بلاگ: خرم شہزاد
جیسے اخبارات کی گاڑی صحافی اور خبر سے چلتی ہے ویسے ہی ٹی وی چینل کی ساری گاڑیاں آج کل اینکروں اور ۔۔ سے چلتی نظر آتی ہیں۔ آپ خالی جگہ پر اپنی پسند کا لفظ لکھ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آپ اس خالی جگہ پر کوئی لفظ کیوں لکھیں گے۔ یہاں خالی جگہ پر کچھ لکھنے کے لیے آپ کے پاس اپنی سمجھ اور تجزیہ ہونا چاہیے ، آپ کو اپنے اردگرد کے ماحول اور حالات کا احساس ہونا چاہیے لیکن آپ تو میڈیا والوں کے لیے وہ کورا کاغذ ہیں جس پر وہ اپنی پسند ناپسند سے جو چاہیں لکھیں۔ میڈیا جو لکھنا چاہیے گا وہ لکھے گا اور وہی آپ اپنا مقدر اور سوچ سمجھ لیں گے تو بتائیں کہ آپ خالی جگہ پر کوئی لفظ کیسے لکھ سکتے ہیں۔ آپ ایک دن صبح اٹھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج آپ کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم جنوری سے جون تک میڈیا اسکرینوں کا جائزہ لیں تو پاکستان میں پانی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، تب عمران خان کی کپتان چپل، عمران خان کا شیرو اور بنی گالہ کا رقبہ آپ کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا تھا۔ اسی طرح سے کسی شام آپ گھر آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب تو آپ کا سب سے بڑا مسئلہ اسحاق ڈار کی جائیداد کی نیلامی ہے لیکن جائیدا د کی فہرستیں ہی مکمل نہیں ہو رہیں اور ابھی تک ان کی اصل قیمتوں کا تعین بھی نہیں ہو سکا ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ تمام چیزیں آپ کے مسائل تب بنتی ہیں جب آپ ان باتوں کو اپنی گفتگو کا حصہ بنا لیتے ہیں اور ان باتوں کو آپ کی گفتگو کا حصہ بنانے کا اعزاز ٹی وی چینل کے اینکرز کے پاس ہے۔
پاکستان میں پرائم ٹائم میں یعنی جب دن بھر کے تھکے ہوئے خواتین و حضرات گھر میں موجود ہوتے اور بچوں کو بھی ہوم ورک ، ٹیوشن وغیرہ سب سے نجات مل چکی ہوتی تب کوئی اچھا سا ڈرامہ لگا کرتا تھا، موسیقی کا پروگرام چلتا تھا یا ایسا ہی کچھ ہوتا تھا کہ دن بھر کے کام کی تھکن اتر جاتی اور ڈھلتی ہوئی شام اور چڑھتی ہوئی رات آپ کو ذہنی سکون دیتی تھی۔ یہ پی ٹی وی کے زمانے کی بات ہو رہی ہے، پھر کیبل والے آئے اور نجانے کب ہماری زندگیوں میں ٹاک شوز داخل ہو گئے۔ ٹاک شوز کی آمد نے ہماری زندگیوں کو ایک طرح سے الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ ریٹنگ سب سے بڑا مسئلہ بننے لگا جس کی وجہ سے فسادیوں اور فسادنوں جیسے لوگ ٹی وی اسکرینوں پر چھاتے چلے گئے۔ لوگوں نے واہ واہ کے ڈونگرے برسانے شروع کئے تو ان لوگوں نے چیختے چلاتے اور منہ سے جھاگ اڑاتے مہمان پیش کرنے شروع کر دئیے۔ کوئی صاحب اپنے پروگرام میں تیلی لگا کر عوام سے داد وصول کر رہا ہے تو کوئی خاتون گڑ لگا کر ایک طرف بیٹھی اب صرف تماشہ دیکھ رہی ہے اور ٹی وی کی اسکرین آباد ہے۔ یہ سب لوگ اپنے آپ کو ٹی وی چینل اور اسکرین کی ضرورت سمجھتے ہیں اور بلاشبہ یہ ٹھیک ہی سمجھتے ہیں کیونکہ اپنے ہاتھ میں ریموٹ ہونے کے باوجود بھی جب ہم چینل تبدیل نہیں کرتے تو وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔
یہاں مجھے ملک کے ایک مشہور گلوکار کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ انہیں کسی گاوں کے چودھری صاحب نے اپنے بیٹے کی شادی پر دعوت دی۔ جب یہ اپنی ٹیم کے ہمراہ وہاں پہنچے تو بہت پر تپاک استقبال کیا گیا، ملنا ملانا اور کھانا پینا ایسا کہ شائد ہی کبھی کسی نے یہ سلوک کیا ہو۔ یہ اپنے آپ میں سمجھے کہ چودھری صاحب بہت قدر دان آدمی ہیں اسی لیے تو منہ مانگی قیمت پر بلایا بھی ،اب اتنا پروٹوکول بھی اور شاہانہ سلوک بھی۔ خیر رات گزری ، صبح ان کی آنکھ ذرا جلدی کھل گئی، کمرے کی کھڑکی کھولی اور صبح کی تازہ ہوا کا مزہ لینے لگے تبھی صحن میں کھڑے چودھری صاحب کی آواز ان کے کان میں پڑی جو اپنے ملازموں سے کہہ رہے تھے کہ ۔۔۔ کنجروں کے کھانے پینے میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے، وہ ہمارے مہمان ہیں اور جاو جا کر ان کے ناشتے چائے کا پتہ کرو۔ چودھری صاحب کے دو جملوں نے ہی اس شخص کو زمین پر لا کھڑا کیا جو اپنے آپ کو تقریب کی جان ، ضرورت اور جانے کیا کچھ سمجھ بیٹھا تھا۔ بس یہی کچھ حال ہمارے ان اینکروں کا بھی ہے۔ مذہبی پروگراموں سے بات شروع کریں تو ان میں مذہب کو جس طرح سے پیش کیا جا رہا ہوتا ہے وہی کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔ مختلف فرقوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان کے مسائل پر بات کرنے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھا ہوا سادہ شخص اپنے ایمان میں کس قدر کمزور بھی ہو سکتا ہے اور ہمارے اس طرح کے پروگرام سے وہ جانے کس طرف چل پڑے۔ اسی طرح مارننگ شوز کی اینکرز تو کمال کی ہوتی ہیں، ہزاروں لاکھوں کے جوڑے پہن کر سادگی کا درس دیتی ہیں۔ اپنی تیسری طلاق کے بعد لڑکیوں کو سسرال میں ایڈجسٹ کرنے کا کہہ رہی ہوتی ہیں۔ عام آدمی کے لیے ان کے پروگراموں میں کیا اور کتنا کچھ ہوتا ہے وہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں کہ لاکھوں کے سیٹ پر بیٹھ کر ہزاروں روپے کے چندے کے لیے یہ اینکررو رہے ہوتے ہیں۔شام کے ٹاک شوز تو اپنی طرز میں سب سے منفرد پروگرام ہوتے ہیں کہ اپنے پروگراموں میں کسی بھی سیاست دان سے اینکر کے طرز گفتگو کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ابھی یہیں چارج شیٹ فائنل کر کے خود ہی پھانسی کے آرڈر کر دیں گے۔ ان کے سوالات اور پھر دوسروں کو جواب کا پورا موقع نہ دینا ، یہ رعونت بھی دکھاتا ہے کہ یہ میرا پروگرام ہے اور مرضی تو بہرحال میری ہی چلنی ہے کہ میں کسے اور کتنا وقت دیتا ہوں۔بھلے ایم اے کی جعلی ڈگری ہو یا نقل کر کے بی اے کی ڈگری لی ہو لیکن اپنے پروگرام میں سیاست، صحافت، نفسیات، سماجیات، عمرانیات، معاشیات اور واہیات سمیت ہر شعبہ زندگی پر اس طرح سے گفتگو کریں گے جیسے یہی اس موضوع پر اتھارٹی ہوں۔ مہمانوں کو بلا کر میٹھا میٹھا بے عزت کرنے کا جو فن ان اینکرز کے پاس ہے وہ شائد ہی کسی کے پاس ہو ۔۔۔ لیکن اپنے آپ کے بہت مہان، اتھارٹی، باخبر، چینل کی ضرورت، توپ اور نجانے کیا کیا سمجھنے والے اینکر کی اصل اس وقت سامنے آ جاتی ہے جب اس کی پر مغز اور خصوصی گفتگو کو کاٹ کرکنٹرول روم میں بیٹھا ہوا شخص پیمپر کا اشتہار چلا دیتاہے اور پروگرام وہیں ختم کر دیا جاتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ یہ صاحب اصل میں چینل والوں کی نظر میں کیا ہیں۔ کبھی کبھی تو آخری تین سیکنڈ خدا حافظ کہنے کو چاہیے ہوتے ہیں لیکن نہیں ملتے اور اسکرین برتن دھونے والے صابن کی خوبیاں بیان کرتی خواتین دکھا رہی ہوتی ہے تب نجانے کیوں چودھری صاحب کے الفاظ یاد آنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں ہر سیر پر سوا سیر ضرور ہوتا ہے اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ گھنٹہ بھر اینکر صاحب کی دانشمندی دیکھنے کے بعد کنٹرول روم میں بیٹھا ہوا شخص جو شائد میٹرک پاس ہی کیوں نہ ہو وہ ڈائپر کا اشتہار چلاتے ہوئے ضرور کہتا ہو گا ۔۔۔اینا تو وڈا اینکر ۔۔۔ (خرم شہزاد)۔۔