تحریر:سید سجاد حسین زیدی۔۔
دوہزار بائیس میں ، میں نے بول نیوز میں بطور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر شمولیت اختیار کی۔ ابتدا میں مارننگ شو میں ایڈیٹنگ اور پروڈکشن کی ذمہ داریاں سنبھالتا رہا۔ میری صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے میرے پرانے ساتھی، عمیر فاروقی بھائی نے مجھے پرومو ڈیپارٹمنٹ میں شامل کیا، جہاں میں نے دن رات محنت کر کے بے شمار پروموز شوٹ کیے اور ایڈیٹ کیے۔
دوہزار پچیس کی فروری تک میں نے بول کے لیے بھرپور کام کیا۔ صحت کی خرابی کے باعث زیارات پر بھی نہ جا سکا۔ 19 فروری کو عمیر بھائی نے مجھ سے کہا کہ انتظامیہ ری اسٹرکچرنگ کر رہی ہے، اس لیے میں رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دوں۔ میں نے جنوری کی تنخواہ کے انتظار میں کچھ وقت لیا، لیکن جب وہ بھی نہ ملی تو لاہور سے آنے والی ایک آفر پر میں نے استعفیٰ دینا ہی بہتر سمجھا۔
رمضان گزر گیا، عید بھی گزر گئی، لیکن آج تک میری تنخواہ ادا نہیں کی گئی۔ اب مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں اور میرے خلاف سازش کی جا رہی ہے، صرف اس لیے کہ میں نے خاموشی سے استعفیٰ دیا تھا؟
بول میں میرے جیسے کئی محنتی ملازمین نے سالوں تک بغیر کسی میڈیکل، پی ایف فنڈ یا مناسب سہولیات کے کام کیا۔ نئے ایچ آر ہیڈ،، جنہیں نہ چینل کا تجربہ ہے نہ ٹیم مینجمنٹ کا، وہ اب اپنی ذاتی انا کی بنیاد پر میری 72,000 روپے کی واجب الادا تنخواہ روک کر بیٹھے ہیں۔
یہ پوسٹ کسی نفرت، تلخی یا الزام تراشی کے لیے نہیں — بلکہ ایک سادہ سی فریاد ہے۔ حق مانگنا جرم نہیں ہوتا۔ میں بس چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ انصاف ہو، اور جو حق ہے، وہ ادا کیا جائے۔سچ بولنا مشکل ہوتا ہے، پر خاموش رہنا خود سے ناانصافی ہے۔(سید سجاد حسین زیدی)۔۔