سینٹ میں سینیٹر سرمد علی نے کہا ہے کہ حالیہ بجٹ میں نیوز پرنٹ اور اخباری کاغذ پر 10 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کی تجویز واپس لی جائے، آج کل کی فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے دور میں جب مادر پدر آزاد سوشل میڈیا پر جھوٹ کا بول بالا ہے وہاں اخبارات اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ عوام کے حقوق محفوظ رہ سکیں، ایسے میں نیوز پرنٹ اور اخباری کاغذ پرجی ایس ٹی عائد کرنا درست نہیں ہوگا۔ ایوان بالا میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر سرمد علی نے کہا کہ ہم جن مخدوش اقتصادی حالات سے گزر رہے ہیں وسائل محدود اور مسائل لامحدود ہیں، اخراجات کے تخمینہ کا پچاس فیصد ڈیٹ سروسنگ میں چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ تقریباً 16 فیصد حکومت اور دفاعی اخراجات کے لئے مختص کیا گیا ہے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اس پر حکومت کو غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ کم از کم جی ڈی پی کا چار فیصد ہمیں تعلیم کے لئے مختص کرنا چاہئے لیکن ہم نے حیران کن طور پر قلم، پنسل، ایکسر سائز بکس، شاپنرز، ریزر، کیلکولیٹرز، رائٹنگ انک اور بال پوائنٹس کے اوپر بھی 10 فیصد جی ایس ٹی لگا دی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ بچوں کی تعلیم کے ان بے ضرر انسٹرومنٹس کو ہم ٹیکس نیٹ میں لا کر کیا حاصل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ۔۔ اخبارات کی اشاعت میں جو را مٹیریل استعمال ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم بلکہ 90 فیصد جو را مٹیریل استعمال ہوتا ہے وہ نیوز پرنٹ ہے اور سیاہی ہے، نہ کاغذ ہوگا نہ سیاہی ہوگی تو اخبار چھپ ہی نہیں سکے گا۔ اس بجٹ میں ہم نے نیوز پرنٹ کے اوپر اخباری کاغذ کے اوپر 10 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کی تجویز دی ہے، پبلشرز جرنلسٹس اور ایڈیٹرز نے پچھلے دو دنوں میں اس کے اوپر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ 2016اور 2017ء میں اخبارات پر 16 فیصد جی ایس ٹی تھی اس کو ختم کیا گیا تھا اس لئے کہ اخبارات اپنی پرائس کے ذریعے عوام تک منتقل نہیں کرسکتے تھے۔ 2019 میں تو پانچ فیصد کسٹم ڈیوٹی اور ایک فیصد جو امپورٹ ڈیوٹی تھی اس کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔ ایک صحت مند اور متحرک معاشرے میں اخباری صنعت فعال جمہوریت کے لئے ناگزیر ہے، فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن روکنے کے لئے ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن روکنے کے لئے ٹریڈیشنل میڈیا ہے اس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، نا کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے ٹریڈیشنل میڈیا جو ہے مزید کمزور ہو جائے۔ ان حالات میں تو ضروری یہ تھا کہ جو سیاہی اور پلیٹوں کے اوپر مختلف ٹیکسز ہیں ان کو ختم کیا جاتا نا کہ اخبارات کے کاغذ کے اوپر مزید جی ایس ٹی لگا کے ان کو کمزور کیا جاتا، میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ اس فیصلے کے نتائج پر خود سنجیدگی سے غور کریں۔ خدا کے واسطے چالیس، پینتالیس ہزار روپے کمانے کے چکر میں اخباروں کو بند نہ کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمہ اشتہارات کی مد میں اربوں روپے واجب الادا ہیں، کہاں سے اخبارات آپریٹ کریں گے جب اربوں روپے واجب الادا ہیں جب آپ ان کے اوپر ٹیکسیشن کر دیں گے تو آپ تو ان کو بند کرنے کی طرف لے کر جا رہے ہیں آپ تو سوشل میڈیا کو ان ڈائریکٹلی پروموٹ کر رہے ہیں۔