تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
یہ عمومی انسانی رویہ ہے کہ کوئی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ڈالی جائے تو اس کا پہلا فطری ردِعمل یہی ہوتا ہے کہ وہ انکاری ہو جاتا ہے۔ اگر ذمہ داری ایسی ہو‘ جس میں لاکھوں لوگوں کی خواہشات پوری کرنی ہوں اور انہیں سروس دینی ہو تو ایک نارمل انسان فوراً معذرت کر لے گا۔ اور اگر ذمہ داری پبلک آفس کی ہو تو اگلا بندہ کئی روز سوچے گا اور درجنوں لوگوں سے مشورہ کرے گا کہ کیا اسے یہ عہدہ قبول کرنا چاہیے۔ کیا وہ اس عہدے کا اہل بھی ہے اور اگر اس نے وہ عہدہ لے بھی لیا تو کیا وہ اس کی ضروریات بھی پوری کر پائے گا اور اگر اپنے کام میں ناکام رہا تو پھر ان سب لوگوں کا کیا ردِعمل ہوگا جو اس سے توقعات باندھے بیٹھے ہیں؟ وہ ان سب کا سامنا کیسے کرے گا؟ گھر والوں‘ رشتہ داروں اور محلے داروں کو کیا منہ دکھائے گا؟ اگر ناکام رہا تو جتنی عزت کمائی تھی‘ وہ سب خاک میں مل جائے گی کیونکہ کوئی بھی عہدہ یا ذمہ داری کسی بھی انسان کا بہت بڑا امتحان ہوتا ہے۔ایک بار آپ اس امتحان میں فیل ہو جائیں تو لوگ دوبارہ آپ کو آنکھوں پر نہیں بٹھائیں گے۔ ذمہ داریوں کے اس بوجھ اور سماجی خوف کے باوجود آپ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو الٹا کروڑوں روپے دے کر وہ ذمہ داریاں لینا چاہتے ہیں۔ انہیں ان باتوں کی کوئی پروا نہیں ہے کہ اگر ناکام رہے تو لوگ کیا کہیں گے۔ اب آپ یقینا کہیں گے کہ اگر ہر بندہ ہی ان ذمہ داریوں کے ڈر سے بھاگے گا تو پھر یہ معاشرہ کیسے چلے گا؟ ملک کیسے چلے گا؟
بالکل! آپ کی بات میں وزن ہے کہ آخر کسی نہ کسی نے تو اُن ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا ہے جس سے ملک اور ادارے چلتے ہیں لیکن بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی ذمہ داری لینے کے لیے آپ اس عہدے کے لیے اپنی جیب سے کروڑں روپے کسی اُس انسان کو دینے کے لیے تیار کیوں ہو جاتے ہیں جس نے وہ ذمہ داریاں یا عہدے بانٹنے ہیں؟ اگر وہ شخص آپ کو ایماندار‘ قابل اور ذمہ دار سمجھ کر وہ عہدہ ”مفت‘‘ میں دے رہا ہے تو سمجھ میں آتا ہے کہ چلیں خدمتِ خلق کرتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں بہت کچھ دے دیا ہے‘ اب دوسروں کی خدمت کرتے ہیں لیکن یہ کیا کہ آپ ”خدمتِ خلق‘‘ کا ٹھیکہ لینے کے لیے ہی کروڑوں روپے کسی بندے کو دے رہے ہیں؟ آخر آپ کو ایسی کیا آفت آن پڑی ہے کہ آپ پیسے دے کر اس عہدے پر فائز ہونا چاہتے ہیں؟ واقعی آپ کے دل میں لوگوں کی خدمت کا جنون ہے یا آپ کے پاس کروڑوں روپے فالتو ہیں کہ آپ ایک لمحے میں نکال کر دے دیتے ہیں کہ چلیں ہمیں کسی بندے سے ملوا دیں جو اعلیٰ عہدے اور ٹکٹیں بانٹتا ہے۔ اور اگر آپ کروڑوں روپے دے بھی رہے ہیں تو آپ اتنے پیسے کیسے واپس ریکور کریں گے؟ یہ تو طے ہے کہ اگر آپ نے عوامی خدمت کرنی ہے تو آپ وہی کروڑوں روپے سوشل ویلفیئر پر خود لگا سکتے ہیں۔ کوئی ٹرسٹ بنا سکتے ہیں۔ براہِ راست غریبوں کی مدد کر سکتے ہیں۔
نہیں! آپ یہ کام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس میں آپ کو جیب سے سب کچھ لگانا ہوگا اور جس کی سود سمیت واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر آپ یہی پیسہ عام آدمی کی فلاح پر لگائیں گے تو ہو سکتا ہے وہی لوگ آپ کو ویسی عزت دیں جیسی مدرٹریسا یا ایدھی صاحب کو دی جاتی تھی لیکن پھر آپ کا وہ رعب و دبدبہ نہیں ہوگا۔ انسانوں پر حکمرانی کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ ہٹو بچو نہیں ہوگا۔ پروٹوکول‘ پولیس اسکارٹ کی ہارن بجاتی گاڑیاں نہیں ہوں گی۔ اپنے علاقے میں نام نہیں ہوگا۔ تھانے کا ایس ایچ او آپ کی مرضی کا نہیں ہوگا۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او آپ سے پوچھ کر نہیں لگے گا۔ سب سے بڑھ کر جو پیسہ آپ نے خرچ کیا تھا‘ وہ واپس نہیں ہوگا۔ کوئی ٹرانسفر پوسٹنگ آپ سے پوچھ کر نہیں کی جائے گی۔ کسی کنٹریکٹ میں آپ کوحصہ نہیں ملے گا۔ آپ پیسہ لگا تو رہے ہوں گے لیکن اس کی ریکوری نہیں ہو گی۔ آپ کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ آپ نعرہ تو عوامی خدمت کا مارتے ہیں لیکن اندر کھاتے آپ کھاتے اسی عوام کا ہیں جس کا درد آپ کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا۔
جب وہ عہدہ آپ خرید لیتے ہیں تو پھر آپ کے گھر اور ڈیرے پر دن رات لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ لوگ صبح سویرے آپ کے گھر اور ڈیرے پر امیدیں لگا کر آ کر بیٹھتے ہیں۔ کسی کے بیٹے کو نوکری چاہیے تو کوئی بڑی سیٹ پر پوسٹنگ کا خواہاں ہے۔ کسی کو تھانے میں کام ہے تو کسی کو پٹواری یا تحصیلدار سے۔ اس عہدے کے بعد آپ کو سرکاری افسران تنگ نہیں کرتے‘ الٹا آپ کی خوشامدیں کرتے ہیں۔ جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو عوام کو یوں اپنے در پر لاچار اور آنکھوں میں امیدیں جگائے دیکھ کر عجیب سا سکون ملتا ہے۔ آپ خود کو عام انسانوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ خدا نے آپ کو دوسروں سے مختلف بنایا ہے۔ آپ کی مینوفیکچرنگ جس مٹی سے کی گئی ہے وہ عام نہیں بلکہ بہت خاص ہے۔ خدا نے آپ کو کسی بڑے مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ آپ کی شخصیت میں ایک عجیب سی رعونت اور تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر علاقے میں کسی نے مخالفت کر دی تو پھر اس کی خیر نہیں اور آپ کو علم ہے کہ آپ کے پاس اتنی طاقت ہے کہ اس کی ٹانگیں تڑوائی جا سکتی ہیں۔ چند غنڈے بھیج کر اس کا دماغ درست کرایا جا سکتا ہے۔ اس کی فصلوں کو آگ لگوائی جا سکتی ہے۔ پولیس مقابلے میں بھی پار کرایا جا سکتا ہے۔ اگر زیادہ پھنے خان ہے تو اس پر قریبی تھانے میں پرچہ درج کرایا جا سکتا ہے‘رات کو چھترول بھی ہو جائے گی اور پھنے خانی کا علاج بھی۔
آپ کو اپنے علاقے پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ بڑے بڑے افسران آپ کے اردگرد جھومتے رہیں گے اور آپ کی ناراضی سے ڈریں گے کہ کہیں آپ جاکر وزیراعلیٰ کو شکایت ہی نہ کردیں اور ان کی پوسٹنگ ہی ختم نہ ہو جائے یا ٹرانسفر نہ کر دیا جائے۔ اگر آپ ڈی سی یا کمشنر یا ڈی پی او ہیں تو آپ کے لیے اتنا آسان نہیں ہوتا کہ کوئی بھی ضلع محض کسی عوامی نمائندے سے لڑائی میں کھو دیں۔ آپ اگر ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں تو بھی آپ کے یار دوست اور رشتہ دار اس تبادلے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ آپ کے اس عہدے پر رہنے سے ہی ان کا فائدہ ہے۔ آپ کی ایمانداری اور اصولوں پر ڈٹ جانے میں ان کا نقصان ہے۔ پھر آپ کو یہ بھی علم ہے کہ آپ کو اگلے گریڈ میں ترقی چاہیے تو پھر آپ کو فیلڈ پوسٹنگ کا تجربہ بھی درکار ہو گا۔ یوں آپ کمپرومائز کرتے ہیں اور اس بات کا فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو اس عہدے کا استعمال کرکے لوگوں پر حکومت کرتے ہیں۔
اب آپ بتائیں‘ جب آپ کو کسی عہدے سے جڑے اتنے فوائد نظر آرہے ہوں‘ نقصان زیرو ہو اور پھر اپنے جیسے عام انسانوں پر حکمرانی کا سوچ کر ہی نشہ چڑھ رہا ہو تو پھر آپ کیوں کر اس بندے کے گھر کے باہر ڈنڈے لے کر پہرہ نہیں دیں گے؟ چاہے آپ علاقے میں کتنے بڑے سردار‘ نواب‘ ملک‘ مہر‘ خان یا چودھری کیوں نہ ہوں۔ پھر آپ کیونکر ان کی وطن واپسی پر استقبال کے لیے کرائے کی گاڑیاں بھر کر ایئرپورٹس کا رخ نہیں کریں گے؟ آپ پھر اس بندے کو ”پارٹی فنڈ‘‘ کے علاوہ صرف ایک ملاقات کا ایک کروڑ روپیہ کیوں نہیں دیں گے؟ دنیا میں صرف ایک ہی نشہ ہے جو انسان کو ہر وقت مدہوش کیے رکھتا ہے اور وہ ہے حکمرانی کا نشہ‘ جس کے لیے جان دی بھی جا سکتی ہے اور جان لی بھی جا سکتی ہے۔ منہ دکھائی کا ایک کروڑ روپیہ کیا چیز ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)