تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، موٹروے کیس تو آپ لوگوں کے ذہنوں سے ابھی محو نہیں ہوا ہوگا، اس کیس میں جو بنیادی نکتہ وجہ بحث بنا ، وہ یہ تھا کہ خاتون اکیلی گھر سے رات کے وقت کیوں نکلی؟؟ اس پر سی سی پی او لاہور نے بھی کچھ خامہ فرسائی کی جس کے بعد وہ سوشل میڈیا پرطنزو طعن کا نشانہ بنے،اتنا بنے کہ بعد میں معافی تک مانگنی پڑگئی۔۔ مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو خاتون کا محرم کے بغیر گھر سے نکلنا ممنوع ہے،لیکن جدید ریسرچ کہتی ہے کہ کہ اکیلی خاتون شدیدخطرے میں ہوتی ہے۔۔ایک خبرکے مطابق کینیڈا میں 28 ہزار سے زائد بالغ افراد پر کیے گئے ایک مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ اکیلے پن اور سماجی علیحدگی کے احساس سے ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کا خطرہ، مردوں کی نسبت خواتین میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔بلند فشارِ خون یعنی ہائی بلڈ پریشر میں رگوں کے اندر خون کا دباؤ معمول سے بہت بڑھ جاتا ہے جو آگے چل کر فالج اور ہارٹ اٹیک سمیت کئی طرح کے امراضِ قلب اور اچانک موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ جب ہم نے باباجی کو یہ ریسرچ سنائی تو وہ پہلے تو خوب ہنسے،پھر ہنستے ہنستے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا، پیکٹ کے اندر جھانک کر دیکھا تووہ کسی غریب کی جیب کی طرح خالی منہ چڑا رہا تھا۔۔ باباجی نے جھینپتے ہوئے سگریٹ کو پھر دوسری پاکٹ میں رکھ لیا، دوسری جیب سے پان کا پُڑا نکالا، اس میں سے ایک گلوری نکالی، بڑے مزے سے دانتوں تلے دبائی اور تھوڑی دیر دانتوں تلے مسلتے ہوئے اس گلوری کا ’’سواد‘‘ یعنی سرور لیا، پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔۔ بھائی جی، خاتون اکیلی ہوگی تو لازمی ہے کئی بیماریوں کا شکار ہوگی۔۔ ہم نے حیران ہوکر اس کے پیچھے چھپے فلسفے کی وجہ جاننی چاہی۔۔تو باباجی ہنستے ہوئے الٹا سوال داغتے ہوئے کہنے لگے۔۔ یہ بتاؤ خواتین کس معاملے میں بہت مشہور ہیں، ہم نے کہا،خواتین کے بارے میں مشہور ہیں کہ وہ باتونی بہت ہوتی ہیں۔۔ باباجی نے اپنا دایاں ہاتھ ہمارے سامنے پھیلاتے ہوئے کہا، مارو تالی۔۔۔ تم نے پوائنٹ سمجھ لیا۔۔ اکیلی خاتون جب بولے گی نہیں تو باتیں اس کے اندر کسی آتش فشاں کی طرح ابلیں گی،یہاں تک کہ وہ ہائی بلڈپریشر کا شکار ہوسکتی ہے۔۔ جب آپ اپنے اندر کسی چیز کو بہت دیر تک روکے رکھوگے تو لازمی وہ چیز ری ایکشن تو کرے گی۔۔ جب رگوں کے اندر خون کا دباؤ معمول سے بڑھے گا تو لازمی ہے،فالج بھی ہوگا، امراض قلب بھی اور اچانک موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔۔ اس لیے خاتون کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑو، اس کے پاس کوئی نہ کوئی زندہ انسان موجود رہے تاکہ وہ اس کو باتیں سناتی رہیں صرف اسی ایک کام سے خواتین کی زندگیوں کو بچایاجاسکتا ہے۔۔ ریسرچ کے مطابق آج کل ذہنی دباؤ کی ایک بڑی وجہ اپنے اردگرد کے کم عقلوں سے نمٹنا ہے ۔۔ایک دانا شخص سے کسی نے پوچھا کہ’’آپ اتنے خوش کیسے رہتے ہیں۔‘‘اُس نے کہا:’’میں بیوقوف لوگوں سے بحث نہیں کرتا۔‘‘پوچھا ’’پھر کیا کہتے ہیں؟‘‘دانا شخص بولا میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘ پوچھنے والے نے کہا:’’پھر بھی اپنی بات یا اپنا موقف منوانے کے لیے اسے قائل کرنے کے لیے آپ کو اسے کوئی دلیل کوئی جواز تو دینا چاہیے۔‘‘ اس پر اُس دانا شخص نے پوچھنے والے کو تاریخی جواب دیا۔’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘‘۔۔ہم کراچی سے اسلام آباد بذریعہ جہازجارہے تھے، اس کی تفصیل پھر کبھی سنائیں گے، ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ تھوڑی دیر بعد ایک لڑکی سیٹ نمبر دیکھتی ہوئی آئی اورہمارے ساتھ والی سیٹ پر آکر براجمان ہوگئی۔۔ہم کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ واقعی جہاز میں بیٹھ نیچے انسان چیونٹی کی طرح چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں۔۔ ہمیں اچانک محسوس ہوا کہ کوئی ہمیں گھور رہا ہے، مڑکر دیکھا تو برابروالی سیٹ پر محترمہ واقعی ہمیں ہی گھور رہی تھیں۔۔ ہم نے گھبراکرپوچھا۔۔کیا بات ہے محترمہ؟؟ آپ مجھے ایسے کیوں گھور رہی ہیں؟۔۔وہ بولی۔۔میں گھر سے ائیرپورٹ تک سارے راستے یہی دُعا کرتی آئی ہوں کہ میرے ساتھ کسی خاتون کو سیٹ ملے۔۔ہم نے مسکرا کر کہا۔۔ہم بھی سارے راستے یہی دعا کرتے آئے ہیں،رب نے ہماری سن لی۔۔آپ نے دل سے نہیں مانگی ہوگی۔۔ وکیل صاحب اپنے شہ زور ٹرک پر بیٹھ کر شہر کے چوک میں پہنچے اور لگے وہاں بیٹھے مزدوروں کو آوازیں دینے۔۔کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر، دو دو سو روپے دیہاڑی دونگا۔۔پہلے پہل تو لوگ وکیل صاحب پر خوب ہنسے، پھر اسے سمجھانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے کہ جناب والا، آجکل مزدور کی دیہاڑی ایک ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔ کیوں آپ ظلم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، کوئی نہیں جائے گا آپ کے ساتھ۔ نہ بنوائیے اپنا مذاق۔ وکیل صاحب اپنے موقف پر ڈٹے اور سُنی ان سُنی کر کے مزدوروں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے رہتے۔ شور کم ہوا اور بہت سارے مزدور تھک کر واپس جا بیٹھے تو تین ناتواں قسم کے بوڑھے مزدور، جن کے چہروں سے ہی تنگدستی اور مجبوری عیاں تھی، وکیل صاحب کی گاڑی میں آکر بیٹھ گئے اور بولے۔۔وکیل صاحب، چلئے ہم کرتے ہیں مزدوری۔ اس بے روزگاری سے بہتر ہے کہ آپ کے پاس مزدوری کر کے چلو کچھ کما لیں اور گھر کے لیے دال روٹی بنا پائیں گے۔۔وکیل صاحب نے ان تینوں کو ساتھ لے جا کر ایک یوٹیلیٹی اسٹور پر روکا۔ تینوں کو ایک ایک تھیلا بیس کلو کے آٹے کا، پانچ پانچ کلو چینی اور تینوں کی ہتھیلی پر پانچ پانچ سو روپیہ بھی رکھا اور اجازت دیتے ہوئے کہا۔۔ بس آپ کا اتنا ہی کام تھا، آپ لوگ اب اپنے اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔ دوسرے دن وکیل صاحب دوبارہ اسی ٹائم اپنا شہ زور ٹرک لیکر اسی جگہ پہنچے اور آواز لگائی۔۔کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر۔ دو دو سو روپے دیہاڑی دونگا سب کو۔ مزدور تو گویا تیار ہی بیٹھے تھے، سب سے پہلے چڑھنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے سب کے سب ٹرک پر سوار ہو گئے۔ وکیل صاحب نے سب مزدوروں کو مغرب تک کام کرا کے پورے دو ،دو سو روپے مزدوری دیکر چھٹی دے دی۔واقعہ کی دُم: مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈساجاتا۔۔ اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر ہم ’’مشکلات‘‘ پر نظر رکھیں گے تو مشکلات بڑھ جائیں گی، اس کے برعکس اگر ہم ’’ممکنات‘‘ پر نظر رکھیں گے تو ممکنات میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔