تحریر: سبطین مہدی۔۔
میرے خیال سے آنے والے وقت میں تاریخ دوبارہ اس سال کو دہرائے گی اور کہا جائے گا کہ2020ء کا سال پوری انسانیت کے لئے مایوس کن سال تھا،جس میں اپنوں کے کئی چراغ گل ہو گئے،چاہے کوئی کورونا کی وجہ سے اپنوں سے بچھڑا تو کوئی اپنے اندر کے درد سے اس دنیا کو چھوڑ گیا،لیکن جانا تو ایک دن سب نے ہیں کیونکہ ابدی دنیا سب کی وہی ہے،ہم سے اس سال اپنے اس طرح بچھڑ گئے جیسے درختوں کے پتے جھڑتے ہیں۔
ایک طرف کورونا جیسی عالمی وبا نے ہمارے گزرتے دن کو مشکل بنا دیا،اور آئے روز ایک نیا درد دیا ہے،ایک ایسا درد جس کا مداوا کبھی پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا اور ہمارے روشن چراغ آہستہ آہستہ بجھ رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائیوں کی طرح قدرت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہے، اور یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ ہماری نم آنکھیں ابھی خشک نہیں ہوتیں کہ اور کسی اپنے کی جدائی کا غم رلا دیتا ہے۔۔۔۔۔
آج بھی ایک ایسا چراغ جو کہ عالمی شہرت یافتہ،خطابت کے جوہر ،اتحاد بین المسلمین کے داعی مفسر قرآن،تاریخ دان،فلسفی اور استاد علامہ طالب جوہری دیر پا علالت کے بعد اپنا ابدی سفر کرتے خالق حقیقی سے جا ملے،ان کے انتقال کی خبر پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی تو پورے پاکستان میں ان کے چاہنے والے یہ خبر سن کر تڑپ اٹھے علامہ صاحب کے انتقال پرصدر پاکستان،وزیراعظم،اسلامی و سماجی شخصیات نے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔۔۔۔
علامہ صاحب کا اس طرح بچھڑ جانا،عالم اسلام کے لئے انتہائی درد ناک ہے کیونکہ علامہ صاحب نے پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات کو اپنے جوہر خطابت سے پہنچایا،ان کے رخصت ہونے پر دل انتہائی رنجیدہ ہے اور ان کے اس طرح بچھڑ جانے سے خطابت کا ایک باب بند ہو گیا جو پچھلی کئی دہائیوں سے ذکر امام حسین ع میں مصروف تھا علامہ صاحب منبر حسینی سے ہمیشہ اصلاح،قرقہ واریت کو ختم کرنے پر زور دیتے اور اکثر اہل تشیع کے علاوہ سامین کا تعلق دیگر مسالک سے ہوتا کیونکہ علامہ صاحب ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے حب اہل بیت کے بیج کو مسلسل پانی دیا،دعا ہے پرودگار انہیں جنت میں بھی اہل بیت علیھم السلام کا خادم بنائے۔۔۔۔الہی آمین(سبطین مہدی)۔۔