تحریر: یاسرپیرزادہ۔۔
میں نے آج کے کالم کی پہلی دو سطریں ہی لکھی تھیں کہ برادرم اجمل شاہ دین کا پیغام موصول ہوا: ’’رؤف طاہر صاحب فوت ہو گئے ہیں‘‘۔ یوں لگا جیسے یک دم آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہو، میں نے باقاعدہ آنکھیں مل کر دوبارہ پیغام پڑھا مگر میرے آنکھیں ملنے سے بھلا پیغام کیسے بدل سکتا تھا۔ بےشک جانا تو سب کو ہے مگر رؤف صاحب یوں اچانک چلے جائیں گے، ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
ابھی چار دن پہلے تو میری اُن سے بات ہوئی تھی، آواز میں وہی طنطنہ تھا، وہی کڑک تھی۔ وہ فون ملا کر فی البدیہہ شعر سنانا اور ساتھ ہی قہقہہ لگانا۔ رؤف طاہر کی زندگی ایک درویش کی زندگی تھی، قناعت، اخلاص اور دیانت کی زندگی۔ایک سادہ سا مکان لاہور کی بستی میں بنایا تھا، وہاں ایک رات ڈاکو گھس آئے اور جو کچھ جمع پونجی تھی سمیٹ کر چلتے بنے۔ ایک ہفتے کے اندر دوبارہ اُسی مکان میں ڈاکہ پڑا، ﷲ جانے اِس کی کیا وجہ تھی، صفایا تو پہلے ہی ہو چکا تھا، اب بچا کھچا سامان بھی گیا۔اِن واقعات کا ایک دوست کو پتا چلا تو اُس نے اپنا ڈیبٹ کارڈ اُنہیں دے دیا کہ فی الحال آپ اپنی ضرورتیں پوری کریں، باقی بعد میں دیکھ لیں گے۔ اس مرد درویش نے مسکرا کر کارڈ واپس کر دیا ’’یہ میں نہیں رکھ سکتا‘‘۔ وہ مکان اب اُن کے لئے محفوظ نہیں رہا تھا سو اُسے فروخت کرکے نسبتاً نئی بستی میں ویسا ہی سادہ اور قدرے سستا سا مکان بنا لیا۔ شومئی قسمت کہ ایک رات وہاں بھی ڈاکہ پڑ گیا۔گھر میں جو تھوڑا بہت سامان اور نقدی تھی، ڈاکو وہ لوٹ کر فرار ہو گئے۔ رؤف طاہر نے اِس پر بھی اپنے رب سے کوئی شکوہ نہیں کیا، لبوں پر کوئی شکایت لائے بغیر صبر شکر کرکے بیٹھ گئے کہ ﷲ کی یہی رضا ہوگی۔ ایک درویش کی بھلا اور کیا نشانی ہوتی ہے!
رؤف طاہر پاکستان کی چلتی پھرتی تاریخ تھے، وہ جب قومی معاملات پر گفتگو کرتے تو تاریخی حوالے دے کر مدِ مقابل کے چھکے چھڑا دیتے۔ لاہور کی کوئی ادبی اور سیاسی محفل اُن کے بغیر مکمل نہ ہوتی۔لوگ کسی کے مرنے کے بعد یہ بات رسماً کہتے ہیں کہ مرحوم کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مگر رؤف طاہر کے بارے میں یہ بات رسمی نہیں، حقیقت ہے۔ اب اِس شہر کی کوئی محفل ایسی نہیں ہوگی جس میں رؤف طاہر کو یاد نہیں کیا جائے گا۔ رؤف طاہر ’’ون مین آرمی‘‘ تھے، کبھی کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کا عَلم اکیلے اُنہوں نے اٹھایا ہوا ہے۔شہر میں کہیں بھی کوئی شخص سویلین بالادستی کے خلاف بات کرتا تو رؤف صاحب اُسے آڑے ہاتھوں لیتے اور تابڑ توڑ دلائل سے چاروں شانے چِت کر دیتے۔ اپنے نظریات کے معاملے میں وہ اِس قدر کٹر تھے کہ ذاتی تعلق کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔دائیں بازو کے دانشوروں میں رؤف صاحب سے زیادہ خوشگوار شخصیت کے حامل اور مدلل گفتگو کرنے والے لوگ میرے خیال میں اب ایک ہاتھ کی انگلیوں پر ہی گنے جا سکتے ہیں۔ دوستوں کی مجلس میں ہم اُن سے خاصی بےتکلفی برتتے اور بعض اوقات اُن سے ایسا مذاق بھی کر جاتے جو اپنے ہم عمر دوست سے ہی کیا جا سکتا ہے مگر رؤف صاحب شاذو نادر ہی کسی بات کا برا مناتے۔
محفلوں میں سب سے بلند آہنگ قہقہہ رؤف طاہر کا ہی ہوتا۔ فون کرتے تو کالم پر ایسا تخلیقی تبصرہ کرتے کہ بندہ عش عش کر اٹھتا۔ رؤف طاہر نے بطور صحافی اِس ملک میں وہ راستہ چنا جو مشکل اور کٹھن تھا۔ان کے پاس وہ آسان راستہ بھی تھا جس پر چلنے کے لئے انہیں فقط اپنے جمہوری نظریات سے دستبردار ہونا تھا، پھر راوی نے اُن کے لئے چین ہی چین لکھنا تھا، پھر اُنہیں کسی کالج میں لیکچر دینے کی ضرورت نہیں پڑنا تھی، اُس صورت میں انہیں ٹاک شو بھی ملنا تھا اور منہ مانگے دام بھی، لیکن اُس مرد حُر نے کبھی اپنے نظریات کا سودا کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہ بات کہنی آسان ہے مگر عمل بہت مشکل۔
مجھے اندازہ ہے کہ میں بےربط اور ٹوٹے پھوٹے جملے لکھ رہا ہوں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے رؤف طاہر کی قبر پر مٹی ڈالنے کے باوجود مجھے اب تک اُن کی موت کا یقین نہیں آرہا ، شہر سُونا سُونا لگ رہا ہے اِس لئے اب یقین کرنا ہی پڑے گا۔ اُنہیں لحد میں اتارا تو پتا چلا کہ قبر اُن کے قد کے حساب سے کچھ چھوٹی ہے سو انہیں قبر سے باہر نکال لیا گیا، قبر کشادہ کی گئی اور پھر تدفین ہوئی۔ یوں لگا جیسے زمین بھی رؤف طاہر کو لینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اک شخص سارے شہر کو ’’واقعی‘‘ ویران کر گیا۔۔
ابھی میں رؤف طاہر کی موت کا جھٹکا برداشت نہیں کر پایا تھا کہ مجھے ایک اور فون کال موصول ہوئی۔ اطلاع ملی کہ کراچی میں میرے مرحوم تایا جان ضیاء الحق قاسمی کے بڑے بیٹے ظفیر پیرزادہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے ہیں۔وہ اپنے دفتر سے واپس آ رہے تھے کہ گاڑی چلاتے ہوئے انہیں ہارٹ اٹیک ہوا، گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی، نہ جانے کتنی دیر وہ اسی حالت میں گاڑ ی میں رہے، پھر ایک ایمبولنس پاس سے گزری تو اُس میں اُنہیں اسپتال لے جایا گیا، وہاں پتا چلا کہ اُن کی موت واقع ہو چکی ہے۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر یہ دوسری موت کی خبر تھی جو مجھے ملی۔ ظفیر بھائی کو ہم پیار سے ظفر کہتے تھے، قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا، بدن چھریرا اور پرسنالٹی ایسی کہ فلمی ہیرو لگتے تھے۔
سارے کزن رشتہ دار تو ہوتے ہیں مگر سارے رشتہ دار دوست نہیں ہوتے۔ ظفیر بھائی مجھ سے چند سال ہی بڑے تھے مگر دوست تھے۔ اُن کا دماغ بہت زرخیز تھا، نت نئے آئیڈیاز اُن کے دماغ میں آتے اور وہ انہیں کاپی رائٹ کروا لیتے، کہتے تھے ’’دیکھ لینا ایسے ہی ایک دن میرا کوئی آئیڈیا ہِٹ ہو جائے گا‘‘۔ کبھی کبھی مجھے فون کرکے بتاتے کہ فلاں موبائل کمپنی نے اُن کا آئیڈیا چرا لیا ہے اور اب وہ اُن پر مقدمہ دائر کرنے لگے ہیں۔اُن کا کوئی آئیڈیا تو کامیاب نہیں ہوا البتہ وہ جاتے جاتے ہمیں رلانے میں کامیاب ہو گئے۔ ’’ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘۔(بشکریہ جنگ)۔۔