aik rog ka sog

اک روگ کا سوگ ۔۔۔

تحریر:   سید عارف مصطفیٰ

 موبائل سے پہلے انسانوں کے پاس شاید کرنے کو بہت کم ہی کام ہواکرتے تھے اسی لیئے موبائل نے آتے ہی یہ گنی چنی مصروفیتیں بھی سمیٹ لیں ۔۔۔ بیشک اس سے قبل کے زمانوں میں لے دے کے ہر گلی کے خلیل خان پرائی فاختہ اپنی طرف اڑانے کی کوششوں میں ہی توانائی لگاتے تھے یا پھر چوراہوں چوباروں پہ گاہے گپ بازیاں و تاش بازیاں اور گاہے خوش خوراکیاں و خارش خواریاں مصروف کیئے رکھتی تھیں مگرپھر بھی مطالعے کی خواہش کا راج تھا اور قابل ذکر مصروفیتوں میں کتب بینی ہی سب سے طویل مصروفیت تھی جو درحقیقت سب سے جانا مانا غیرطبی نوعیت کا دیرینہ روگ ہوا کرتا تھا ،قطعی ناقابل علاج روگ ۔۔ لیکن اب تو یہ محض جوگ ہے کہ جو لوگ پڑھنے کی رغبت ظاہر کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر نے بھی محض کتاب کے شیدائی کا روپ دھارن کیا ہوا ہوتا ہے اور گاہے کتاب بغل میں لے کے نکلتے بھی دکھتے ہیں لیکن پڑھتے کبھی نہیں دکھتے ہے ۔۔۔ البتہ وہ کتاب سے اتنا فیض ضرور پاتے ہیں کہ کبھی تکیہ نہ ملے تو چار پانچ کتابین سرہانے رکھ کے بخوبی سوجاتے ہیں ۔۔۔ تاہم ان میں کوئی کتاب ‘ اصلی و باتصویر؛ ہو تو اس قدر غرق مطالعہ ہوجاتے ہیں کہ آتی نیند بھی اڑا بیٹھتے ہیں ۔۔۔

 ہمارے زمانے میں ملیریا سے زیادہ پھیلاؤ لائبریریا کا تھا ۔۔۔ اکثر جگہ تو نشست ملنی بھی مشکل ہوجاتی تھی اور کسی کی گود میں پڑھنے کا رواج تب بھی نہ تھا ۔۔۔ بس کسی پہ خداترسی غالب آجائے تو آدھی کرسی پہ شریک کرلیا کرتا تھا ۔۔ جو اگر قد کاٹھ میں بڑا ہو تو اسکی گرم سانسیں گردن پہ محسوس کرتے ہوئے بھی مطالعہ جاری رکھتے تھے ۔۔ ایسی پیوست نشینی میں اگر کبھی کھجلی َہوجاتی تو بھرپور خدشہ یہ رہتا تھا کے کہیں ہم نشین کی ٹانگ نہ کھجا بیٹھیں ۔۔۔ لیکن اب تو عالم یہ ہے کہ کولیسٹرول اور کتاب دونوں ہی شدید پرہیز کے درجے میں ہیں ، کبھی اتفاقی طور پہ بدپرہیزی ہوجائے تو بات دیگر ہے۔۔ اسی باعث نوبت یہ ہے کہ اب لائبریریوں میں خاک اڑتی ہےجو کتابوں پہ پڑتی و بڑھتی دھول سے اٹھتی ہے ۔۔ آج کل تو بس کبھی شدید بارش ہوجائے تبھی لائبریری بھرپاتی ہے کہ باہر سےگزرتے ہر ذی نفس کو یہاں باآسانی پناہ مل جاتی ہے۔۔

ہمارے لڑکپن کے دنوں آنہ لائبریری کی وباء عام تھی مگر ہماری جیب میں اک آنے کا آنا بھی کم کم ہی ہوتا تھا ۔۔ اسی معاشی آنا کانی کے باعث ہم نے اپنے لائبریریا کا شافی علاج دو مطالعاتی مراکز میں ڈھونڈھ لیا تھا جن میں ایک تو ناظم آباد میں شبیر احمد عثمانی لائبریری تھی جوریلیکس سینماء سے متصل تھی کہ جہاں سے گزرتے ہوئے وہاں آویزاں آنسہ نازلی و نجمہ کی ہوشرباء مطالعے کے بیچ بھی ، سامنے آتی رہتی تھیں اسی لیئے ہم نے متعدد کتب کے اندر کئی صفحات ‘رال زدہ’ سے پائے۔۔۔۔۔

 ہمارا دوسرا علمی سائبان غالب لائبریری تھی جو کہ عمارت کے فرسٹ فلورپہ تھی ۔۔۔ یہ گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے کچھ یوں ملحق تھی کہ اسکے تجاوزات میں دکھتی تھی، گورنمنٹ کالج کے ساتھ ہی ہمارا گورنمنٹ اسکول بھی واقع تھا ، لیکن ہم نے دونوں تعلیمی اداروں کے طلباء کو اس لائبریزی سے ہمیشہ یوں دور بھاگتے ہی پایا کے جیسے  وہ اسے اپنے تعلیمی ادارے کے اضافی کلا س رومز باور کرتے تھے ۔۔۔۔ کچھ ملال نہیں لیکن اس میں کیا شک ہے کہ غالب لائبریری تو ہمارا بچپن سموچا نگل گئی ۔۔ یہاں ہونے والی جاندار ادبی تقریبات اور شاندار اہل ادب سے ملنے کے پے درپے مواقع ملنے کے باوجود گو ہم کبھی بالغ النظر تو نہ بن سکے البتہ یہاں منٹو اور عصمت چغتائی سے ہمیں یکایک بلکہ آناً فاناً بالغ‌ ہونے میں بڑی مدد ملی ۔۔۔

 اب برسوں سے لائبریری نچلی منزل پہ اتر آئی ہے لیکن اسکی عظمت و شہرت پاتال میں ہے کہ اب شرفاء وہاں کم ہی جاپاتے ہیں کیونکہ یہ لائبریری آجکل رینجرز کے دفتر کی آغوش میں بلکہ نرغے میں ہے جس کے باعث سامنے سے آمد کا آسان رستہ مسدود ہے کیونکہ شاید وہاں رسائی کی کوشش کرنے اور پڑھنے والا ہر فرد ہی اس ادارے کے لیئے یقینی طور پہ یا تو مردود ہے یا پھر مشکوک ہے۔۔ اب لوگ چاروں طرف دیکھ کے بڑی ہی احتیاط سے یہاں آتے ہیں جیسے یہ منشیات کا کوئی اڈا ہو یا کوئی بینک سے پیسے نکلوا کے واپسی جاتا ہو ،،،، اس لائبریری کا نوحہ ہم نے الگ سے لکھ رکھا ہے پھر کبھی پیش کرینگے۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں