تحریر: انصار عباسی۔۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحب زادے سلیمان شہباز منی لانڈرنگ کیس میں بھی باعزت بری ہو گئے۔ جب حکومت اپنی ہو، وزیر اعظم گھر کا ہو تو مقدمات ایسے ہی ختم ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا یہی رجحان ہے۔ ہر آنے والی حکومت اپنے سیاسی رہنمائوں اور اُنکی آل اولاد کے کرپشن کیس ایک ایک کر کے ختم کرواتی ہے جبکہ اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے سچے کیس بنوا بنوا کر اُنہیں جیلوں میں ڈلواتی یا عدالتوں کے چکر لگواتی رہتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ متعلقہ ادارے مثلاً نیب، پولیس، ایف آئی اے یا صوبائی اینٹی کرپشن کے محکمے سب استعمال ہوتے ہیں جبکہ عمومی طور پر عدلیہ بھی موسم کا حال دیکھ کر انصاف کرتی ہے۔ موسم اچھا ہو، ملزمان حکومت میں ہوں یا اقتدار میں لانےکیلئے اُن کی تیاری کی جا رہی ہو تو پھر کتنا ہی بڑا کیس کیوں نہ ہو ملزم باعزت بری ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اُنہیں ضمانتیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ موسم ابرآلود ہو تو عدالتیں بھی نظریں پھیر لیتی ہیں، نہ ضمانتیں ملتی ہیں، نہ کیس ہی سنا جاتا ہے۔ متعلقہ محکمے جب کیس بنانے کی ڈیوٹی پر فائز ہوتے ہیں تو کروڑوں اربوں کے کیس دنوں میں بنا کر نشانے پر رکھے سیاستدانوں اور اُن کے عزیزواقارب پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اُنہیں جیلوں میں ڈال کر میڈیا میں اُن کی کرپشن کی کہانیاں عوام کو سناتے بلکہ رٹواتے ہیں۔ جب حکومت تبدیل ہوتی ہے اور ملزمان اور اُن کی پارٹی حکومت میں آ جاتی ہے تو پھر یہی ادارے یوٹرن لیتے ہیں، کہنے لگتے ہیں کہ ثبوت ہی موجود نہیں، پچھلوںکے دباو کا بہانہ تراش کر اپنے ہاتھ جھاڑ کر کل کے ملزموں کو باعزت بری کرواتے ہیں اور آج کے حکمرانوں کے حکم پر پچھلوں کے خلاف کیس بنانے کا دھندا شروع کر دیتے ہیں۔ کیس جعلی بھی بنتے ہیں اور کیس ٹھوس ثبوت والے بھی ہوتے ہیں لیکن اختتام سب کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے یعنی جو پارٹی حکومت میں آئے گی اُس سے منسلک افراد کے کیس ختم ہو جائیں گے۔ اس سارے گھنائونے کھیل میں عدالتوں کا کردار بہت افسوس ناک ہے۔ عدالتیں انصاف دیں تو جھوٹے کیسوں کو بننا نہیں چاہئے اور ٹھوس کرپشن کیسوں کو ختم نہیں ہونا چاہئے۔ انصاف ہو تو ہر کیس کے اختتام پر اس بات کا فیصلہ ہونا چاہئے کہ آیا یہ کیس جھوٹ پر مبنی تھا یا ملاپ اور فرینڈلی پروسیکیوشن کی وجہ سے ختم ہو رہا ہے۔ اسی بنیاد پر متعلقہ ادارے کے ایک ایک افسر جس نے جھوٹا کیس بنانے یا ٹھوس کیس ختم کروانے میں کردار ادا کیا اُن کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے، اُنہیں نوکریوں سے نکالنا چاہئے۔ عدالتوں اور ججوں کے کردار اور اُن کے فیصلوں کو جانچنے کیلئے بھی عدلیہ کو خود ایک ایسا نظام بنانا چاہئے کہ فیصلوں میں کوئی دو نمبری نہ ہو۔ انصاف کے نام پر ناانصافی کرنے والے ججوںکو عدلیہ میں رہنے کا حق نہیں دیا جانا چاہئے۔ سلیمان شہباز کے خلاف جب منی لانڈرنگ کا کیس بنایا گیا تو ثبوتوں کے انبار ایف آئی اے نے میڈیا کے سامنے رکھ دیے۔ سلیمان شہباز ملک چھوڑ کر چلے گئے، عدالتوں نے اُنہیں مفرور قرار دیا، چالان جب پیش کیا گیا تو اُس پر بھی کوئی شکایت نہ کی۔ لیکن جب شہباز شریف واپس آئے، وزیر اعظم بنے تو پہلے تو اُن کے خلاف ایک ایک کر کے کیس ختم ہونا شروع ہوئے اور پھر سلیمان شہباز کی واپسی ہوئی اور اُن کیلئے بھی باعزت بری ہونے کا سلسلہ شروع ہوا اور اب وہ تمام الزامات سے پاک صاف کر دیے گئے ہیں۔ ہمارا احتساب کا نظام ، ہمارے ادارے چاہے نیب ہو، ایف آئی اے یا صوبائی اینٹی کرپشن کا محکمہ سب اشاروں پر چلتے ہیں، کچھ سنوارنے کی بجائے بگاڑنے کا کام کرتے ہیں۔ نظام عدل بھی گل سڑ چکا اور کسی بھی قسم کا انصاف دینے سے قاصر ہے بلکہ سچ پوچھیں تویہ مجرموں اور ظالموں کی ڈھال بن چکا ہے۔ یہ نظام عدل ہو یا نظام احتساب ان سب کو ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے ورنہ احتساب کے نام پرایک ایسا گھنائونا کھیل ،جس میں جھوٹا کیس بنانا اور ٹھوس کیس کو ختم کروانا معمول ہو،جاری رہے گا۔ اس نظام کےگھنائونے چہرے کو بے نقاب کرنے کیلئے سلیمان شہباز کیس کو کیس سٹیڈی کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ ایک ایسا کمیشن بنایا جائے جس میںاہل اور بہترین شہرت کے افراد شامل ہوں جو اس کیس کے بننے اور اس کے خاتمہ تک متعلقہ محکموں اور عدلیہ کے کردار کو دیکھیں تاکہ نظام میں موجود اصل خرابیوں کی نشاندہی ہو سکے۔(بشکریہ جنگ)۔۔