی ہوتے ہیں روز صبح انہیں بتاتے ہیں کہ منہ زور ڈالر آج کتنا چڑھا ۔ نیوزپرنٹ کا بھاؤ کہاں پہنچا ۔ باور کرایا جاتا ہےکہ  مالی مشکلات کا ایک پہاڑ ہے جو انھوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ غریب صحافی جو باقاعدگی سے دفتر آتے ہیں ان  کا اخبار بناتے ہیں ۔ یقین جانئیے ان میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنھوں نے ڈالر دیکھا ہی نہیں ہوگا ۔ نہ انہیں اخباری کاغذ کا کچھ پتہ ۔۔ کہ اسے کس طرح جھوٹے اشاعتی سرٹیفکٹ جمع کراکے سرکاری رعایتی نرخ پر خرید کر بیچا جاتا ہے اور کس طرح اس دھندے سے مال بنایا جاتا ہے ۔ کیونکہ ان ڈمی اخبارات کی اشاعت تو محض چند سو ہی ہوتی ہے لیکن دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں چھپتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس اخباری کارکن کی تنخواہ ہی کتنی مقرر کی جاتی سو ڈالر یا اس سے بھی کم ۔۔۔ستم بالائے ستم یہ کہ  ایک تو تنخواہوں کی باقاعدگی سے ادائیگی کا کوئی اہتمام نہیں جب دی بھی جاتی ہیں تو معمولی سے رقم میں سے بھی یہ سیٹھ بغیر کسی وجہ کے کئی کئی ہزار روپے کاٹ لیتے ہیں جن کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا ۔۔ یہ رقم مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کی جاتی ہے۔ اسے اپنا حق تصور کیا جاتا ہے ۔۔ غریب کارکن اس کی فریاد بھی نہیں کرسکتا  ۔۔ان سیٹھوں کے ان ہتھکنڈوں کا مقصد اخباری کارکنوں میں مایوسی پیدا کرنا ہوتا ہے اور اس کے ذریعے ایک باقاعدہ فضا بنائی جاتی ہے تاکہ وہ مجبور صحافی ان سے اپنی اس معمولی سے تنخواہ کا بھی تقاضہ نہ کرے ۔ وہ روز دفتر اسی آس پر آتا ہے کہ شائید آج ڈالر کا ریٹ نیچے چلاجائے ۔ نیوز پرنٹ کے ریٹ کم ہوجائیں اور اسے اس کی تنخواہ مل جائے جو کئی کئی ماہ سے ادا نہیں کی جاتی ۔۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ روز ایک مایوسی ۔ اداسی کی کیفیت ۔۔ ویسے تو ہرمہینہ ہی ان صحافیوں کےلئے بے بسی اور مایوسی کی خبر لاتا ہے ۔۔ لیکن خاص کر رمضان اور پھر عید کے موقع پر شدت اور بڑھ جاتی ہے ۔۔ہوس اتنی کہ دنیا بھر کے خزانے بھی ناکافی ۔۔ عمر کے آخری پہر ۔۔ ستر پچھتر سال کی عمروں کے یہ سیٹھ ۔۔ اپنے معاملات سیدھے کرنے کےلئے جوانوں سے بھی زیادہ مستعدد ۔۔ پھرتیلے اور طاق ۔۔ لیکن جب بات غریب صحافی کو تنخواہ دینے کی آئے تو بے بسی ۔۔ اداسی اور یاسیت کی مجسم تصویر۔۔ فلاحی اداروں کو غریبوں کی مدد کے بھاشن دینے والے ۔۔ ہر مذہبی اجتماع میں سب سے آگے کی نشستوں پر براجمان یہ سیٹھ رمضان کے مہینے میں تو بالکل ہی” آزاد” ہوجاتے ہیں ۔ اس مہینے میں بھی اپنے دفتر کے لوگوں کےلئے ان کے وہی پرانے گھسے پٹے عذر ۔۔ مشکلات اور تکالیف کا اظہار .. اس مہینے میں بھی کراچی سے شائع ہونے والے اس طرح کے بیشتر اخبارات کے سیکڑوں کارکن اپنی کئی کئی مہینوں کی معمولی تنخواہوں سے محروم ہیں ۔۔۔۔ ان کی جیبیں خالی ہیں ۔ ہیں تو فقط امیدیں اور دلاسے ۔۔۔ان چند سیٹھوں کی وجہ سے اخباری کارکنوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے ۔ بیوی کی بے بسی ۔۔ بچوں کے امید بھرے چہرے۔۔۔ گھروں کے کرائے ۔۔ سودا سلف ۔ بجلی گیس کے بل ۔۔  اسکولوں کی فیسیں ۔۔ یہ سب کچھ ان  کےلئے  ڈراونے خواب بن جاتے ہیں  ۔۔ اور وہ جاگتے میں بھی انہیں دیکھتے ہیں ۔میڈیا کے ایک ایسے ہی کارکن فہیم مغل کو کوئی کیسے بھلاسکتا ہے۔۔  نومبر 2021جس دن اس نے خودکشی کی اس  آخری دن اس کی جیب میں بچے کے لئے دودھ لانے کے پیسے نہیں تھے ۔۔ اس نے جاتے جاتے اپنی بیوہ کو بتایا تھا کہ وہ اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات اور خواہشات پوری نہیں کرپارہا  ۔۔ ان نام نہاد مالکان کی اسی بے حسی  اور سفاکیت کی بدولت ان اداروں میں میں کام کرنے والے نہ جانے کتنےنوجوان صحافی خودکشی کرچکے ہیں اور باقی جو ہیں وہ زندہ لاشوں کی طرح ہیں ۔۔ معمولی تنخواہوں کی ادائیگی ۔۔ یقین جانیے ان کےلئے کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ بس ذرا سی انسانیت اور خوف خدا کی ضرورت ہے ۔ساری زندگی جھوٹے حلف نامے پراخبارات کی صریحا غلط اشاعت ظاہرکرکے کروڑوں ۔۔ اربوں روپے کی جائیدادیں بنانے ۔۔ اپنے اور اپنے اہل خانہ کےلئے دنیا کی تمام  آسائش سمیٹنے والے والوں اور  ان کو یہاں تک پہنچانے والے اخباری کارکنوں پر زندگی تنگک کرنےوالے یہ اخباری مگرمچھ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،  ہم سب انہیں جانتے ہیں ۔۔ ان کے دامن  نہ جانے کتنے معصوم نوجوان صحافیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔۔ کتنے گھرانے ان کی وجہ سے سسک رہے ہیں ۔۔ کتنی زندگیاں ان کی مال بنانے کی ہوس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں ۔۔

اگلی اقساط میں ان کے ناموں اور ان کے کارناموں کو کھل کر بیان کیا جائےگا۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں