تحریر: ضیاء شاہد
جناب محترم! اخباری صنعت دم توڑ رہی ہے۔ کرونا سے پہلے بھی بے شمار مسائل کا شکار تھی، جس پر آپ حضرات سے اور آپ کے ہم پیشہ حضرات سے اخباری صنعت کی بات چیت ہو رہی تھی لیکن کرونا نے جس طرح لاک ڈاؤن کیا ٹرانسپورٹ بند ہو گئی مارکیٹیں اور دکانیں بند کر دی گئیں اس سے ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے آج پوزیشن یہ ہے کہ بعض چھوٹے شہروں میں اخبار پہنچ ہی نہیں رہا اور اخبار فروش ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔ صنعتی بیروزگاروں کا بہت ذکر ہوا لیکن میڈیا کے بےروزگاروں کو کسی نے پوچھا ہی نہیں آج اخبارات اور ٹی وی چینل بند ہو نے کو ہیں۔ اخباری صنعت کے بیروزگار ٹی وی چینل کے بیروزگار قومی بیروزگاروں کی صف میں اضافہ کر رہے ہیں۔ جو اخبارات اور چینلز چل رہے ہیں ان کی مالی پوزیشن بھی انتہائی کمزور ہو رہی ہے۔ مارکیٹ میں کمرشل بزنس نام کو نہیں حکومتی بزنس تو سال بھر سے نہ ہونے کے برابر رہا اور اب جو اکا دکا اشتہارات اخبار اور ٹی وی پر آ رہے ہیں وہ ہر گز ان کے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے لہٰذا ان اداروں میں جو کام کر رہے ہیں اُن کی تنخواہیں بھی ہنوز لٹک رہی ہیں۔ اور نہ جانے کیسے پوری ہوں گی۔
جناب محترم! ان حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر امدادی پیکیج کا اعلان کیا جائے تا کہ میڈیا کی بندش کو ٹالا جا سکے۔ حسب ذیل اقدامات ازبس ضروری ہیں
-1 گزشتہ روز امریکہ جیسے مستحکم مالی معیشت کے حامل ملک کے صدر ٹرمپ نے کانگریس کے مختلف ارکان کے خط کے جواب میں میڈیا صنعت کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کئے ہیں اور پہلے حکم میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کو ایک ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا زیادہ حصہ زیرو انٹرسٹ پر ہو گا اور بڑی صنعتوں کو زیادہ سے زیادہ 2 فیصد سود ادا کرنا ہو گا۔ ہمارے ہاں قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ارکان کو شاید اس طرف توجہ دینے کا موقع نہیں ملا تاہم خدا کا شکر ہے کہ سینیٹر کو مکمل وزیراطلاعات اور ایک سابق فوجی اور آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی جنرل عاصم سلیم باجوہ کو معاون خصوصی برائے اطلاعات بنایا گیا۔ ہم ان دونوں حضرات کا خیر مقدم کرتے ہیں جناب شبلی فراز نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ حکومت کے ذمے اخبارات کے واجبات کو ادا کروائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ واجبات دس سال پہلے سابق صدر آصف زرداری، 6 سال پہلے سابق وزیراعظم نوازشریف اور اَب ڈیڑھ سال کے عمران خان کے دورِ حکومت کے ہیں اور یہ کوئی امداد یا گرانٹ نہیں اخبارات اور چینلز کے واجب الادا بل ہیں جس کی بابت مالکان اخبارات کے ادارے اے پی این ایس اور مالکان چینل کے ادارے پی بی اے ہمارے دس سال سے زیادہ مختلف حکومتوں سے درخواستیں کرتے رہے۔ 6 ارب کے ان بلوں میں اگر کوئی مشکل ہے تو جو بل منظور ہو چکے ہیں ان کی ادائیگی فی الفور کر دی جائے اور جہاں کوئی تنازع ہے ان کی چہان بین کر کے جلد از جلد ادایئگی کردیں ۔
2 – یہ تو واجبات کا مسئلہ ہے لیکن اخباری صنعت کو اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے انتہائی آسان شرح سود پر سافٹ لون دیے جائیں ان قرضوں کی شرائط آسان اور مدت مقرر ہونی چاہئے کہ ایک ماہ کے اندر قرضوں کی رقم ادا ہو جائے۔ جناب شبلی فراز انتہائی ذہین اور تعلیم یافتہ جمہوریت پسند انسان ہیں۔ وہ برصغیر کے معروف ترین شاعر احمد فراز کے بیٹے اور سابق صوبہ سرحد کے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر بیرسٹر مسعود کوثر کے بھتیجے ہیں۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ کو آئی ایس پی آر یعنی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے ڈی جی کی حیثیت میں میڈیا کا عملی تجربہ ہے لہٰذا یہ بہترین ٹیم امریکہ کی طرح اخباری صنعت کو زیادہ سے زیادہ 2 فیصد شرح پر خصوصی قرضے کا پروجیکٹ منظور کروائیں اور وزیر خزانہ، وزیراعظم اور گورنر اسٹیٹ بینک سے مشاورت کے بعد اس کا اجرا کریں۔ تا کہ میڈیا کے ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔
-3جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے صبح سویرے اُن کی چہوٹے شہروں تک اُن کی ٹرانسپورٹیشن کا ایک نظام تھا جو عملاً تباہ ہو چکا۔ اخبار فروش پہلے ہی مشکل میں تھے۔ اس طبقے کو کبھی کسی حکومت نے قابل توجہ نہیں سمجھا۔ اخبار نویسوں اور میڈیا کے افراد کے لئے بھی رہائشی کالونیاں اور دفاترکےلئے کمرشل پلاٹ ملے۔ لیکن نیوز ایجنٹوں اور اخبار فروشوں کو کچھ نہیں ملا۔ وہ چھوٹے دفاتر اور مارکیٹوں کے علاوہ زیادہ تر کھلی سڑکوں پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ حالانکہ باقاعدہ ان کی فیڈریشن اور صوبائی اور ضلعی تنظیمیں موجود ہیں۔ وزیر اطلاعات اورمعاون خصوصی برائے اطلاعات کو چاہئے کہ وہ تیزی سے بے روزگار ہوتے ہوئے اس طبقے کی طرف توجہ دیں۔ صنعتی بے روزگاروں کی طرح امدادی پیکیج کا حصہ بنایا جائے۔ وزرائے اعلیٰ ان کے لئے مارکیٹیں اور رہائشی کالونیاں منظور کریں۔ کسی ایک یا ایک سے زیادہ کمرشل بینکوں کی مدد سے انہیں آسان قسطوں پر اچھی موٹر سائیکلیں فراہم کی جائیں جنہیں اخبار دور دراز کے علاقوں میں تقسیم کے لئے سائیکل کی بجائے موٹر سائیکل کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت چاہے تو ان کی تنظیموں سے مذاکرات کر کے لائحہ عمل تجویز کر سکتی ہے۔
4- سب سے آخری اور ضروری بات یہ ہے کہ اخبارات کی بحالی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر تک ٹرانسپورٹ نہ کھولی جائے جو اس وقت مکمل طور پر بند ہے۔ اندرون ملک فضائی راستے، ریل بند، بسیں بند ہیں ویگنیں بند ہیں اور رکشے بند ہیں۔ وفاقی سطح پر اطلاعاتی وزیر اور مشیر صوبوں کے وزیراعلیٰ سے بات کریں۔ وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ شاید کورونا کے مکمل خاتمے کو ایک سال لگ جائے۔ ظاہر ہے کہ لاک ڈاؤن کو بتدریج کھولنا پڑے گا اور احتیاطی تدابیر کی طرح جامع فارمولا بنانا ہو گا۔ حال ہی میں نیویارک سے پاکستان آنے والی فضائی پرواز نے یک طرفہ ٹکٹ کاسات لاکھ لیاہے کیونکہ جہاز میں بھی چھ فٹ کا فاصلہ مسافروں کے درمیان ہونا ضروری ہے۔ گویا دو والی سیٹ پر ایک مسافر اور چار والی سیٹ پر دو مسافر بیٹھ سکتے ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ آپ ہر شہر کو دوسرے شہر کے ساتھ ایسی بس کے ذریعے ملا سکتے ہیں جس کے طے شدہ اور منظور شدہ مسافروں کو بٹھایا جائے۔ آپ علی الصبح تین بجے سے چھ بجے صبح تک تین گھنٹے کے لئے وزرائے اعلیٰ کی اجازت سے خصوصی بسیں چلائیں جنہیں طے شدہ سیٹوں کے فارمولے کے تحت کرایہ بڑھانے کا اختیار ہو۔ یہی فارمولا اندرون ملک پروازوں پر بھی عائد ہو سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایک سال تک کورونا کی صورتحال مخدوش رہتی ہے تو آپ ہمیشہ کے لئے ٹرانسپورٹ پر پابندی اور اشد کاروباری یا انسانی ضرورت کے تحت سفر پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ یہی احتیاط ریلوے کی سیٹیں کم کرنے اور کرایہ بڑھانے پر بھی قابل عمل ہو سکتی ہے۔ جب تک اخبار ہر شہر میں پہنچے گا نہیں بکے گا کیسے۔ سوائے ای میل اور انٹرنیٹ کے رابطے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ یہ جو گنتی کے چند ٹی وی چینلز اور اخبارات چل رہے ہیں وہ بھی ایک سال بعد اگلا آزمائشی وقت کیسے گزاریں گے۔
5- ٹرانسپورٹ کے بارے میں اخبار فروشوں اور اخبار نویسوں کو امدادی پیکیج کا کام صوبائی حکومتوں کا ہے لیکن وفاق اس سلسلے میں مشاورت کر سکتا ہے اسی طرح وفاق خود یعنی پی آئی ڈی اور صوبے یعنی صوبائی اطلاعات کے ادارے خصوصی طورپر الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کو اشتہارات کثرت سے جاری کریں۔ کسی اخبار میں سرکاری اشتہارات بند نہ کئے جائیں ان کے ساتھ ساتھ ادائیگی کا بھی بندوبست کیا جائے تا کہ اس خوفناک مالی بحران سے میڈیا باہر آ سکے۔
اُمید ہے ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات جناب شبلی فرازمعاون خصوصی برائے اطلاعات جناب سلیم باجوہ، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعلیٰ کے پی کے، وزیراعلیٰ سندھ، وزیراعلیٰ بلوچستان اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان عبدالحفیظ شیخ، گورنرا سٹیٹ بینک میڈیا کی بحالی کے لئے مزید اقدامات بھی نہ صرف تجویز کریں گے بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کروائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔(بشکریہ جنگ)۔۔