تحریر: اخلاق احمد ،سابق ایڈیٹر اخبار جہاں۔۔
آج دوسری بار وہاں گیا تھا ۔پہلی بار 1992 میں جانا ہوا تھا ۔ تب میر خلیل الرحمان رخصت ہوئے تھے ۔آج میر جاوید رحمان کو الوداع کہنا تھا ، سو کے ڈی اے اسکیم-1 کے اس گھر جانا ہوا ۔میر جاوید رحمان ۔ میر خلیل الرحمان کے بڑے صاحب زادے ، جنگ کے پبلشر ، اخبار جہاں کے ایڈیٹر انچیف ، میرے سابق باس ۔اطلاع تھی کہ نماز جنازہ گھر پر ہو گی ، مگر صرف فیملی کے لئے ، اور بہت محدود پیمانے پر ۔ مگر پھر کسی مہرباں کا اشارہ ملا کہ آپ نے میر جاوید رحمان کے ساتھ بہت وقت گزارا ہے ، سو اگر آنا چاہیں تو آ جائیں ۔وہاں سب ملا کر شاید سو لوگ تھے ۔ میر شکیل الرحمن پہنچ چکے تھے ۔ میر ابراہیم تھے ، جنگ اور جیو کے تقریبا سب اہم لوگ تھے ۔ کچھ سیاسی رہنما بھی تھے ۔ ایک اداسی تھی جو اس گھر کے بام و در پر ، اس کے وسیع و عریض لان پر ، وہاں آہستہ آہستہ باتیں کرتے لوگوں کے چہروں پر چھائی دکھائی دیتی تھی ۔ یا شاید یہ میرا وہم تھا ۔
تقریبا” چالیس برس قبل میر جاوید رحمان سے ایک رسمی سا ، دفتری سا تعلق استوار ہوا تھا ۔ وہ ایڈیٹر انچیف تھے ۔ میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والا عام سا سب ایڈیٹر ۔ اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے ، شاید تعلق کی طاقت کا اور گہرائی کا ، وقت سے خاص علاقہ ہوتا ہے ۔ دس ، بیس ، تیس سال ساتھ گزر جائیں تو تعلق بدن کے اندر تک ، شاید روح تک ، اتر جاتا ہے ۔
میں نے یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد کراچی کی آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع جنگ کی اس عمارت سے صحافت کے سفر کا باقاعدہ آغاز کیا تھا ۔ وہیں تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا سیکھا ، وہیں کچھ تعلقات استوار ہوئے ، وہیں مقدور بھر شناخت بنی ، اور وہیں بالوں میں سفیدی اتری ۔
وہاں جو اٹھائیس برس گزرے ، وہ میری زندگی کے بہترین سال تھے ۔ اور ان تمام برسوں میں میر جاوید رحمان میرے باس رہے ۔ وہ رسمی ، دفتری تعلق پہلے پانچ دس سال میں روایتی تعلق رہا ۔ پھر دھیرے دھیرے کچھ قریبی تعلق بنا ، پھر ایک عجیب و غریب ، کچھ دوستانہ سا ، کچھ نجی سا تعلق بن گیا ۔
جنگ گروپ میں چند اور پرانے لوگوں کے ساتھ بھی ان کا تعلق ایسا ہی گہرا تھا ۔ دکھ سکھ بانٹنے والا ۔ پریشانیاں اور خوشیاں شئیر کرنے والا ۔ عجیب و غریب باتوں پر بحث کرنے اور گھنٹوں پر محیط محفلیں سجانے والا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قہقہے لگانے اور بات بات پر ناراض ہو جانے والا ۔آپ شاید سوچیں کہ اس میں کیا خاص بات ہے ۔ ایسے تعلق تو گلی گلی بکھرے پڑے ہیں ۔ خاص بات یہ تھی حضور ، کہ یہاں جو تعلق تھا ، وہ ایک مالک اور ملازموں کے درمیان تھا ۔
جو ان سے مل چکے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ اپنی وضع کے بالکل منفرد آدمی تھے ۔ ٹوٹ کر محبت کرنے والے ، اور خوب آگ بگولا ہو جانے والے ۔ بیک وقت بھڑکتی آگ ، اور ٹھنڈا میٹھا پانی ۔ ان کی راجدھانی میں نہ جانے کیسے کیسے پیارے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ۔ نثار احمد زبیری ، شفیع عقیل ، محمود شام ، زمان خان ، ظفر رضوی ، عارف الحق عارف ، مدثر مرزا ، فاروق اقدس ، سید سرمد علی ، ناصر بیگ چغتائی ، نصیر ہاشمی ، عبد الروف ، محمد سلیمان ، منصور رحمان ، اتنے نام کہ فہرست ہی بناتے جائیے ۔ اور پھر اخبار جہاں کی بہت بڑی ، بہت پیاری ، بہت باصلاحیت ٹیم ۔
جاوید صاحب مجھ پر ہمیشہ مائل بہ کرم رہے ۔ ساتھ ہی برہم بھی رہے ۔ ان کی شخصیت کی یہی رنگا رنگی تھی جوہمیشہ حیران کرتی رہی ۔ میں بھی ان کا قریب ترین آدمی سمجھا جانے لگا ۔ ساتھ ہی کم از کم تین بار استعفی اور دفتری گاڑی کی چابیاں دے کر اس عمارت سے رخصت ہوا ۔ ہر بار دو چار مہینے میں ان کا فون آ جاتا اور بات ختم ہو جاتی اور میں پھر کام سنبھال لیتا ۔
میں اور میرے قریبی ساتھی ہی نہیں ، خود جاوید صاحب بھی جانتے تھے کہ کئی میڈیا گروپس ، اپنا میگزین شروع کرنے کے لئے مجھ سے رابطہ کرتے رہے ۔ جاوید صاحب نے کبھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ یہ کیسی افواہیں پھیل رہی ہیں ۔ ان کی تھیوری تھی کہ جانے والے کو بحث کر کے نہیں روکا جا سکتا ۔ میں اخبار جہاں چھوڑ کر کسی صحافتی ادارے میں نہ جا سکا ۔ کیسے جاتا ۔ اخبار جہاں میرا کمفرٹ زون تھا اور مجھے کہیں اور جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا ۔
بالآخر ایک وقت ایسا آیا جب میں نے صحافت ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ جاوید صاحب نے مجھے کچھ نہ کہا ۔ بس ، ناراض ہو گئے ۔ سال دو سال بات چیت بند رہی ۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا تھا ۔ ایک ملاقات میں ناراضی ختم ۔ لیکن اس بار وہ خوش دلی سے قبول کر چکے تھے کہ میں اپنے لئے کوئی اور راستا منتخب کر چکا ہوں ۔ یہ بھی کہ پرانے تعلق کو محفوظ رکھنا زیادہ ضروری ہے ۔
اگلے چند برسوں میں ان سے کم کم ملاقات رہی ۔ چار چھ ماہ میں کبھی ایک بار فون ۔ یا پیغام کا تبادلہ ۔
چند دن قبل پتا چلا کہ وہ علیل ہیں ۔ تشویش ناک حد تک علیل ۔ معلوم ہوا ، رابطہ ممکن نہیں ۔ ان کے قریبی حلقے کی مایوسی بڑھتی جا رہی تھی ۔
آج میں پرانی تصویروں میں انہیں ڈھونڈتا رہا ۔ بس ، اکا دکا تصویریں تھیں ۔ بیشتر تو اخبار جہاں سے رخصت ہوتے وقت وہیں رہ گئی تھیں ۔ کئی دفتری خطوط ملے ۔ ان کے دستخطوں سے جاری ہونے والے ایک لیٹر سے پتا چلا کہ مجھے 1986 میں ، جب مجھے کام کرتے ہوئے صرف چھ سال ہوئے تھے ، انہوں نے تھوڑی سی مدت کے لئے اخبار جہاں کا قائم مقام ایڈیٹر بنانے کا تجربہ کیا تھا ۔ ایک تصویر اسلام آباد کی ہے جہاں اے پی این ایس کی سالانہ تقریب میں مجھے بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں بہترین فیچر کا اے پی این ایس ایوارڈ ملا تھا ۔ اس تصویر میں میرے ساتھ جاوید رحمان صاحب ہیں، فاروق اقدس ہیں ، رضیہ فرید اور سلمی رضا ہیں ۔ تصویر دیکھی تو جیسے یادوں کی گٹھڑی کھل گئی ۔ فاروق اقدس سمیت اخبار جہاں کی پوری ٹیم کے ساتھ نواز شریف کا وزیراعظم ہاؤس میں پینل انٹرویو یاد آگیا جس میں جاوید صاحب ہماری قیادت کر رہے تھے ۔ بہت سے سفر یاد آ گئے ۔
آج وہ رخصت ہوئے ہیں تو نہ جانے کتنی باتیں یاد آ رہی ہیں ۔ شاید میرے بہت سے دوستوں کو یاد آ رہی ہوں گی ۔ وہ ایک بھرپور زندگی گزار گئے ۔ بہت سی زندگیوں کو بدل گئے ۔ بہت سے کام کر گئے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔(اخلاق احمد،سابق ایڈیٹر اخبار جہاں)۔۔۔