تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے با اخلاق صدر برادرم اخلاق باجوہ بھی داغ مفارقت دے گئے۔۔۔جناب تنویر عباس نقوی اور جناب حافظ ظہیر اعوان کے بعد یہ ایک اور ناگہانی موت ہے جو گھائل کر گئی۔۔اخلاق باجوہ سےبھائی چارے کو دو دہائیاں ہوتی چلی ہیں۔۔۔وہ دو ہزار پانچ میں پہلی بار برادرم عارف چودھری کی بارات پر ملے کہ وہ عارف کے اکلوتے برادر نسبتی اور میزبان بھی تھے۔۔پھر وہ صحافی بن گئے اور ان سے اچھا تعلق بھی استوار ہو گیا۔۔وہ باادب آدمی تھے اور بامراد بھی ٹھہرے۔۔یادش بخیر۔!!دو ہزار چھ میں مجھے پہلی بار عمرے کی سعادت نصیب ہوئی تو اخلاق باجوہ صاحب اتنے جذباتی ہوگئے جیسے خود حجاز مقدس جا رہے ہوں۔۔۔ کہنے لگے میں نے نئی منی پجارو لی ہے۔۔میں نے آپ کو اپنی گاڑی پر ائیرپورٹ چھوڑ کر آنا ہے۔۔پھر انہوں نے مجھے اور میری خالہ کو گھر سے لیا اور مقدس سفر کے لیےالوداع کہہ کر آئے۔۔تب تنویر عباس نقوی صاحب بھی لاہور میں ہی تھے۔۔۔میں انہیں بھی روزنامہ لیڈر کے دفتر مل کر عمرے پر گیا۔۔۔دو ہزار سات میں جناب نجم سیٹھی کی زیر ادارت روزنامہ آج کل کی ٹیم کا انتخاب ہونے لگا تو برادرم عارف چودھری نے کہا کہ تنویر عباس نقوی سے اخلاق باجوہ کی سفارش بھی کریں۔۔میں نے نقوی صاحب سے ایک اور درخواست کردی۔۔انہوں نے باجوہ صاحب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ اتنا خوب صورت رپورٹر کہاں سے لائے۔۔؟؟؟پھر انہوں نے باجوہ صاحب کا تحریری امتحان لیا اور مجھے مخاطب کرکے کہا کہ آپ کا امیدوار دیکھنے میں تو جرمن لگتا تھا لیکن نکلاپٹھان۔۔میں اور عارف چودھری نے باجوہ صاحب کو حوصلہ دیا کہ نقوی صاحب ذرا سخت ایڈیٹر ہیں گھبرانا نہیں۔۔پھر وہ واقعی نہیں گھبرائے اور اتنی محنت کی کہ ناصرف بہترین ٹی وی رپورٹر بن گئے بلکہ پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر کا منصب بھی پا لیا۔۔۔نقوی صاحب ہوتے تو انہیں دیکھ کر عش عش کر اٹھتے کہ وہ داد دینے میں بخیل نہیں تھے۔۔۔اخلاق نے ایک عرصہ پنجاب ٹی وی کابیگار کیمپ کاٹا اور شاید یہیں سے ہی ان پر صحافتی نکھار آیا۔۔۔وہ دنیا میڈیا گروپ۔۔بول نیوز اور ایک نیوز سمیت کئی ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے۔۔بدقسمتی سے ایک نیوز ان کا آخری ادارہ ثابت ہوا۔۔رواں سال لاہور پریس کلب کے الیکشن پر وہ بول نیوز میں تھے اور ہمارے گروپ کے ہارڈ سپورٹر۔۔انہوں نے پنجاب اسمبلی اور اپنی بیٹ کا محاذ خوب سنبھالا۔۔
یہی الیکشن نہیں، اخلاق باجوہ نے پورے صحافتی کیرئیر میں میرے ساتھ عہداحترام اس وقار سے نبھایا کہ وہ جب بھی ملے۔۔جہاں بھی ملے۔۔سینے پر ہاتھ رکھے سر جھکا کر ملے۔۔انہوں رواں سال کے اوائل میں ایک نیوز جوائن کیا تو کچھ دن بعد ہی ان کے ایکسیڈنٹ کی خبر آگئی۔۔میں نے انہیں عیادت کے لیے جناح ہسپتال فون کیا اور کہا کہ باجوہ صاحب آپ کو ہر دوسرے دن کوئی مسئلہ پیش آجاتا ہے۔۔آپ کا کوئی روحانی مسئلہ لگتا ہے۔۔اللہ کا واسطہ ہے کسی اللہ والے سے ملیے ۔۔انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور کہا میرا بھی یہی خیال ہے۔۔پھر وہی ہوا کہ وہ ایکسیڈنٹ سے نکلے تو ایک دن خبر آگئی کہ ان کے جسم میں کینسر گھات لگائے بیٹھا ہے۔۔میں نے انہیں فون کیا اور حال احوال پوچھا توکہنے لگے ڈاکٹروں کے چنگل میں پھنسا ہوں۔۔اسی دوران میں نے انہیں مدرس حرم کعبہ مولانا مکی حجازی صاحب کا تجویز کردہ قرآنی وظیفہ بھی بھیجا جبکہ میں اور عارف چودھری ایک دن ایک اللہ والے کے پاس بھی دعا کے لیے گئے۔۔دو مہینے پہلے میں اور اے پی پی لاہور کے انچارج برادرم عبداللہ ان کی عیادت کے لیے گئے تو وہ ہشاش بشاش تھے۔۔بہت خوش ہوئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔۔ہمارے لیے بڑے اہتمام سے چائے بنوائی۔۔چائے کا گھونٹ لیتے میں نے کہا کہ باجوہ صاحب آپ کو ملنے سے پہلے میں گھبرایا ہوا تھا لیکن آپ کو مل کر ساری پریشانی ختم ہو گئی۔۔آپ تو پہلے سے زیادہ صحت مند لگ رہے ہیں۔۔کون کہتا ہے کہ آپ کو کینسرہے؟انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا میرا بھی یہی خیال ہے۔۔۔پھر میں نے ان کے ساتھ اپنے پہلے عمرے اور نقوی صاحب کے انٹرویو کی یادیں تازہ کیں تو ان کا سرخ و سپید چہرہ دمک اٹھا۔۔مودب ہو کر کہنے لگے نقوی صاحب بھی کیا ہی کمال آدمی تھے۔۔ملاقات کے بعد بھی کبھی باجوہ صاحب کو فون کر لیا تو کبھی عارف چودھری سے حال احوال سے پوچھ لیا۔۔ایک مہینہ پہلے فیس بک پھرولتے سنئیر صحافی جناب روئف کلاسرا کا ایک بلاگ پڑھا جس میں انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے پاکستانی ڈاکٹروں کے ہاتھوں بگڑے کینسر کے امریکہ میں علاج کی روداد لکھی تھی۔۔میرے دل میں امید کی ایک کرن پھوٹی۔۔مجھے لگا کہ باجوہ صاحب کا کیس بھی کلاسرا صاحب کی مسز سے ملتا جلتا ہے۔۔میں نے اپنےشیریں مزاج رفیق کار جناب عمیر محمود سے کلاسرا صاحب کا نمبر لیا اور انہیں اپنے تعارف کے ساتھ واٹس ایپ میسج بھیجا کہ اخلاق باجوہ صاحب ہمارے ایک نیوز کے رپورٹر اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر ہیں۔۔ان کے کینسر کا کیس بھی آپ کی اہلیہ محترمہ کی طرح کا ہے۔۔آپ کی مدد درکار ہے کہ شاید ایک قیمتی زندگی بچ جائے ۔۔ان کا فوری رسپانس آیا۔۔ انہوں نے مجھ سے فوری رپورٹس منگوائیں اور جناب ڈاکٹر عاصم صہبائی کو امریکہ بھجوائیں۔۔پھر کلاسرا صاحب کے توسط سے ڈاکٹر صاحب کا میسج آیا کہ مریض سے کہیں کہ مجھ سے براہ راست رابطہ کرے تاکہ میں ان سے کچھ مزید معلومات لے کر کچھ تجاویز دوں۔۔کلاسرا صاحب نے باجوہ صاحب کی صحتیابی کی دعا کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا نمبر بھی بھیج دیا۔۔میں نے باجوہ صاحب کو فون کیا اور کہا کہ آپ ڈاکٹر صاحب سے فوری رابطہ کریں۔۔۔کچھ دن گذرے تو میں نے عارف چودھری صاحب سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے بتایا نہیں کہ ڈاکٹر عاصم صاحب نے کیا بتایا تو کہنے لگے کہ انہوں نے بھی رپورٹس کی روشنی میں ٹو مچ لیٹ کہا ہے۔۔انہوں نے ساتھ ہی ساتھ لاہور کے ایک ڈاکٹر کو بھی ریفر کیا لیکن انہوں نے بھی کہہ دیا کہ بہت تاخیر ہو گئی۔۔میں یہ بات سن کر بجھ سا گیا۔۔پھر کسی دوست نے باجوہ کی تصویر شئیر کی جس میں وہ خوفناک حد تک کمزور دکھائی دیے۔۔میرا دل دہل گیا اور آنکھیں چھلک پڑیں۔۔کچھ دن پہلے میں اور عبداللہ اخلاق باجوہ کے محلے،اپنے صحافی دوست افتخار سعید سے ان کے بھائی کی تعزیت کرکے لوٹنے لگے تو انہوں نے کہا کہ باجوہ صاحب کی عیادت بھی کر لیتے۔۔میں نے کہا کہ ہماری ان سے پہلی ملاقات بڑی خوش گوار تھی۔۔۔ان کی تصویر دیکھنے کے بعد اب ان سے ملنے کی ہمت نہیں۔۔ہم ان سے اور وہ ہم سے مل کر دکھی ہونگے۔۔پھر ہم ان سے ملے بغیر بوجھل دل کے ساتھ واپس لوٹ آئے۔۔آہ!چڑیل مزاج بیماری تین چار مہینے میں ہنستا مسکراتا انسان دوست انسان کھا گئی۔۔پورے شہر کو سوگوار کر گئی۔۔جنازے پر بھی میں باجوہ صاحب کا چہرہ دیکھے بغیر مسجد سے باہر آگیا۔۔اخلاق باجوہ ہی نہیں مجھے تو جناب تنویر عباس نقوی اور حافظ ظہیر کا چہرہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی تھی۔۔خود فریبی کہہ لیجیے لیکن چاہتا ہوں کہ اپنے دوستوں کو آخری بار موت کی آغوش میں نہ دیکھوں۔۔۔!!!(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔