تحریر: شعیب واجد۔۔
سن 2000 میں جب نادرا کا قیام عمل میں آیا تو ہمارے ایک دوست نادر صاحب نے حسب عادت شوشہ چھوڑ دیا۔۔کہنے لگے کہ ایک نادرہ رخصت ہوئی تو قدرت نے دوسری بھیج دی،اب دل لگا رہے گا۔۔ہم نے کہا کہ حضرت یہ وہ نادرہ نہیں جو اداکارہ تھی، بلکہ اداکارہ نادرہ کا ذکر تو رہنے ہی دیں،کیونکہ 1995 میں وہ اللہ کو پیاری ہوچکی ہے۔۔ہم جانتے تھے کہ نادر و نایاب گفتگو کرنے والے نادر صاحب، کے جملے کا پس منظر کچھ اور ہے کیونکہ وہ ‘ادارے’ نادرا اور اسکے قیام کےاغراض سے بخوبی واقف تھے اور اسکو فیمیل ظاہر کرنے کی بات انہوں نے ازراہ تفنن ہی کہی تھی۔خیر ۔۔آج بھی کچھ لوگ نادرا کا نام لیکر پھبتی کسنے سے باز نہیں آتے اور یہ گھسا پٹا مزاق بڑے اعتماد سے کرتے ہیں لیکن یہ اور بات ہے کہ اس پر اخلاقاً بھی کوئی نہیں ہنستا۔۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ملک کے ٹوٹے پھوٹے نظام کی مرمت کی کوششیں ہورہی تھیں۔صدر پرویزمشرف نے ماہرین سے ملک کی حالت سدھارنے کے بارے میں تجاویز مانگی تھیں،جس پر کئی ماہرین کا موقف تھا کہ پہلے ملک میں بسنے والی آبادی کا ڈیٹا مرتب کیا جائے،تاکہ منصوبہ بندی کیلیے صحیح بنیاد مہیا ہوسکے۔۔یوں نادرا جیسے ادارے کے قیام کی شروعات ہوئیں۔
آج نادر صاحب اس لئے بھی بہت یاد آئے کہ ایک کام سے نادرا آفس جانا ہوگیا۔۔ یہ نادرا میگا سینٹر نارتھ ناظم آباد میں واقع ہے۔یہاں چند سال قبل بھی آنا ہوا تھا،ان دنوں بھی اس دفتر پر ورک لوڈ بہت زیادہ تھا، اور گھنٹوں انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی تھی تاہم آرام گاہیں ایئر کنڈیشن اور درجنوں کاونٹرز ہونے کی بدولت دو ڈھائی گھنٹے گزارنا اتنا مشکل نہیں لگتا تھا۔۔۔یہی سوچ کر آج بھی اپنے ضروری کام کیلئے نادرا کے اسی دفتر کا انتخاب کیا،مگر اس بار شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا،نادرا دفتر میں انٹری ملنے سے پہلے ہی سڑک پر طویل قطار لگی دیکھی۔لوگوں نے بتایا کہ آج کل دس،دس لوگوں کو اندر چھوڑتے ہیں، لیکن آج صبح گیارہ بجے سے نادرا کے سسٹم میں فالٹ آیا ہوا ہے اس لئے ٹوکن کا اجرا ہی نہیں ہوپارہا، ہم نے یہ سن کرگھڑی دیکھی تو اس وقت دوپہر کے ہونے تین بج رہے تھے،یعنی سسٹم خراب ہوئے پونے چار گھنٹے گزر چکے تھے،ٹائم دیکھ کر یہ خیال آیا کہ انتظار کا مشکل وقت تو ان لوگوں کے لیے ہوگا جو یہاں گیارہ بجے سے لائن میں لگے ہیں۔ہمارا وقت تو اب شروع ہوا چاہتا ہے،اور ہم درست وقت پر آئے ہیں کیونکہ یقیناً سسٹم ری اسٹور کرنے کا کام بھی جاری ہوگا اور امید ہے اب ری اسٹوریشن میں کم ہی وقت باقی ہوگا ،کچھ دیر میں ٹوکن ملنا شروع ہو جائیں گے اور ہم اپنا کام کرا کر سیدھے گھرنکل جائیں گے۔خیر یہ ڈیڑھ ہوشیاری والا خیال قدرت کوشاید پسند نہیں آیا اور اگلے پونے چار گھنٹے تک سسٹم کی مرمت کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی،جس کے بعد ہم نے یہ دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ اب مزید ایک منٹ بھی یہاں گزارنا غیر دانشمندی ہوگی۔۔
ان پونے چار گھنٹوں میں ہم نے درجنوں لوگوں کو سیکورٹی گارڈز سے الجھتے دیکھا۔۔۔ تاہم افسوس کی بات یہ تھی کہ نادرا میگا سینٹر کے افسران کی جانب سے پبلک کو باقاعدہ طور پر اپنی کسی تکنیکی مجبوری سے مطلع نہیں کیا گیا۔اور لوگ کام شروع ہونے سے متعلق ہوائی اندازے لگاتے ہوئے دفتر کے باہر موجود رہے۔
کوئی میڈیا پرسن جب کہیں سائل بن کر جاتا ہے تو اس سرکاری کام کی کوئی رکاوٹ دور کرنا اس کے بس میں ہو یا نہ ہو،لیکن وہ اپنا فون اس طرح زیر استعمال رکھتا ہے کہ دیکھنے والے دیگر سائلین یہ سمجھتے ہیں کہ آج تو یہ اوپر نیچے تک سب کو کھڑکا دے گا، آج ان دفتر والوں کو پتا چلے گا کہ ان کا اونٹ پہاڑ کے نیچے آچکا ہے، لیکن انہیں کیا پتا کہ اس میڈیا پرسن کا پہلا میسیج ،جو اپنے دفتر کو کیا گیا تھا کہ بھائی کسی رپورٹر سے پتا کراؤ کہ نادراکےسسٹم کی خرابی کی مرمت کے حوالے سے کیا اپ ڈیٹ ہیں،اور کیا کسی جاننے والےآفیشل سے ہمیں کوئی فےور مل سکتا ہے؟ وہ میسج سین ہی خیر سے پون گھنٹہ بعد ہوا۔۔میڈیا پرسن ایسے موقعوں پر موبائل سے ویڈیو بنانا بھی نہیں بھولتا۔ہم نے جب یہ کام کیا تو تھوڑی دیر بعد ایک سائل صاحب ہمارے قریب آئے اور رازدارانہ انداز سے پوچھنے لگے کہ ‘سوشل میڈیا پر ڈال دی؟ ‘ ہم ان کی شکل ہی دیکھتے رہ گئے۔
اسی عرصے میں اپنے دفتر سے اثردار مدد نہ ملنے پر ہم نے اپنے پرانے کولیگ انجم وہاب کو فون گھما دیا۔۔انہوں نے ہماری فریاد سن کر یہ کیا کہ اسلام آباد نادرا آفس سے پتا کرکے کنفرم کردیا کہ سسٹم خراب ہے اور مرمتی کام اب تکمیل کے قریب ہے،شاید آدھا گھنٹہ اور لگےگا، جس پر ہمارے بقراط ذہن نے کہا کہ انتظار کرلو جہاں اتنی دیر انتظار کیا وہاں آدھا گھنٹہ اور سہی ۔۔تاہم کیا معلوم تھا کہ یہ آدھا گھنٹہ بھی ایک گھنٹے میں بدل جائے گا ۔ ایک گھنٹہ اور گزرا تو وہاں ہمارا قیام پونے چار گھنٹے طویل ہوچکا تھا ،اور اب ہم نے سوچا کہ وہاں اب مزید ٹہرنا غیر دانشمندی ہوگی جنانچہ کام کروائے بغیر وہاں سے نکلنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔۔
اور ہاں یاد آیا ۔۔ میڈیا پرسنز کے پاس تو وزیروں کے فون نمبرز بھی ہوتے ہیں چنانچہ ایک ایس ایم ایس وزیر داخلہ کو بھی کرڈالاتھا،جس میں انہیں سرکاری دفتر کے باہر عوام کی حالت زار کی روداد اس طرح بتائی جیسے انہیں ان کے ادارے کی حالت سے آگاہ کرنے کا احسان کیا ہو۔میسیج ڈیلیور تو ہوگیا،اوپن ہوا یا نہیں یہ پتا نہیں چل سکا۔۔اس داستان کا ایک المناک پہلو اور بھی ہے،وہ یہ کہ اس کام کیلئے باقاعدہ دفتر سے ایک روز کی رخصت حاصل کی گئی تھی اور یہ رخصت لینے والا کام بھی اپنی جگہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔یوں اس چھٹی والے دن کا اس طرح ضیاع بھی دلی ٹھیس کی حیثیت رکھتا ہے۔
دوستو:نادرا کا ادارہ آج شناختی کارڈ کےعلاوہ ، اب پاسپورٹ،بےفارم ، برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ ، نکاح ، طلاق نامہ ، فیملی ٹری، ویکسینیشن کارڈ جیسی دستاویزات کی فراہمی کرتا ہے ساتھ ہی اس کو عوام کیلیے وراثت نامے ، جائیداد اور دیگر ضروری دستاویزات کی رجسٹریشن کا زریعہ بنانے پر بھی کام ہورہا ہے۔نادرا کا ادارہ بحیثیت مجموعی تو عوام کے بے حد کام آرہا ہے تاہم سرکاری افسروں کا نادرشاہی رویہ اکثر دودھ میں مینگنیاں کر جاتا ہے۔ ادارہ بڑا ہو تو اس میں کام کرنے والے اہلکاروں کے اوصاف نادر شاہی نہیں بلکہ اکبراعظم جیسے ہونے چاہیئیں۔۔(شعیب واجد)۔۔