سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں ایک میڈیا سیل بنایا گیا جس کا کام پی ٹی آئی کی طرف سے سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا پر نواز شریف حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی گفتگو کا توڑ کرنا تھا۔ اس میڈیا سیل کو مریم صاحبہ ہیڈ کررہی تھیں۔ روزنامہ دنیا میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ اس گروپ کی ناشتے پر ملاقات ہوتی تھی‘ گزشتہ رات کے ٹی وی چینلز کے پروگرامز کا جائزہ لیا جاتا تھا‘ شوز میں شریک (ن) لیگ کے لیڈروں کی کارکردگی پر شاباش دی جاتی تھی۔ اینکرز اور چینلز کو ہینڈل کرنے پر بھی گفتگو کی جاتی۔ ہمارے ایک صحافی دوست بھی اُس گروپ میں شامل تھے۔ وہ صحافت چھوڑ کر اہم سرکاری عہدے پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے جب مریم نواز کو صحافیوں کو براہِ راست فون کرکے باتیں کرتے دیکھا تاکہ اُن کے ساتھ ایک پروفیشنل لنک بنایا جائے تو اُس سابق صحافی نے کہا کہ آپ یہ کیا کررہی ہیں‘ آپ کس کس کو مینج کریں گی‘ ایک کو کریں گی تو دس شروع ہو جائیں گے۔ مریم نواز نے پوچھا تو پھر کیا کریں؟ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی کہ آپ چینل مالکان کے ساتھ براہِ راست رابطہ کریں‘ وہ اپنے اینکرز کو خود ہینڈل کر لیں گے۔ جو اینکر آپ کے سامنے نخرے کرے وہ اپنے چینل مالکان کے سامنے بھیگی بلی بن کر وہی کرے گا جو اُس کا مالک کہے گا جس سے اس نے ہر ماہ تنخواہ کا بھاری چیک وصول کرنا ہے۔ یہ بات مریم نواز کی سمجھ میں آئی اور یوں مالکان سے براہِ راست رابطے شروع ہوئے اور میڈیا کو مینج کرنا آسان ہوتا چلا گیا۔ یہ الگ بات کہ وہی ہمارے صحافی دوست جب حکومت سے نکلے تو پچھتاتے تھے کہ انہوں نے کیوں یہ مشورہ دیا تھا۔ ایک دن اُن کے اپنے خلاف بھی فون کال اس چینل کو موصول ہوئی جس میں وہ پروگرام کرتے تھے۔ بعض دفعہ تو مریم نواز نے ان ناشتوں پر اپنے ان لیڈروں کے لیے تالیاں بھی بجوائیں۔ اس گروپ میں محمد زبیر‘ دانیال عزیز اور طلال چوہدری سمیت دیگر بھی شامل تھے۔ پھر شام کے ٹی وی شوز کیلئے حکمت عملی بنائی جاتی۔ حکومت اشتہارات کے ذریعے ٹی وی چینلز کو سنبھالنے میں لگی ہوئی تھی۔ چینل مالکان کو اینکرز بارے بھی ہدایات دی جارہی تھیں کہ فلاں کو نکال دیں‘ فلاں کو رکھ لیں۔ ریٹنگز کنٹرول کرنے کا منصوبہ بھی تھا اور مخالف اینکرز کے شوز کو اشتہارات نہ دینے کا بھی۔