تحریر: علی حسن۔۔
عوامی تحریک انصاف کے نام سے ایک اور سیاسی جماعت کی تشکیل کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ اس نئی جماعت کا قیام ان عناصر کے سر ہوگا جو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ کسی نہ کسی وجہ سے عداوت اور اختلاف رکھتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ نئی سیاسی جماعت کے منشور کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ اس سیاسی جماعت کا نام جہانگیر ترین کے حامیوں نے ” عوامی تحریکِ انصاف ” کثرتِ رائے سے تجویز کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عوامی تحریکِ انصاف بنائے جانے میں جہانگیر ترین کو دیرینہ ساتھیوں علیم خان، مخدوم خسرو بختیار، عون چوہدری، چوھدری سرور، اسحاق خاکوانی و دیگر نامور سیاسی شخصیات کا مکمل تعاون شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پارٹی پرچم تین رنگ کا ہوگا جس میں س ±رخ، سفید اور سبز رنگ شامل ہوں گے ۔ انتخابی نشان البتہ ابھی زیرِ غور ہے۔ بعض سیاسی عناصر نے سوال ا ±ٹھایا ہے کہ جہانگیر ترین کی سیاسی جماعت اپنی جگہ بنانے میں کہاں تک کامیاب ہوگی ؟ جواب میں ان کی حمایت کرنے والے استدلال پیش کرتے ہیں کہ ق لیگ 10 نشستوں کے ساتھ آج وزیرِ اعلٰی (چوہدری پرویز الاہی ) رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم ہمیشہ سے اقتدار میں ہی نظر آئی۔ جے یو آئی ف نے صرف دو نشستوں کے ساتھ بادشاہ گر کا کردار ادا کیا اور عمران خان کی حکومت گرادی ۔ عوامی مسلم لیگ صرف ایک نشست کے ساتھ اہم وزارت (شیخ رشید احمد) پر براجمان رہی ۔ تو گویا جہانگیر ترین کی مجوزہ جماعت کو ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ا ±بھر نے میں کیا رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ ان کے حامی دلیل دیتے ہیں کہ ” ترین وہ شخص ہیں جنہوں نے 28 سالہ پ ±رانی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے م ±ردہ گھوڑے میں جان ڈال دی تھی اور ا ±سے زمین پر سے ا ±ٹھا کر مسندِ اقتدار پر لا بٹھایا اور جہانگیر ترین بادشاہ گر کہلا ئے “ ۔ ترین حامی بعض عناصر ان کی اہمیت میں اضافہ کی غرض سے دور کی یہ کوڑی بھی لائی ہیں کہ ” جہانگیر ترین اسٹیبلشمنٹ کی خواہش و اصرار پر نئی سیاسی جماعت بنانے پر رضامند ہوئے ہیں “۔ جہانگیر ترین گروپ کے تمام ممبران عوامی تحریکِ انصاف کا حصّہ ہوں گے اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک بھر سے سیاسی رہنماﺅں نے جہانگیر ترین سے رابطے شروع کر د ئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترین کی جماعت 2023ءکے الیکشن میں حصہ لے گی۔ پاکستان میں سیاست اور اسٹبلشمنٹ آج کل لازم قرار دئے جاتے ہیں۔ ترین اور ہمنواﺅں کو خوش فہمی ہے کہ اسٹبلشمنٹ اقتدار کی ”بندر بانٹ“ کے موقع پر انہیں بھی موقع دے گی۔ سیاسی جماعت کو ایسی کنیز کی حیثیت دی جاتی ہے جو کسی بھی وقت اپنے مالک کی کسی بھی خواہش پوری کر سکتی ہو۔
جہانگیر ترین عمران حکومت کے اوائل دور میں مشہور شوگر اسکینڈل کا شکار ہو گئے تھے ۔ وہ اور بعض دیگر افراد ملک میں شکر کا بحران پیدا کرنے اور اس کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرنے کے الزام کا شکار ہوئے تھے۔ حکومت نے ایف آئی اے سے تحقیقات کرائی تھیں وہ رپورٹ ریکارڈ کو ھصہ ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کے خلاف 2017 میں صادق اور امین نہ ہونے کا فیصلہ بھی دیا تھا اور انہیں تا حیات نا اہل قرار دیا تھا۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی جائیداد اور سرمایہ کا ذکر اپنے اثاثوں میں نہیں کر سکے تھے ۔ انہوں نے صنعت اور سیاست میں مختصر عرصے میں اپنے رشتہ داروں کے مقابلے میں مثالی ترقی حاصل کی ہے۔ تحریک انصاف کے عروج کو ان کے حامی ان کا کردار قرار دیتے ہیں۔ سیاست میں پیسہ کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے اور سب ہی لوگ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ انہیں سرمایہ کاروں کی سرپراستی حاصل رہے۔ سرمایہ کار سمجھتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاری کر کے حکومت کی سرپرستی حاصل کر کے بے دریغ پیسہ بنا سکیں گے۔ پاکستان میں سیاسی میدان میں جماعت کی مقبولیت کی ایک اور بنیادی وجہ اس جماعت کے مقررین ہوتے ہیں۔ عوامی لیگ میں شیخ مجیب الرحمان اور پیپلز پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کے استحصال کو اپنے پرو پگنڈہ کا موضوع بنایا تھا اور شیخ مجیب بلا کے شعلہ بیاں مقرر تھے ۔ پیپلز پارٹی نے پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے تاشقند معاہدہ کو بنیاد بنایا تھا۔ جس طرح موجودہ دور میں عمران خان نے امریکہ کا اشو بنایا ہے۔ لیکن عمران خان کو اشو سے کہیں زیادہ دیگر کئی وجوہات جس میں کرپشن سر فہرست ہے، کی بنیاد پر مقبولیت حاصل ہے۔ سیاسی جماعتوں نے پاکستان عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی قابل قدر اور ذکر کام ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے عمران خان کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
پاکستان میں ویسے بھی لا تعداد سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں عوام سے براہ راست رابطہ پر یقین ہی نہیں رکھتی ہیں۔ الیکشن کمیشن میں 154 جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ مسلم لیگ کے نام سے ہی کم از کم نو جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ویسے اس ملک میں قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والی جماعت جس طرح تقسیم در تقسیم ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ وجہ صرف ایک ہی رہی کہ تقسیم کے ذمہ داروں کو اقتدار چاہئے تھا اور مسلم لیگ کا نام استعمال کرنا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ، عوامی مسلم لیگ، کنونشن مسلم لیگ (صدر ایوب کے لئے جماعت تشکیل دی گئی) ، جب مادر ملت فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلہ میں صدراتی انتخاب میں حصہ لیا تو مسلم لیگ کونسل کہلائی تھی۔ جناح مسلم لیگ، جونیجو لیگ، ن لیگ، کیو لیگ۔ پیپلز پارٹی کو بھےی تقسیم کا سامنا رہا۔ پروگریسو پیپلز پارٹی، مساوات پارٹی، نیشنل پیپلز پارٹی۔ جس انداز میں آج جہانگیر ترین کے نام کو کامیابی کی ضمانت قرار دیا جارہا ہے اسی طرح ماضی میں نیشنل پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت غلام مسطفے جتوئی کا نام قرار دیا جاتا تھےا لیکن کئی بڑے ناموں کے ناجود این پی پی کچھ نہیں کر پائی۔ نیشنل عوامی پارٹی پر جب بھٹو دور میں پابندی لاگئی گئی تو عوامی نیشنل پارٹی قائم کر دی گئی۔ نیپ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان تقسیم تھیں۔ مغربی پاکستان میں ولی خان سربراہ تھے تو مشرقی پاکستان میں مولانا عبدالحمید بھاشانی سربراہ تھے ۔ مغربی پاکستان میں نیپ تمام زبانیں بولنے والوں کی جماعت تھی جو اس سکڑ کر صوبہ کے پی کے کے پٹھانوں تک محدود ہو گئی ہے۔
پاکستانی جمہوریت میں سیاسی جماعت تشکیل دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھنے اور پوچھنے والا ہے کہ پارٹی سے الیکشن میں کتنے ووٹ حاصل کئے۔ پارٹی کے قیام کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ اس وقت ملک میں میدان سیاست میں جو سیاسی جماعتیں دندناتی پھر رہی ہیں ان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پاکستان مسلم لیگ نواز شریف گروپ عرف عام میں ن لیگ، جمیعت علماءاسلام (مولانا فضل الرحمان گروپ) شامل ہیں۔ لیکن حاصل کیا ہے۔ سوائے اقتدار ھاصل کرنے کے کچھ اور مقصد نہیں ہے۔ یہاں جمہوریت ایسی ہی بنا دی گئی ہے جس کا مقصد سوائے اقتدار حاصل کرنے کے کچھ اور نہیں۔ اسی وجہ سے نہ جمہوریت پنپ سکی ہے اور نہ ہی عوام کو ان کے مسائل کی طرف سے اطمینان حاصل ہو سکا ہے۔ (بشکریہ جہان پاکستان)