qomi o riyasat akhbar ke khilaaf cybercrime darkhuast

ایک روشن چراغ تھا ، نہ رہا

تحریر: علی عمران جونیئر۔۔

سائیں !!!! کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔۔۔ ہرمسئلہ کا حل ہے۔۔ اور مشکلات سےنمٹنا ہی اصل جوانمردی ہے ۔۔۔ یہ تھا فلسفہ ۔۔ پالیسی اور نظریہ حیات ۔۔۔۔ قومی اخبار کے مرحوم بانی  الیاس شاکر کا ۔۔۔۔چاہے قومی اخبار میں بم دھماکہ ہوجائے۔۔۔ بڑے سے بڑا مالی نقصان ہوجائے ۔۔ کوئی ساتھ چھوڑ جائے ۔۔۔الیاس شاکر نے کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔۔ مایوسی کا کبھی ایک فقرہ ان کے منہ سے کسی نے نہیں سنا ۔۔ لیکن ۔۔۔۔ قومی اخبار کا یہ سپرمین ۔۔۔۔۔۔ایک دفعہ پریشان نظرآیا ۔۔ ملول ۔۔ افسردہ ۔۔ آنکھوں کی وہ چمک بھی غائب تھی جو بڑے سے بڑے بحران میں دمکتی نظر آتی تھی ۔۔۔۔۔چھ اپریل 1990 کو پی ایس ایف کراچی کے صدر نجیب احمد کے قتل کے بعد خصوصی ضمیمہ کی اشاعت پر قومی اخبار کا بائیکاٹ کردیا گیا ۔۔ قومی اخبار کی دس روز تک اشاعت ممکن نہ ہوسکی ۔۔قارئین سمجھ رہے ہوں گے کہ الیاس شاکر اخبار کی بندش پر پریشان ہوئے ہونگے  ۔۔ مایوسی کے بادل چھاگئے ہوں گے ۔۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں تھا ۔۔۔ ان کی پریشانی کی وجہ کچھ اور تھی ۔۔ ان کے پاس اس وقت بھی اللہ کا دیا اتنا تھا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہ دن اطمینان سے گزار سکتے تھے لیکن مسئلہ کچھ اور تھا ۔۔ رمضان کا مہینہ تھا ۔۔  الیاس شاکر کو پریشانی اس بات کی تھی کہ ان کے ملازمین کے گھروں میں بونس کی وجہ سے ملنے والی رمضان اور عید کی انمول خوشیاں اس دفعہ نہیں بکھر سکیں گی ۔۔ یہ وقت وہ تھا جب  الیاس شاکر صاحب لی مارکیٹ میں ایک کمرے کے فلیٹ میں رہائش پزیر تھے اور ایک پرانی موٹرسائیکل ان کی سواری تھی ۔انھوں نے بغیر کسی توقف کے فیصلہ کیا کہ وہ  ساری زندگی بغیر کسی صلے کی خواہش کے ساتھ دینے والی پہلی اہلیہ کے تمام زیورات جو ان کی اہلیہ نے بڑے چاؤ کے ساتھ بنوائے تھے ۔۔ فروخت کردیں ۔۔ انھوں نے جو سوچا ویسا کیا بھی ۔۔ اور اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں ان کی پہلی اہلیہ کی مکمل تائید وحمایت بھی تھی ۔۔ غرض وہ زیورات بیچ دئیے گئے اوراس سے حاصل پیسوں سے ملازمین کو بونس دیا گیا  ۔۔ اہلیہ اور بیٹی کو کہا کہ ہماری اس کوشش کا اللہ بڑا صلہ دے گا ۔ اللہ نے ان کو یقینا بہت بڑا صلہ دیا ۔۔ قومی اخبار کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کی صورت میں ۔۔ یہ ترقی صرف الیاس شاکر کی ترقی نہیں تھی ۔۔ انہوں نے اس ترقی میں اپنے ملازمین کو بھی شامل کیا ۔۔ ان کی فنی تربیت کی ۔۔ ان کے مسائل دیکھے اور ان کو حل کرنے کی ہرممکن سعی بھی کی ۔۔یہی وجہ ہے کہ ان کے زیرتربیت سیکڑوں صحافی آج بڑے بڑے اشاعتی اداروں اور الیکٹرونک میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں ۔۔ اور ایک آسودہ زندگی گزار رہے ہیں ۔۔ اتنی لمبی تمہید کا مقصد آپ کو مرحوم الیاس شاکر کی قومی اخبار اور اس کے ملازمین سے وابستگی سے آشنا کرنا تھا ۔۔

  اب کچھ ذکر قومی اخبار میں رمضان کی بہاروں کا بھی ہوجائے ۔۔ رمضان کی آمد سے پہلے ہی استقبال رمضان کی دھوم دھام سے تیاری ہوتی تھی۔۔ ملازمین کی دمکتے چہرے ۔۔ خود مالک کا جوش وجذبہ ۔۔ ایسا کہ پورے ماہ ماند ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔۔افطار کے دسترخوان پرانواع واقسام کی کیا کیا چیزیں چننی ہیں اس کا فیصلہ کوئی مینجر یا انتظامی افسر نہیں کرسکتا تھا ۔۔ وجہ یہ تھی کہ کہیں کوئی ڈنڈی نہ ماردے ۔۔ یہ فیصلہ الیاس شاکر خود کرتے تھے ۔۔ انھوں نے رمضان میں کجھوروں کی کوالٹی تک پر بھی کمپرومائز نہیں کیا ۔۔ ملازمین کے لئے خصوصی رمضان گفٹ  خریدنے کےلئے خود چلچلاتی دھوپ میں بازاروں کے چکر لگاتے تھے ۔۔۔ ایک دسترخوان قومی اخبار ہاؤس میں سجتا تھا تو کئی دوسرے قومی اخبار کے باہر ۔۔۔اور اس وقت الیاس شاکر کا جوش وجذبہ اپنے جوبن پر پہنچ جاتا تھا جب قومی اخبار کا ایک ایک ملازم یعنی نائب قاصد سے لے کر ڈپٹی ایڈیٹر تک اپنا خصوصی سالانہ بونس وصول نہیں کرلیتا تھا ۔۔ چاند رات کو رات گئے تک وہ خود دفتر میں بیٹھ کر اس بات کو یقینی بناتے کہ کوئی شخص اس بونس سے محروم نہ رہ جائے ۔۔ کچھ لوگوں کو بونس رمضان کے آخری عشرے میں نہ ملنے کی وجہ  اس کے  ملازمین کی تعداد تھی ۔۔ قومی اخبار گو شام کا اخبار تھا لیکن اس کے ملازمین کی تعداد آج کے دور کے کسی بڑے چینل کے ملازمین سے کم نہ تھی ۔۔۔ اتنی بڑی تعداد میں ملازمین کی تعداد پر الیاس شاکر کہتے تھے کہ قومی اخبار ایک گلدستہ ہے اور اس گلدستے کے ہرپھول کی اپنی ایک خوشبو ہے ۔۔اور یہی خوشبو قومی اخبار اور اس کے قاری کو باہم جوڑنے کی وجہ ہے۔۔  دفتری عملے کی کوتاہی یا خود اپنے تساہل سے کوئی ملازم بونس نہ لے پاتا تو اسے واثق یقین ہوتا تھا کہ الیاس شاکر اس کے بونس کی رقم ہڑپ نہیں کرے گا ۔۔۔لوگ عید کی نماز سے چند گھنٹے قبل بھی دفتر آکر خود الیاس شاکر سے اپنا بونس وصول کرسکتے تھے ۔۔۔

  الحمد للہ آج پھر رمضان المبارک کا مہینہ ہے ۔ہرطرف بابرکت مہینے کی رحمتوں کا نزول ہے ۔ چھوٹے چھوٹے اداروں نے اپنے ملازمین کے لئے اپنے اپنے تئیں اہتمام کئے ہیں ۔۔ بہت زیادہ نہیں تو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کا اہتمام کیا گیا ہے ۔۔ چھوٹے ملازمین کےلئے راشن کا اہتمام کیا ہے ۔۔کچھ نے رمضان پیکجز کے نام پر ملازمین کی مشکلات کچھ کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔لیکن تیس اکتیس سال تک رمضان میں ملازمین کی آسودگی کا سامان کرنے کے حوالے سے  کراچی کے بیشتر اشاعتی اداروں کےلئے نظیر بننے والے قومی اخبار میں دردناک مناظر ہیں ۔۔۔۔آہ ۔۔۔بونس تو گیا بھاڑ میں ملازمین تین ماہ کی تنخواہوں کےلئے سسک رہے ہیں ۔۔ تصور کیجئے کسی ملازم کو تین ماہ سے تنخواہ نہ ملی ہو تو اس کے گھر کا کیا حال ہوگا ۔۔ اس کے کچن میں موجود آٹے کے ڈبے میں آٹا ہوگا ؟ محلے کے دکاندار سے وہ کتنا ادھار پر سامان لے سکتا ہے ۔۔ کتنے ہی قومی اخبار کے ملازم ایسے ہیں جن کے بچوں کے نام اسکول فیس کی عدم ادائیگی پر کٹ چکے ہیں ۔۔۔کتنے ایسے ہیں جو مناسب دوا نہ ہونے پر اپنے مرض کئی گنا زیادہ بڑھا چکے ہیں ۔۔اور جو کرائے کےگھر میں رہتے ہیں ۔۔ ان کے بارے میں تو لکھنا بھی محال ہے ۔۔ستم بالائے ستم یہ کہ ان ملازمین کی تنخواہیں کیا ہیں ۔۔ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے ۔۔ حکومت سندھ کی طرف سے مزدور کی کم سے کم تنخواہ پچیس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے ۔۔لیکن قومی اخبار کے بھٹے میں کام کرنے والے قلم کے بیشتر  مزدورں کی تنخواہیں دس اور پندرہ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ۔۔ الامان ۔۔ الامان ۔۔ الامان ۔۔۔لاقانونیت ۔۔ ناانصافی ۔۔ غنڈہ گردی ۔۔ بے رحمی ۔۔۔ بدمعاشی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے ۔۔ لیکن یہاں تمام انتہاؤں کو عبور کرلیا گیا ۔۔ رمضان جیسے مقدس مہینے میں قومی اخبار واحد ادارہ ہے جہاں ملازمین بنیادی سہولتوں کےلئے سسک رہے ہیں ۔۔ وہ قومی اخبار جو کبھی جائے امان تھا ۔۔  اب ملازمین کےلئے جائے عبرت بن چکا ہے ۔۔۔کیا کسی مہذب معاشرے میں ایسا کچھ ہوسکتا ہے ۔۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔۔ اس ادارے میں کیا تخلیقی کام ہوسکتا ہے یا خبر پر بحث کی جاسکتی ہے جس کی عمارت کی غلام گردشوں میں ہروقت یہی نحیف صدائیں گونجتی رہتی ہوں کہ ۔۔ سیلری کب ملے گی ؟؟؟؟

قومی اخبار میں پے درپے سپلیمنٹ لگنے کے بعد ملازمین میں یہ امید ہوچلی تھی کہ نہ صرف ان کے تین ماہ سے تعطل میں پڑے واجبات کلئیر ہوجائیں گے اور شائید بونس کا بھی آسرا ہوجائے لیکن یہ صرف خواب ہی رہا ۔۔ قومی اخبار کے متنازع مالکان نے جو ابھی لڑکپن کے دور میں ہی ہیں انھوں نے اپنے لئے چمچماتی گاڑی ضرور خرید لی ہے اور دیگر شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے لئے رقم ضرور جوڑ لی ہے لیکن ملازمین ۔۔ ان کےلئے میٹر نہیں کرتے ۔۔۔وقت تیزی سے گزرہا ہے ۔۔ وقت کو گزرنا ہی ہے ۔۔ بری بھلی سب کی گزرجاتی ہے ۔۔لیکن ناانصافی ۔۔غریب کی حق تلفی ۔۔۔ اس کا جواب بہرحال دینا ہی پڑتا ہے ۔۔ دنیاوی عدالت میں نہیں تو ایک بڑی عدالت ضرور لگنے والی ہے ۔۔ جہاں پر کڑا احتساب ہونا ہے ۔۔۔۔ہر من مانی ۔۔ ہرجبر۔۔ ہرہٹ دھرمی کا

قومی اخبار میں بگاڑ ایک دم نہیں آیا ۔۔ قومی اخبار کی تیزی سے آگے کی سمت دوڑتی بھاگتی گاڑی کو ریورس گئیر اس وقت لگنے شروع ہوئے جب قومی اخبار کے متنازع مالکان جو ان کی دوسری اہلیہ کے کم عمر صاحبزادگان بتائے جاتے ہیں ۔۔ انھوں نے بزعم خود قومی اخبار کا نظم ونسق سنبھال لیا ۔۔اخبار کو ساری زندگی دینے والے ڈپٹی ایڈیٹر۔۔ چیف رپورٹر ۔۔ سینیر سب ایڈیٹرز ۔۔ جنرل مینجر ۔۔ ایڈمنسٹریٹر سب کو غیرقانونی طور پر فارغ کردیا ۔۔NO ONE COVERS KARACHI LIKE WE DO کے نعرے کی بجائے جو قومی اخبار پیشانی پر چھپتا تھا غیراعلانیہ نعرہ متعارف کروادیا کہ ” مال دو ۔۔ خبرلگاؤ

ایک زمانہ وہ تھا جب قومی اخبار کی تیاری میں لگ بھگ بارہ گھنٹے لگتے تھے ۔۔۔ خبریں جمع کی جاتی تھیں ۔۔ رپورٹروں سے ڈسکس ہوتی تھیں ۔۔ ان کی سرخیاں نکلتی تھیں ۔۔۔ ری چیک کی جاتی تھیں ۔۔ اس سارے عمل میں الیاس شاکر ۔۔ اپنے معاونین کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے تھے یعنی قومی اخبار کی ایک اشاعت کےلئے کم ازکم بارہ گھنٹے کی سعی ۔۔جدوجہد اور کاوش شامل ہوتی تھی ۔۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اخبار کا رنگیلا ایڈیٹر بیس سے پچیس منٹ میں اخبار تیار کررہا ہے۔۔ شائید یہ وہی سائنس ہے جس کا صاحبزادگان کے دعوی کرتے ہیں کہ وہ الیاس شاکر سے زیادہ قومی اخبار کی سائنس کو سمجھتے ہیں ۔۔ نہ ڈپٹی ایڈیٹر۔۔ چیف رپورٹر ۔۔ سینیر سب ایڈیٹرز اوررپورٹرز کا جھنجھٹ نہ وقت کا ضیاع ۔۔۔ اسی لئے اسے سستا سودا سمجھ لیا گیا ہے ۔۔ لیکن انہیں کون سمجھائے کہ یہ سستا سودا نہیں ہے ۔۔ رنگیلا جادوگر بیس سے پچیس منٹ میں جو چیز تیار کرتا ہے وہ اخبار نہیں چیتھڑا ہے ۔۔ اور قومی اخبار کے باذوق اور ذی شعور قاری پیسے دے کر تو کیا مفت میں بھی یہ چیتھڑا خریدنے کو تیار نہیں ہیں ۔۔ اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے  ۔۔ کسی زمانے میں قومی اخبار کی علیحدہ سے گاڑی حیدرآباد جاتی تھی جس میں ہزاروں کاپیاں ہوتی تھیں اور یہ کاپیاں ہاٹ کیک کی طرح حیدر آباد میں بکتی تھیں ۔۔  اب قومی اخبار ایک لفافہ میں جس میں قومی اخبار کی چند درجن کاپیاں ہوتی ہیں بس میں حیدر آباد جاتی ہیں ۔۔ اچھے وقتوں میں کراچی میں صرف میٹروپول ڈپو پر قومی اخبار کی کاپیوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد تھی ۔۔ آج قومی اخبار کی مجموعی اشاعت دوتین ہزار رہ گئی ہے

اخبار میں ان لوگوں کو کرتا دھرتا بنادیا گیا جن کی مرحوم الیاس شاکر کے زمانے میں دفتر میں انٹری بین تھی

راجے مہاراجے رپورٹروں کے روپ دھار گئے ۔۔بلیک میلنگ عروج پر پہنچ گئی ۔۔ ہرخبر کے پیچھے مفادات کا کھیل شروع ہوگیا ۔۔ٹینڈروں کے الٹے سیدھے ترجمے کرنے والے ایک رنگیلے کو جو اخباری سرگرمیوں کی بجائے غیرنصابی سرگرمیوں کی وجہ سے خاصا معروف ہے۔۔ اور اس کے بیرونی ممالک اور اندرون ملک کے دورے بھی سربستہ راز کی طرح ہیں ۔۔ اسے ایڈیٹر کے منصب پر بٹھادیا گیا ۔۔۔۔ قینچی صحافت اور کاپی پیسٹنگ میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔۔اخبار کو یہ گھر کی باندی سمجھتا ہے ۔۔لیڈی ڈائنا کے نام سے معروف یہ شخص  جو کئی اخبارات بند کرانے کا تجربہ بھی رکھتا ہے۔ قومی اخبار کو کافی عرصے سے ویسا ہی بنارہا ہے  جیسے چار سو سے زائد ڈمی اخبار کراچی میں چھاپے جاتے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہوتا اور نہ کوئی پیر ۔۔۔ چشم زدن میں اگر آپ کسی اخبار کو تصور میں لائیں تو یقینا نیوز روم پڑھے لکھے ۔۔۔ مہذب اور خبرنگاری کے فن سے آراستہ لوگوں کا تصور آئےگا لیکن قومی اخبار میں خبریں ڈسکس نہیں ہوتیں ۔۔ یہاں پر موجود خان گروپ ۔۔ گجو گروپ ۔۔ فاروقی گینگ اور اسی طرح کے چھوٹے بڑے مافیاز مال بنانے کے آئیڈیاز پر بحث مباحثے کرتے ہیں ۔۔ گالم گلوچ اور فحش کلامی معمول ہے۔۔ ایسے میں قومی  اخبار پس منظر میں چلا گیا ہے۔۔اخبار میں اب اشتہار کا کوئی ریٹ نہیں ہے ۔۔ فاروقی گینگ المعروف رات کا شکاری ۔۔ یہ گینگ رات کو کھانے کے وقت ان ایکشن ہوتا ہے ۔۔ چکنی چپڑی باتوں میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔۔ یہ حضرت کمال مہارت سے اخبار کی ابجد سے ناواقف لیکن بزعم خود الیاس شاکر سے بڑے اور زیرک دونوجوانوں کو  جو مالک ہونے کا دعوی کرتے ہیں بہ آسانی شیشے میں اتارنے کے فن میں  طاق ہیں ۔۔ شکاری گینگ انہیں چھوٹے نوٹوں کی خوشبو سنگھاتا ہے اور معاملہ سیدھا کرلیتا ہے ۔۔خبر یا اخبار  سے ان گینگز یا نام نہاد مالکان کا کوئی لینا دینا نہیں ۔۔ کیونکہ ان میں سے بیشتر ایسے لوگ ہیں جو اردو میں ایک سطر لکھنے کے بھی اہل نہیں ہیں ۔۔ قومی اخبار کے کمپیوٹر سیکشن میں جہاں ایک زمانے میں کسی کمپیوٹر آپریٹر نے اپنی ڈیوٹی کے بعد کسی دوسرے اخبار کی لوح ڈئیزائن کرلی تھی اس پر الیاس شاکر آگ بگولہ ہوگئے تھے کئی روز تک یہی معاملہ زیربحث رہا اور بالاخر اس آپریٹر کو ہٹادیا گیا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اسی کمپیوٹر سیکشن میں آج کئی اخبارات کے مالک بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور یہ اخبارات یہاں تیار ہوتے ہیں   المناک بات یہ ہے کہ ان ڈمی اخبارات کی کوالٹی قومی اخبار کی کوالٹی سے قدرے بہتر ہوتی ہے ۔۔ کیوں کہ ان ڈمی اخبارات کے مالکان اپنے اخبارات پر نظر رکھتے ہیں ۔۔ اور جو پیسہ دیتے ہیں اور اس کا مصرف بھی طلب کرتے ہیں ۔۔ اس پر صاحبزاگان کو زعم یہ ہے کہ وہ الیاس شاکر سے زیادہ قومی اخبار کی سائنس کو سمجھنے لگے ہیں !!!

اخبار کا ایجنٹ روز صبح اپنا سر دھنتا ہے ۔۔جھگڑے کرتا ہے کہ اس مال کو کیا اٹھاؤں جس کا کوئی مول ہی نہیں ہے۔۔۔اس گھمبیر صورتحال کے باوجود  قومی اخبار اور ریاست کی قیمت بھی بغیر کسی منطق کے بڑھادی گئی ہے اور اس کےلئے مثالیں کراچی کے ایک موقر اردو روزنامے کی دی جاتی ہیں ۔۔جواپنے ادارتی مندرجات اور اہل عملے کے ساتھ کام کررہا ہے ۔۔۔

 اب مرے پر سودرے کے مصداق قومی اخبار کی اشاعت کے  34سال بعد اخبار کی انتظامیہ نے یکم رمضان سے قومی اخبار اب صبح کے اوقات میں نکالنے کا فیصلہ کیا ہے ۔۔ جس کے بعد کراچی سے شام کی صحافت کا خاتمہ ہوگیا۔۔شہر میں اک روشن چراغ تھا۔۔۔ نہ رہا۔۔(علی عمران جونیئر)۔

(قومی و ریاست اخبار کی انتظامیہ اگر اس تحریر کے حوالے سے اپنا کوئی موقف دینا چاہے یا اس اس تحریر کا کوئی جواب دینا چاہے تو ہم ضرور اسے من و عن شائع کریں گے۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں