علی عمران جونیئر
دوستو،ایک سیاست دان سے متعلق دوخواتین اب تک کتابیں لکھ چکی ہیں، ایک سابق اہلیہ بھی رہ چکی ہیں، دوسری بھی کافی قریب رہنے کی دعویدار ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میڈیا پر ایک خاتون کی ڈائری کے بڑے چرچے تھے، نیوز چینلز پر ڈائری کے اوراق دکھائے جارہے تھے جس پر مختلف قسم کی تحاریر درج تھیں، مختلف ہدایات موجود تھیں، ڈائری کے چند اوراق منظر عام پر آئے تھے ، جس پر کافی بحث ومباحثہ ہوا، کئی پروگرام ہوئے، اخبارات نے اداریے تک لکھ ڈالے۔۔ہم یہاں ان خاتون کا نام لیے بغیر ایک اور خاتون کی ڈائری کے چند ”مبینہ” اقتباسات آپ کو بتائیں گے۔ جن کو آج تک کسی نیوز چینل یا اخبار نے ڈسکس نہیں کیا۔ہم امید کرتے ہیں کہ نیوز چینلز پر ٹاک شوز کرنے والے اینکرز اس محترمہ کی ڈائری کو بھی اپنے شو کا موضوع بنائیں گے اور تجربہ کار تجزیہ کاروں کے ہمراہ اس پر سیرحاصل تبصرے فرما کر عوام کے سردرد میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے۔۔۔توآئیے بغیر تاخیر کے اقتباسات کی طرف چلتے ہیں،جسے ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ کیا ہے۔۔۔(شاید انہوں نے پوری ڈائری پڑھ لی اور چیدہ چیدہ چیزیں ہمیں ارسال کیں)۔۔
ڈائری کے باب ۔۔چڑچڑاہٹ۔۔کے صفحہ تین پر تحریر ہے کہ۔۔ ایک دفعہ رات کومیں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک تکیے پر کسی کا لمس محسوس ہوا’ میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو وہ آہستہ سے تکیہ اٹھانے کی کوشش کررہے تھے۔ مجھے بہت پیار آیا۔ میں نے مسکرا کر پوچھا”کیا بات ہے؟”۔ اطمینان سے بولے”ٹی وی کا ریموٹ ڈھونڈ رہا ہوں۔”۔۔ اُنہیں میرے بال رنگنے پر بھی اعتراض تھا۔ کہتے تھے 35 نمبر شیڈ نہ لگایا کرو’ کاکی لگتی ہو۔ اگرچہ وہ کاکی سے پہلے بھی ایک لفظ لگایا کرتے تھے لیکن اصل زور ‘کاکی’ پر ہی ہوتا تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ انہیں میری کم عمری سے بھی چڑ ہے۔ ڈائری کے باب۔۔اے کاش۔۔ میں خاتون رقم طراز ہیں کہ ۔۔ مجھے ہمیشہ بھوکا رکھنے کی کوشش کی گئی’ کئی دفعہ مجھے ڈانٹ کر کہتے تھے ”میرا سر نہ کھاؤ”۔میں نے کئی دفعہ فرمائش کی کہ پلیز ایک دفعہ تو مجھے مادھوری کہہ دیں’ آگے سے جواب ملتا’میم’ کے بغیر کہہ سکتا ہوں۔ مجھے گنگنانے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن کہنے لگے”تم ٹی وی پر کیوں نہیں گاتیں؟؟”۔ میں خوشی سے نہال ہوگئی’ وجہ پوچھی تو آرام سے بولے”بندہ ٹی وی بند تو کرسکتا ہے”۔اُس دن مجھے اندازہ ہوا کہ میں کدھر پھنس گئی ہوں۔کاش میں نے دوسری کی بجائے تیسری شادی کرلی ہوتی۔ ۔۔ڈائری کے باب ۔۔جیون برباد کے صفحہ گیارہ پر خاتون لکھتی ہیں کہ۔۔میں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے تو اخبار بھی تب پڑھنے کو ملتا تھا جب وہ خود پڑھ لیتے تھے’ خود ہی بتائیں اگر کوئی پہلے سے اخبار پڑھ جائے تو پھر پڑھنے کے لیے باقی کیا بچتا ہے؟ لیکن میں نے پھر بھی گزارا کیا’ صرف اس لیے کہ میرے بچوں کو ماں کی کمی محسوس نہ ہو۔ میں چاہتی تواپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں پر بھرپور صدائے احتجاج بلند کر سکتی تھی لیکن میں نے خاموشی اختیار کیے رکھی تاکہ کتاب کے لیے مواد جمع ہوتا رہے۔ یہ سچ ہے کہ میں نے ایک ایسے شخص کے لیے اپنا جیون برباد کردیا جس نے مجھے گھر کے لان میں” پینگ ”تک نہیں لگوا کردی۔۔۔ اور تو اور مجھے چائے میں چینی ڈال کر پیش کی جاتی رہی تاکہ میں شوگر میں مبتلا ہوجاؤں’ وہ تو اللہ کا شکر ہے میں چکھ لیتی تھی ورنہ آج میرا پبلشر برباد ہوچکا ہوتا۔ اب مجھے مردوں سے نفرت ہوگئی ہے’ عنایت حسین بھٹی نے بالکل صحیح گانا گایا تھا”دُنیا مرداں دی او یار۔۔۔”
محترمہ اپنی ڈائری کے ایک اور باب میں لکھتی ہیں کہ ۔۔ میں ہر وقت اُن کی خدمت کرتی تھی’ ان کا موبائل گم ہوجاتا تو میں ہی مسڈ کال دیتی تھی۔اُن کے دوست آتے تو میں چھپ چھپ کر باتیں سنا کرتی تھی۔ ایک دن انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ میری آنکھوں میں آنسو آگئے’ میں نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا”جان! میں ہر وقت آپ کا دھیان رکھتی ہوں”۔ چلا کر بولے”میں مٹی کھاناں؟”۔ کاش وہ مجھے سمجھ سکتے’ میں تو ہر چیز ان کی بھلائی کے لیے کرتی تھی لیکن وہ میری ہر خواہش رد کردیتے۔میں اولاد کے لیے ترستی رہی لیکن انہوں نے میرا کوئی خیال نہ کیا۔اذیت کے اس لمحے صرف میرا بڑا بیٹا مجھے دلاسہ دیتا تھا کہ ‘ماما حوصلہ رکھیں’ خدا کے ہاں دیر ہے’ اندھیر نہیں۔”۔۔وہ مزید لکھتی ہیں کہ ۔۔۔ ہر شادی شدہ عورت اپنے میکے جانا چاہتی ہے’ یہ اُس کا بنیادی حق ہے۔ لیکن مجھے اس معاملے میں بھی نکتہ چینی کا سامنا رہا۔ ایک دفعہ میں نے کہا کہ میں چار دن کے لیے اپنی امی کی طرف جانا چاہتی ہوں۔ کچھ دیر سوچ کر بولے۔ٹھیک ہے چلی جاؤ’ لیکن اگر چار دن کے لیے کہا ہے تو اپنی بات پر قائم رہنا’ تیسرے دن نہ آجانا۔”میں جانے کی تیاری کر ہی رہی تھی کہ ایک ملازم میرے پاس آیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا”بی بی جی آپ نہ جائیں”۔ میں حیران رہ گئی’ وجہ پوچھی تو اِدھر اُدھر دیکھ کربے بسی سے بولا”آپ چلی گئیں تو صاحب جی کے لیے کھانا کون بنائے گا؟ اور اگر اُن کے لیے کھانا نہ بنا تو وہ ہماری پلیٹیں صاف کرجائیں گے”۔یہ سن کر مجھے ایک دھچکا سا لگا’ کتنے دُکھ کی بات تھی کہ ایک بندہ خود تو ملازمین کا کھانا کھالے لیکن اُس میں سے بیوی کے لیے کچھ بھی نہ رکھے۔
خاتون اپنی ڈائری میں ایک جگہ اپنی زندگی کا ایک اور یادگار واقعہ کچھ اس طرح سے لکھتی ہیں۔۔ مجھے وہ پشاوری چپل میں بہت خوبصورت لگتے تھے’ ایک دفعہ میں نے فرمائش کی کہ مجھے بھی پشاوری چپل لا دیں۔ لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مجھے اپنے برابر نہیں دیکھنا چاہتے۔لیکن میں نے بھی ہار نہیں مانی۔ اگلے ہی دن خود جاکر مردانہ پشاوری چپل خریدی اورساڑھی کے ساتھ پہن کر یکدم ان کے سامنے آگئی۔ انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا’ پھر پشاوری چپل پر نظر ڈالی اورسرکھجانے لگے۔ میں نے پوچھا’ کیسی لگ رہی ہوں؟ انہوں نے فوراً موبائل سے انٹرنیٹ آن کیا۔ میں سمجھ گئی کہ کسی ہیروئین سے میری مشابہت دکھانے لگے ہیں۔ دو منٹ بعد انہوں نے موبائل میرے سامنے کیا جس پر ایک شیشی کی تصویر تھی اور اوپر لکھا ہوا تھا’زہر’۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔گھر میں سب سے چھوٹا بیٹا ”پی ٹی وی” کی طرح ہوتا ہے، مسائل سے لاعلم اپنی دھن میں مگن۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔