تحریر: عبدالقادر حسن۔۔
اخبارات پڑھنے کے بڑے نقصانات ہوتے ہیں کیونکہ اخبارات کا ’’مافیا‘‘ ایسی بری خبریں دیتا ہے جن کو پڑھ کر عوام حکومت کے متعلق منفی رائے قائم کر لیتے ہیں، اسی لیے اچھے پر امن اور شریف لوگ اخبار نہیں پڑھا کرتے اور اب جب کہ اخبارات کے علاوہ بھی معلومات کے بے تحاشا غیر مستند ذرایع موجود ہیں جنکی خبریں مشکوک معلومات سے لبریز ہوتی ہیں لیکن ان کی درستگی کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ۔
دراصل اخبارات والے ان واقعات کو خبر بناتے ہیں جو اونچے لوگوں کو پسند نہیں ہوتے اور جن باتوں کو وہ عوام سے چھپانا چاہتے ہیں، اخبار والے انکو ظاہر کر دیتے ہیں اور اخبار کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے جسکو کسی بھی وقت دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے اس لیے اخبار کی خبر اونچے لوگوں کے لیے ناپسندیدہ ہوتی ہے۔ میں نے جب رپورٹنگ شروع کی تھی تو ایک دفعہ کسی سرکاری دفتر سے ایک سرکلر ا ٹھا لیا اور اس کر خبر بنا دی ۔ میرے خیال میں یہ خبر’’ ایکسکلو سو‘‘ تھی اس لیے میں نے نیوز ایڈیٹر سے کہا کہ مہربانی کر کے اسے نمایاں کریں، یہ خبر صرف ہمارے پاس ہے۔خبر دیکھ کر نیوز ایڈیٹر نے کہا کہ یہ کوئی خاص خبر نہیں ہے کیونکہ حکومت نے خود چند روز تک یہ خبر شایع کرانی تھی۔ خبر تو وہ ہوتی ہے جسے حکومت چھپانا چاہے اور رپورٹر اسے ظاہر کر دے تو حکومت اپنے جن کرتوتوں کو چھپانا چاہتی ہے جب وہ سامنے آتے ہیں تو اسے صحیح معنوں میں خبر کہا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اخبارات کے درمیان ایک جنگ مسلسل جاری رہتی ہے۔ حکمران تنقید کو بالکل پسند نہیں کرتے لیکن وہ یہ کہہ نہیں سکتے کہ ہم پر تنقید نہ کریں چنانچہ انھوں نے تعمیری تنقید کی ایک اصطلاح گھڑ رکھی ہے جسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کی تعریفی تنقید کی جائے ۔
اصل گڑ بڑ یہ ہے کہ اخبارات عوام کے مفادات کی بات کرتے ہیں اور حکمرانوں کے سامنے عوام کی نمایندگی کرتے ہیں لیکن حکمران اپنے مفادات کی نمایندگی کرتے ہیں جو بالعموم عوام کے مفادات کے خلاف یا برعکس ہوتے ہیں ۔
دونوں طبقوں کے مسائل مختلف ہوتے ہیں مثلاً حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے جیسا کہ آج کل حکومت کی جانب سے گرفتار شدہ سیاسی رہنماؤں کی دھڑا دھڑ ضمانتیں ہو رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اپنا استغاثہ ثابت نہیں کر پا رہی اس لیے اخبارات کی تنقید انھیں کھل رہی ہے لیکن عوام کا مسئلہ ہوتا ہے کہ انھیں دوپہر کے کھانے کے لیے دو روٹیاں اور ایک پیاز چاہیے اور رات کو دو روٹیاں اور تھوڑی سی دال ۔ اب یہ بھی کوئی مسئلہ ہے جس کے لیے حکمران متفکر ہوں ۔ ان کا وقت اور سوچیں بہت قیمتی ہوتی ہیں ۔اخبارات عوام کی انھی حقیر ضروریات اور حکمرانوں کی اعلیٰ اور قیمتی سوچوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف عوام ایک بلب جلاتے ہوئے ڈرتے مرتے رہتے اور دوسری طرف بجلی کے ہیٹر کی گرمی بھی صاحب کو کئی دفعہ ناگوار گزرتی ہے اور مطالبہ تعمیری تنقید کا کرتے ہیں۔
ہمیں استاد نے بتایا تھا کہ بعض اوقات لیڈروں کی تقریر اور بیان وغیرہ کے بعض حصے ان کے الفاظ میں بیان کرنے ضروری بھی ہوتے ہیں اور دلچسپ بھی، ایسے الفاظ تاریخ کا ریکارڈ بھی بن جاتے ہیں اور بعض اوقات تو لیڈروں کے گلے بھی پڑ جاتے ہیں ۔ جوش خطابت اور بیان میں لیڈر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں، دوسرے دن اخبارات میں جب ان کے اپنے الفاظ میں ان کی کوئی نازک بات موجود ہوتی ہے تو وہ بے حد تلملاتے ہیں اور تردید کا حق استعمال کرتے ہیں لیکن رپورٹر کے نوٹس والی کاپی بنیئے کے بہی کھاتے کی طرح مستند سمجھی جاتی ہے ۔
میری رپورٹنگ کی زندگی میں اس کی کئی دلچسپ مثالیں موجود ہیں ،کسی لیڈر کے اپنے الفاظ میں اس کی کسی بات کو بیان کرنے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ اس کو پھنسایا جائے بلکہ بعض اوقات خبر ان الفاظ کی وجہ سے زیادہ حسین اور مستند بن جاتی ہے اور قاری بہت لطف اندوز ہوتا ہے لیکن میں رپورٹنگ کے اس زمانے کی بات کر رہا ہوں جب کسی لیڈر سے زیادہ خبر اہم ہوتی تھی، ادھر جب کوئی خبر لیڈر کو دیکھ کر بنائی جاتی ہے، اس کی احمقانہ باتیں چھپائی جاتی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ ڈال کر لیڈر کو دانش ور بنایا جاتا ہے تو اس کی پیشہ ورانہ گفتگو بے محل لگتی ہے ۔
ہمارے زمانے میں بھی یہ کام ہوتا تھا لیکن یہ سرکاری خبر رساں ایجنسی، حکومت کا محکمہ اطلاعات اور ریڈیو کیا کرتا تھا ۔ ایک بار میں تھکا ہوا تھا اور طبعیت بھی ٹھیک نہیں تھی کہ ایک جلسے کی سیدھی سادی بے دلی سے سرکاری طرز کی خبر بنا کر نیوز ایڈیٹر کے حوالے کر دی۔ انھوں نے خبر دیکھ کر مجھے بلایا اور کہا کہ ایسی خبر تو سرکاری نیوز ایجنسی سے بھی لی جا سکتی تھی، تمہارے وہاں جانے اور رات کو جاگنے کی کیا ضرورت تھی ۔اس خبر میں تم کہیں بھی نہیں ہو۔ اس کے بعد رپورٹنگ کی زندگی میں، میں نے پھر ایسی حرکت کبھی نہیں کی ۔ اب جب کبھی کسی لیڈر کی تقریر سننے کا اتفاق ہوتا ہے اور پھر دوسرے دن اس کی رپورٹنگ دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ٹی وی والے کسی سرکاری تقریر کی نوک پلک سنوار کر نشر کرتے ہیں ۔ہمارے ہر دلعزیز وزیر اعظم نے ایک بار پھر صحافی برادری کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ صحافی ہر روز بری خبریں دیتے ہیں اور انھوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ صحافی پرانے سسٹم سے پیسے بنا رہے تھے، ان کی روزی بند ہو گئی ہے، اس لیے خلاف لکھ رہے ہیں۔ انھوں نے حکومت اور صحافت کے درمیان ازل سے جاری کشمکش کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی ہے ۔
انھوں نے ہم اخبار والوں کو مافیا کہہ کر ہمارا دل دکھایا ہے، اگر حکومت کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اسی مافیا کے سہارے وہ اپنے بلند و بانگ دعوے پاکستانی عوام تک پہنچاتے رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہونے کے بعد ان کو ہماری صحافت پسند نہیں آ رہی کیونکہ ان کی حکومت نے مہنگائی کو جس بام عروج پر پہنچایا ہے اس سے عوام اور اہل صحافت سب ہی یکساں متاثر ہیں ۔ انھوں نے اخبارات کے صحافیوں کو مافیا سے تشبیہ دی ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ہم اخبار والے کسی حکومتی لفافے سے زیادہ اطلاعات کے بھوکے ہوتے ہیں کہ یہی اس کاروبار میں ہمارا راس المال ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں یہی عرض کی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم کو زیادہ حساس بھی نہیںہونا چاہیے اور اخباروں سے زیادہ حکومت کی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے ۔
آپ حکمران ہیں، اپنا دل ذرا کھلا رکھیں اور کسی ایک آدھ خبر پر اتنا برہم نہ ہوں کہ ہم فقیروں کا شمار مافیا میں ہی کر دیں۔ ابھی ابتدا ہے اور ایسی افسانوی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔۔کالم لکھنا تو حکومت کی تعریف میں تھا کہ سوا صدی پہلے کا نہری منصوبہ اب شروع کیا گیا ہے لیکن وزیر اعظم نے اخباری مافیا کا ذکر کر کے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ بہر حال حکومت اور صحافت کے درمیان یہ چھیڑ چھاڑ جاری رہے گی اور ہم صفحے کالے کرتے رہیں گے۔( بشکریہ ایکسپریس)۔۔۔