تحریر ۔ راؤ محمد جمیل
ایک شجرسایہ دار ۔۔ ہرا بھرا ۔۔ تروتازہ ۔۔ پھل دار .. شاداب ۔۔اس کی چھاؤں میں بیٹھنے والوں کا آج پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر ڈنکا بج رہا ہے۔۔ ایک نہیں درجنوں صحافی ۔۔ یہیں سے پروان چڑھے ۔۔اور میڈیا کے افق کے چمکتے چاند بن گئے ۔۔وقت گزرتا گیا ۔۔۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اس شجرسایہ دار کا مالی اس دنیا سے رخصت ہوا پھیر۔۔
کون بھلا اس باغ کو پوچھے
ہونہ جس کا مالی ۔۔۔۔۔۔
اس درخت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔۔۔ نہ درخت کی آبیاری کرنے والا کوئی رہا ۔۔ نہ اس کی تراش خراش کرنے والا ۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آکاش بیلیں اس ہرے بھرے درخت سے چمٹ گئیں ۔۔ ساری ہریالی چوس لی ۔۔ شادابی ۔۔ رعنائی ۔۔ توانائی سب غائب ۔۔ جی میں ذکر کررہا تھا ۔۔ قومی اخبار کی آکاش بیلوں کا ۔۔
وہی آکاش بیلیں جو کسی ناگن کی طرح بل کھاتی ہیں ۔۔ بغیر جڑ اور پتوں کے پھلتی پھولتی ہیں ۔۔ عشق پیچاں اور ہجر کی علامت ہیں ۔۔۔قومی اخبار کےمالی کی زندگی میں بھی بارہا بغیر جڑ اور پتوں کی ان آکاش بیلوں نے درخت سے چمٹنے کی کوششیں کیں لیکن ہرمرتبہ ناکامی ان کا مقدر ٹھہری ۔۔ ۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے ۔۔ اجڑے درخت کے نوآموزکار مالی ۔۔ ان آکاش بیلوں کے پیچ وخم کی تاب نہ لاسکے
آپ یقیناً اسے کسی ڈرامے یا انشائیے کا ابتدائیہ سمجھ رہے ہوں گے لیکن حقیقت یہی ہے ۔۔۔میری قومی اخبار سے وابستگی ہی نہیں رہی جنوں کی حد تک عشق رہا … میں فخریہ کہتا ہوں کہ آج جس مقام پر ہوں قومی اخبار اور اسکے بانی کا بڑا کردار ہے ۔۔ میں نے اس اخبار کو خوب ترقی کرتے دیکھا ۔۔۔۔ہرآنےوالا دن کس طرح نئی کامیابی کی نوید لاتا ہے ۔۔ میں نے یہیں پر مشاہدہ کیا ۔۔ اشاعت کے پہلے روز سے نان اسٹاپ آگے کی سمت سفر کرنے والا اخبار ۔۔ سالہا سال کے کامیاب سفر کے بعد یکلخت ۔۔۔۔۔ سرپٹ دوڑتے دورتے لڑکھڑا کر گرپڑا ۔۔۔۔۔مسلسل ریورس گئیر نے ہرچیز ہلاکررکھ دی ۔۔چارمنزلہ قومی اخبار کے درجنوں کمروں میں جہاں کبھی ہرجانب خبر کی صدا آتی تھی ۔۔ نئے آئیڈیاز پر بحث ہوتی تھی ۔۔ اولعزم کارکنان اپنے ایڈیٹر سے اخبار کو خوب سے خوب تربنانے کی صلاح لیتے تھے ۔۔ اب وہاں دردناک خاموشی ہے ۔۔
الیاس شاکر صاحب کی رخصتی کے بعد کراچی کے سب سے بڑے شام کے اخبار کا انتظام وانصرام ان کی دوسری فیملی کے ہاتھ میں آنے کے بعد ناتجربہ کاری آشکار ہوگئی ۔۔مرحوم الیاس شاکر ایک سیلف میڈ شخصیت تھے ۔۔ انھوں نے اپنی زندگی کی کئی راتیں جہانگیر پارک کی گھاس پر ۔۔ اپنے واحد اثاثے اٹیچی کیس کو سرہانہ بناکر گزاریں ۔۔۔۔ایک کمرے کے بوسیدہ فلیٹ میں کئی سال گزار دئیے
لیکن تخلیقی ذہن ۔۔ روایتی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اورآسائشوں کا محتاج نہیں ۔۔۔۔ جہانگیر پارک میں سونے والا یہی شخص ایک دن وہائٹ ہاؤس کا مہمان بنا ۔۔ قومی اخبار کو اشاعت کے اعتبار سے ایک وقت میں سب سے بڑا اخبار بنادیا پاکستان کی نامور سیاسی ۔۔ سماجی شخصیات ۔۔ کھلاڑی ۔۔ فنون لطیفہ سے وابستہ شخصیات ۔۔ اپنا نام ۔۔ ا پنا کام ۔۔ اپنی خبر اس اخبار میں شائع کروانے کو اپنے لئے اعزاز سمجھنے لگیں ۔۔۔ فٹ پاتھ پر بیٹھا عام آدمی ۔۔ دکاندار ۔۔ طالب علم ۔۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں کے مکین ۔ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والی شخصیات سب قومی اخبار کے گن گانے لگیں ۔۔۔اخباری دنیا کے بڑے بڑے پہلوان ۔۔ اکھاڑے میں اتر آئے ۔۔ اسے زیرکرنے کےلئے سارے داؤ پیچ لگائے۔۔ لیکن کچھ نہ کرپائے ۔۔ بغیر کسی سرمائے ۔۔ تعلقات اور وابستگی کے قومی اخبار آگے ہی بڑھتا چلاگیا ۔۔۔وجہ کیا تھی ۔۔مرحوم الیاس شاکر کی کام سے سچی لگن ۔۔ اخبار کےلئے کون اچھا کون برا ۔۔ کھرے کھوٹے کی پہچان ۔۔ تخلیقی ذہن اور کچھ کرنے کی دھن ۔۔۔۔۔انہوں نے بے عمل ۔۔ سازشیوں ۔۔ گفتار کے غازیوں ۔۔ اور بدنیت افراد کو اخبار کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا ۔۔
منظرنامہ بدلا ۔۔ یہ گھس بیٹھیے پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوئے ۔۔ ۔۔ اپنی اپنی دکانیں سجاکر بیٹھ گئے ۔۔ جس سے جیسا سودا بنا ۔۔ دام کھرے ۔۔ مال مفت دل بے رحم ۔۔ قومی اخبار پر حکمرانی کرنے والے یہ عناصر مرحوم الیاس شاکر کے دور میں ناپسندیدہ شخصیات اور اخبار کےلئے زہرقاتل کی فہرست میں شامل تھے ۔۔۔اس کی ایک نہیں کئی وجوہات تھیں ۔۔ ان کانہ اخبار کی ادارت سے کوئی تعلق تھا ۔۔ نہ مارکیٹنگ سے ۔۔تدوین واشاعت سے بھی ان کا کبھی لینا دینا نہیں رہا ۔۔۔آج بزعم خود اخباری چیمپیین قرار دینے والی ان شخصیات میں بیشتر کے کریڈٹ پر ناکامی اور بدعنوانی کی ایک ایک نہیں کئی کئی داستانیں موجود ہیں
یہ آکاش بیلیں ۔۔ کون کون سی ہیں ۔۔ ان پر تفصیل سے بات کرنا ہوگی ۔۔ جو کبھی اخبار کے زیرک ایڈیٹر کی نظر میں اخبار کےلئے خطرہ چارسوچالیس ووٹ تھے ۔۔ آندھی چلی ۔۔ گرد بیٹھی ۔۔ تو وہی لوگ نوآموز بچوں کو دلار کر ۔۔ پچکار کر ۔۔ سہانے خواب دکھا کر اخبار کے خیرخواہ بن گئے ۔۔۔۔ ۔ ۔ اخبار کی بہتی گنگا میں یہ لوگ ہاتھ ہی نہیں دھورہے بلکہ پورے اہتمام کے ساتھ اشنان کررہےہیں ۔۔سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو ذبح کرکے ایک ساتھ ہی سارے انڈے نکالنے کے کارخیر میں بھی سب اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخبار کی سرکولیشن ستر ہزار سے گر کر پانچ ہزار ہوگئی ۔۔سٹی پر چھوٹے سے اشہتار کے ریٹ کے برابر فرنٹ پیج پر آدھے پیج کا کلر اشہتار لے کر بغلیں بجائی جاتی ہیں ۔۔ نعرہ ہائے مستانہ بلند کئے جاتے ہیں ۔۔۔خود کو مارکیٹنگ کا ان داتا قرار دیا جاتا ہے ۔۔رہے مالکان تو وہ چھوٹے نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔۔کیونکہ ان کےلئے یہی رقم بہت ہے ۔۔ پچاس سال سے زائد تک بے مثال جدوجہد کرکے قومی اخبار کو ایک اخباری ایمپائر بنانے والے الیاس شاکر کےمقابلے میں چندماہ کے تجربے کے حامل نوجوان سرشاری کےعالم میں دعوے کررہے ہیں کہ وہ اخبار کےبانی کے مقابلے میں کہیں بہترکام کررہے ہیں
بات طویل ہورہی ہے ۔۔ ان آکاش بیلوں سے میں بہ خوبی واقف ہوں ۔۔ ان کا فردا فردا تذکرہ بھی کروں گا ۔۔سب سے پہلے ذکرکرنا پڑے گا ۔۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کا ۔۔ بلامبالغہ اخبار کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایڈیٹر ہی بیٹھتا ہے ۔۔۔۔۔حال ہی میں غیرقانونی ترقی پاکر ایڈیٹر کے منصب پر بیٹھنے والا نام نہاد ایڈیٹر ۔۔۔۔ ساری عمر ٹینڈر اور دیگر سرکاری اشتہارات کے ترجمے کرنےوالا ۔۔ یا جن اخبارات میں گیاان پر تالے لگواکر یا پھر برطرفی کا پروانہ تھام کر خیر سے گھر کو لوٹنے کا تجربہ رکھنے والا شخص ۔۔۔ قومی اخبار اس کےلئے بھی سونے کی چڑیا ثابت ہوا ۔۔۔۔۔۔یہ وہی شخص ہے جسے مرحوم الیاس شاکر نے اپنی زندگی میں مترجم سے زیادہ کا عہدہ نہ دیا ۔۔ کئی مرتبہ فارغ کیا گیا ۔۔
خود کو ون مین آرمی قرار دے کرنوآموز انتظامیہ کو شیشے میں اتارنے میں والا یہ شخص کسی طرح یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا ۔۔ کہ وہ اکیلا ہی سب کچھ کرسکتا ہے ۔۔ وہ اخبار جس کے نیوزروم میں ایک شفٹ میں دس سے بارہ سب ایڈیٹرز ہوتے تھے وہ سکڑ کر ایک سب ایڈیٹر تک محدود ہوگیا ۔۔ سارے دریا کا پانی پینے کی خواہش نے زور پکڑا تو ۔۔ اپنے سابقہ کام یعنی اشتہارات کا ترجمہ ۔ اس کا ٹھیکہ بھی خود لے لیا اور یوں اس کام کو عمدگی سے سالہاسال سے انجام دینے والے غریب کارکن کی روزی بھی کنڈے سے کھینچ کر اپنی گود میں گرادی ۔۔ ایک طرف جہاں ملازمین کو جبری برطرفیوں۔۔ قلیل تنخواہوں میں سے غیرقانونی بھاری بھرکم کٹوتیوں کا سامنا ہے ۔۔ یہ حضرت نائٹ الاؤنس ۔۔ ٹرانسپورٹ الاؤنس ۔۔ صبح کی شفٹ کی سیلری ۔۔ کھانے کا بل بھی وصول کررہے ہیں ۔۔۔
ان مراعات کے عوض ان کاکام صرف انتظامیہ کو مسرور رکھنا ہے ۔۔ رہ گیا اخبار تو اس کا جو حشر نشر ہوا ہے ۔۔ وہ روزانہ اشاعت کے بعد سب کے سامنے عیاں ہوجاتا ہے ۔۔اخبار سے رپورٹرز کی خبریں غائب ہوگئی ہیں ۔۔
No one cover karachi like we do
یعنی کراچی کی جتنی اچھی ترجمانی قومی اخبار کرتا ہے وہ کوئی نہیں کرتا کے نعرے کو مذاق بنادیا گیا۔۔تحقیقی، تفتیشی خبریں سرے سے ہی موجود ہی نہیں ۔۔اخبار کی پالیسی کے یکسر خلاف وہ خبریں بھی نظر آنے لگیں جن سے کسی قسم کی وابستگی کی بو محسوس ہوتی ہے ۔۔سارے کام آٹو پر چلے گئے حتی کہ خبریں بھی ۔۔۔۔۔صبح شائع ہونے والے موقر اخبارات کی خبریں بغیر کسی کاٹ چھانٹ کی من وعن انہی سرخیوں کے ساتھ چھاپی جانے لگیں ۔۔یہاں تک کہ ایک روز قبل ہی اخبارات کی ویب سائٹس سے ان کی انہی سرخیوں کے ساتھ خبریں شائع کرنا معمول ہے ایکسپریس کی ویب سائٹ اس کی ایک مثال ہے تواتر کے ساتھ یہی عمل دہرانے کی وجہ سے ایڈیٹر موصوف کو خود اخبار کے سینیر کارکن کاپی پیسٹ ایڈیٹر کا لقب دینے پر مجبور ہوگئے ۔۔اس نام نہاد ایڈیٹر کو دیہاڑی دار ایڈیٹر بھی کہا جاتا ہے آج قومی اخبار دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں کرائم کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ اخبار میں دانستہ طور پریہ تاثر ابھارنےکی کوشش کی گئی کہ اب اخبار میں خبر کی نہیں صرف اشتہار کی ضرورت ہے ۔۔ اس سوچ پر سوائے ماتم کہ اور کیا کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اس کاکام صرف انتظامیہ کوخوش کرنا ہے ۔۔ اس کےلئے وہ صحافتی اقدار کو ہرطرح سے پامال کرنے کےلئے تیار ہے ۔۔۔ اخبار کے گنے چنے سینیر رپورٹر اس کے خاص نشانے پر ہیں ۔۔ مالکان کی خوشنودی کےلئے پہلے ان کے نام کریڈٹ لائن سے ہٹوائے اور اب ان کی انتہائی محنت سے تیار کی گئی رپورٹس کو فخریہ انداز میں ردی کی ٹوکری کی نذر کرنا اس کا مشن ہے ۔۔ایک سینیر صحافی اور رپورٹر کی حیثیت سے میرے لئے یہ سب کچھ انتہائی دل آزار ہے ۔۔ میں بھی قومی اخبار کے اس سفر میں برابر کا شریک رہا ہوں ۔۔ میں نے ہرسردگرم دیکھا ۔۔ اب یہ دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔۔اس کاریگر نے اخبار کا جو حشر کیا وہ اس کی سرکولیشن سے واضح ہے ۔۔۔۔۔قومی اخبار کی آکاش بیلوں میں سے یہ ایک آکاش بیل ہے ایسے کئی آکاش بیلیں اور ہیں ان کا تذکرہ بشرط زندگی اگلی اقساط میں ضرور کروں گا۔۔(راؤ محمد جمیل)