تحریر: محمد نوازطاہر
ستمبر کا پہلاہفتہ پاکستان میں دفاعی ہفتہ کہلاتا ہے ، پاکستان میں لکھی جانے والی تاریخ اور شہدا کی قبریں یاد دلاتی ہیں کہ یہاں اعزا زکے ساتھ دفن ہونے والوں نے اپنے جیسے بہت سے ساتھیوں کی مدد سے ملک کی سرحدوں کا دفاع کیا ۔ انہوں نے اپنا فرض ادا کرنے میں جان کی بازی لگائی ، سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک میں انسانوں کے حقوق کا دفاع کرنے والے بھی غازی اور شہید ہیں۔ ان میں نثارعثمانی( شہیدِ حقوقِ کارکنانِ اخباری صنعت) بھی ایک درخشاں ستارہ ہیں جنہوں نیپوری زندگی ملک میں ازادانہ صحافت اور کارکنوں کے حقوق کی جرات سے لڑائی لڑتے گذار دی ۔
مشکلات کو کبھی راستے کی دیوار نہ سمجھا، ایسی دیواریں انہوں نے جہدِ مسلسل اور استقلال سے توڑیں، جنرل ضیاء الحق جیسے بد ترین آمر کے سامنے سینہ تان کربات کی اور جمہوری کہلانے والی حکومتوں کے ادوار میں بھی آمرانہ اور نیم آمرانہ ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کے ساتھ جرات کے ساتھ کارکنوں کے حقوق کی بات کی اور حقوق نہ دینے پر جمہوریت پسندوں کا بھی ڈٹ کر دلائل سے مقابلہ کیا۔ صحافت کی آزادی کیلئے جیل کی سلاخوں کو بھی منہاج برنا سمیت اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح چوما ، صعوبتوں سے گھبرانے کے بجائے ان کا خندہ پیشانی سے نہ صرف خود مقابلہ کیا بلکہ ساتھیوں اور جونیئر ساتھیوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور ساتھ ہی ساتھ پیشہ وارانہ رہنمائی بھی فرمائی ۔ پیشہ صحافت میں آج جو تھوڑی بہت آزادی دکھائی دیتی ہے اس میں نثار عثمانی اور ان کے ساتھیوں کی تلخ حیات اور خون شامل ہے جسے چندناہنجار اور عاقبت نااندیش پیشہ وارانہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے سوالیہ نشان بنا رہے ہیں ۔
میڈیا مالکان ، ریاستی اداروں و غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے صحافت آج بھی خار دار تاروں کے ساتھ کس کر باندھی گئی ہے ۔ جو آزادی دستیاب ہے وہ میڈیا مالکان ، ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی خواہش کے تابع ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم میں نثار عثمانی نہیں ، نہ ہی ان کے راستے پر چلنے والے دکھائی دیتے ہیں ، گو پی ایف یو جے کے’ ٹکڑے‘ اور ٹکڑوں پر جمہوری و غیرجمہوری انداز میں مسلط تمام ’لیڈر‘ نام تو نہاج برنا اور نثار عثمانی کا ہی لیتے ہیں لیکن وصفِ عثمانی کتنا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ چار ستمبر نثار عثمانی کا اس دنیا عدم کی طرف کوچ کا دن ہے جو کسی کو اس طرح یاد نہیں جس طرح یاد رکھاجانا چاہئے ۔ کیا ایسی صورت میں ہمیں اپنی یونین ( پی ایف یوجے)، لیڈروں کے کردار اور خوداپنے رویوں پر’’ انا للہِ و انا الیہِ راجعون ‘‘ ہی نہیں پڑھنا چاہئے ۔۔۔۔؟ یقیناً صورتحال ایسی ہی لیکن اگر ہم اپنے اکابرین کو نہیں بھولے تو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اور’’ سپاِ ہِ عثمانی‘‘ تیار کرنے چاہئے ۔ اگر یہ خیال آئے کہ ابتدا میں ہماری تعداد کم ہے تو کربلا کا میدان اور وہاں لڑنے والے دھڑوں کی تعداد اور اس کے بعد کے نتائج کوسامنے رکھ تے ہوئے اپنے اور اپنے سے کمزور ساتھیوں کے حقوق لینے کی جنگ لڑنے کا عزم کرنا چاہئے ۔۔نثار عثمانی اور ا جیسے دیگر اکابرین کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔ ا س کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد ان لوگو ں پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو ہمارے اکابرین کا نام تو لیتے ہیں لیکن عمی طور پر کارکنوں کے مفادات کے مخالف میڈیا مالکان اور دیگر قوتوں کے ایجنٹ ہیں اور ایسا بھی نہیں کہ دکھائی نہ دیتے ہوں ۔جو افراد ، قومیں اپنے اکابرین ، محافظوں اور شہدا کو بھلا دیتی ہیں وہ کبھی بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتیں ،بھلے نظریاتی دفاع ہو ، سرحدی ، جغرافیائی دفاع ہو یا اپنے حقوق کا دفاع ہو۔(محمد نوازطاہر)