تحریر: عطاالحق قاسمی۔۔
جناب بات یہ ہے کہ اگر موبائل فون ایجاد نہ ہوتا اور اس میں وٹس ایپ، مسنجر، فیس بک اور دیگر بہت سی خاص و عام دلچسپی کی چیزیں نہ ہوتیں تو ٹی وی چینلز اور اخبارات نے تو مجھ ایسے شریف آدمی کی زندگی حرام کر دی تھی۔ کیسی کیسی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ کیسی کیسی شکلیں دیکھنا پڑتی ہیں۔ چنانچہ میں نے تو اخبارات اور ٹی وی چینلز کو طلاق دے دی ہے بلکہ کالم لکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ آپ یہ جو ہفتے میں میرے نام سے شائع شدہ چار پانچ کالم پڑھتے ہیں، یہ تو میں سہیل وڑائچ، حامد میر اور جاوید چودھری اور کبھی کبھی حسن نثار سے لکھواتا ہوں۔ میرے یہ دوست ’’نہ نہ‘‘ کرتے جاتے ہیں مگر بالآخر میرا پیش کیا ہوا ’’ہدیہ‘‘ محض ’’تبرک‘‘ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ یہ ان کی مروت اور وضعداری ہے۔
مگر میں تو آپ کو یہ بتانے جا رہا تھا کہ جب سے ریاست کے تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا شروع ہوئے ہیں، اس وقت سے ملک ترقی کی راہ پر کسی اصیل گھوڑے کی طرح بگٹٹ دوڑ رہا ہے۔ ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ ہر طرف ہریالی ہے، چنانچہ اب ماضی کے ناقدوں اور ساون کے اندھوں کو بھی ہر طرف ہرا ہی ہرا سوجھ رہا ہے۔ بات پھر درمیان میں رہ چلی تھی۔ میں بتانا چاہ رہا تھا کہ اس خوشحالی اور بےفکری کی وجہ سے میں اپنا زیادہ وقت عموماً اب ہر نئی آئی ہوئی پوسٹ دیکھنے پر صرف کرتا ہوں۔ ہماری قوم یک طرفہ سوچ اور عمل کی قائل نہیں ہے، چنانچہ جو ’’فرینڈ‘‘ مجھے آیاتِ قرآنی، صبح اٹھتے وقت کی دعا اور رات کو سونے سے پہلے پڑھی جانے والی قرآنی آیات بھیجتے ہیں، وہی دوست دعائوں کے علاوہ دورِ حاضر کی کچھ سوغاتیں بھی بھیجتے ہیں جنہیں دیکھ کر وہ آیات زبان پر آ جاتی ہیں جو انہوں نے ان تصویروں اور وڈیوز کو دیکھ کر پڑھنے کی صورت میں شیطانی تصورات سے نجات دلانے کے لئے ارسال کی ہوتی ہیں۔ میں تو خیر ایسی فضول چیزیں صرف ایک دفعہ دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرتا، چنانچہ بار بار دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ تو اخلاق سے گری ہوئی ہیں چنانچہ میں ان دوستوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ واہیات چیزیں بھیجنا ہی ہوتی ہیں تو دیکھ لیا کریں کہ کہیں یہ پہلے ہی تو نہیں بھیج چکے؟ ایک تو ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزور ہو گیا ہے۔ انہیں کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ یہ بھی نہیں کہ کس کو کیا بھیجنا ہے اور کس کو کیا نہیں بھیجنا۔ لعنت بھیجیں ان خرافاتوں پر، میری دلچسپی کی چیزیں تو طنزو مزاح پر مشتمل پوسٹیں ہوتی ہیں۔ جو میں فوراً آگے فاورڈ کر دیتا ہوں مگر یہاں مجھ سے غلطی یہ ہو جاتی ہے کہ میں یہ فنی پوسٹس اس سیاسی مخلوق کو بھی بھیج دیتا ہوں جو صرف مخصوص افراد کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ دیکھ کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ سب کچھ ان کے سر پر سے گزر جاتا ہے کیونکہ وہ ان میں ’’وچلی گل‘‘ تلاش کرنے لگتے ہیں جو ان میں نہیں ہوتی۔ میں ان کی نیت، ان کے ردِعمل کو بھانپ کر انہیں وٹس ایپ پر بات کرنے کے لئے میسج کرتا ہوں۔ وہ بہت اشتیاق سے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اسی وقت کال بیک کرتے ہیں تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ جو پوسٹس میں نے انہیں فارورڈ کی ہیں وہ محض ہنسنے ہنسانے والی غیرسیاسی پوسٹس ہیں۔ اگر سیاسی ’’وچلی گل‘‘ کا پتہ کرنا ہے تو کسی تھڑے پر بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھ لیں کیونکہ کچھ عرصے سے ہر خاص و عام جانتا ہے کہ ملک میں جو سیاسی تھیٹر چل رہا ہے اس کے سارے کردار ڈمی ہیں۔ جو ڈائریکٹر کی ہدایات کے مطابق اپنا اپنا کردار بطریقِ احسن ادا کر رہے ہیں۔ ان دنوں خفیہ بات اس قسم کی ہے جو ایک سردار جی ڈھول کی تھاپ پر شہر کے ہر چوک میں کھڑے ہو کر بآواز بلند اعلان کرتے تھے کہ سجنو تے مترو، کل دوپہر بارہ بجے خالصہ برادران کا ایک خفیہ اجلاس فلاں جگہ منعقد ہو رہا ہے۔ آپ سب کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ آج کل ’’وچلی گل‘‘ بھی سرداروں کے خفیہ اجلاس میں ہی ہے۔ بات سے بات نکل آتی ہے ورنہ میں تو آپ کو یہ بھی بتانے والا تھا کہ ملک میں آزادیٔ اظہار کی مکمل اجازت کے باوجود بہت سے ٹی وی چینلز سے صحافیوں کو فارغ کیا جا رہا ہے لیکن جن میں صحافت کا کیڑا کچھ زیادہ ہی ہے وہ اس بےروزگاری کے عالم میں یو ٹیوب کا سہارا لے رہے ہیں یا بلاگنگ کی صورت میں اپنی بات کہنے میں لگے رہتے ہیں۔ میں فیس بک میں سے ان کی ’’انٹ شنٹ‘‘ باتیں تلاش کر کے پڑھتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ اچھا یہ بھی ہو رہا ہے، یہ بھی ہو رہا ہے اور اس نتیجے پر ہی پہنچتا ہوں کہ ڈھٹائی کا کوئی علاج نہیں ۔ ان دنوں خوشحالی اور ملکی ترقی کا سورج پوری آب و تاب سے تاریک گھروں کو روشن کر رہا ہے مگر ان عقل کے اندھوں کو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے اور یہ خوشحال عوام کو ملک کے مستقبل سے مایوس کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ تاہم خوشی کی بات ہے کہ سب ویسے نہیں ہیں بلکہ وہ ملکی صورتحال کی جو تصویر پیش کرتے ہیں وہ کسی انتہائی ترقی یافتہ ملک کی لگتی ہے۔ اللہ ان لوگوں کا بھلا کرے اور ان کا بھی جو ان کی سرپرستی کا ڈھنڈورہ پیٹے بغیر اپنا قومی فریضہ انجام دیتے ہیں۔
سو دوستو ان دنوں میں ہوں اور میرا ایک ہی دوست میرا موبائل فون ہے، جو مجھے تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ ورنہ تو گلیاں سونی ہو چکی ہیں اور ان میں اکیلا مرزا یار چلتا ہوتا نظر آتا ہے۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔