تحریر: مدثر سبحانی(چیئرمین پاسبان بزم قلم)
کہنہ مشق صحافی، مختلف اخبارات وجرائد کے چیف ایڈیٹر، ادیب،مصنف کتب کثیرہ،کالم نگار، سیرت نگار، تاریخ ساز شخصیت حضرت مولانا محمد یوسف المعروف مجاہد الحسینی بھی گزشتہ دنوں اس سفر پر روانہ ہوگئے جو بقول قرآن ہر ذی نفس کا مقدر ہے، جو بھی اس دنیا میں آیا،اسے ہر حال میں یہاں سے رخصت ہونا ہے۔ موت سے پہلے نہ کوئی فرار کی راہ ڈھونڈ سکا اور نہ آیندہ اس سے بچ سکے گا۔
مولانا کو بھی اس دنیا سے رخصت ہونا تھا سو اپنے خالق حقیقی کی پکار پر لبیک کہا اور راہی ملک بقا ہوگئے ان کی اس عارضی دنیا سے رخصتی پر کئی آنکھیں اشک باراور کئی دل غم سے نڈھال ہیں۔ یہ احساس مدتوں تازہ رہے گا۔
دینی وعلمی حلقوں میں مولانا مجاہد الحسینی کی شخصیت کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں تھی، مولانا سلطان پور لودھی ریاست کپور تھلہ ضلع جالندھر انڈیا میں 4جنوری 1926کو پیدا ہوئے،مولانا کے والد کا نام محمد ابراہیم تھا۔ دوسال کی عمر میں والد اور والدہ دونوں کا انتقال ہوگیا تھا۔ آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والدین کی وفات کے بعد آپ کی پھوپھی نے آپ کی پرورش کی۔ مدرسہ عربیہ خیرالمدارس اور دارالعلوم ڈابھیل سے دینی تعلیم مکمل کی۔
موصوف مجلس احرار کے بانی رکن تھے۔مولانا مجاہد الحسینی نے 1949میں ہفت روز غریب کا اجراء کیا۔1950سے 1953تک روزنامہ آزاد کے بطور ایڈیٹر کی ذمہ داری بھی اداکی، علاوہ ازیں ہفت روزہ خدام الدین،ماہنامہ صوت الاسلام سمیت بے شمار اخبار وجرائد کے بھی ایڈیٹر کی حیثیت سے بیش بہا خدمات سرانجام دیں اور روزنامہ احسان میں ایک عرصہ تک کالم نگار ی بھی کی۔ آپ نے کچھ شاعری کی لیکن اوڑھنا بچھونا نثر کو ہی بنایا، آپ کی20کے قریب شہرہ آفاق کتابیں بھی منظر عام پر آئیں جن سے عوام الناس نے اپنی علمی پیاس بجھائی۔ 1995میں ان کی کتاب سیرت وسفارت رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو اول صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔
جامع مسجد کچہری بازار فیصل آباد میں تقریباً13 سال خطابت کی۔ ادب وحکمت، صحافت اور وعظ وخطابت کے میدان میں اپنا سکہ جمایا۔
مولانا مجاہدالحسینی سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی خطابت کے عینی شاہد، زیارت کنندہ حکیم الامت حضرت تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی کے مرید خاص، مولوی فضل، علامہ ظفر احمد عثمانی، مولانا اعزاز علی، مولانا خیر محمد جالندھری اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہم کے شاگرد رشید تھے۔
شاہ فیصل، ابوالحسن علی ندوی، الشیخ ابن باز، الشیخ خالد السریری، شہزادہ خالد الفیصل، مفتی کفایت اللہ، موالانا حفظ الرحمن سیوھاروی،نوابزادہ نصراللہ خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیات سے خاصی ملاقات رہی۔
آپ کی ساری زندگی عقیدہ ختم نبو ت کی حفاظت میں گزری، آپ نے 1953 اور 1974کی تحریک ختم نبوت میں ایک مجاہد سپاہی کا کردار ادا کیا۔ عقیدہ ختم نبوت کی خاطر کئی بار جیل بھی گئے۔مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا ترنم، مولانا ابو الحسنات، مولانا بدایونی، صاحبزادہ فیض الحسن، مولانا لال حسین اختر اور مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمھم اللہ سمیت جیل میں موجود تمام اکابر کی امامت کی مستقل ذمہ داری آپ ہی کی تھی۔ ان کے سینے میں تاریخ کے ہزاروں راز، اہم وبیش بہا معلومات، اکابر کی مجلسوں اور محبتوں کا آنکھوں دیکھا حال، عقیدہ ختم نبوت کے اتارچڑھاؤ کے احوال محفوظ تھے۔
راقم الحروف کی مولانا سے کئی بار ملاقات ہوئی ہمیشہ بہت ہی شفقت سے پیش آئے۔غالباً2017کی بات ہے میں نے 14اگست کے حوالے سے کالم لکھنا تھا اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھوں؟ اور آزادی کے کونسے پہلو پر قلم اٹھاؤں؟ اسی سوچ میں مولانا مجاہد الحسینی سے ملنے ان کے گھر پیپلز کالونی میں چلا گیا۔ مولانا کو ساری صورتحال بتائی تو مولانا نے تحریک آزادی سے لے کر پاکستان بننے اور بعد تک کی تمام کہانی اپنی درد بھری آواز میں سنانی شروع کردی۔ مولانا مرحوم سے جب بھی ملاقات ہوتی وقت کا پتہ ہی نہ چلتا مولانا صحیح معنوں میں بحر العلوم تھے۔
داعی اجل کو لبیک کہنے سے چند دن قبل ادارہ علم وآگہی کے سرپرست نسیم اللہ چوہان مرحوم کی وفات پر مولانا نے اپنی زندگی کی آخری تحریر رقم کی۔راقم الحروف کے لیے یہ بہت شرف کی بات ہے کہ ان سے ان کے گھر پر ملاقات کرکے تحریر وصول کی۔ ان سے آخری ملاقات میں سوال کیا کہ فرقہ واریت کا زہر کیسے ہمارے معاشرے کی جڑ سے ختم کیا جاسکتا ہے تو مولانا نے ہمیشہ کی طرح یہ ہی کہا کہ حکومت کو چاہیے امام و خطیب کی تقریر کا ایک معیار قائم کرے، جس طرح ایک ٹیچر کے لیے ”پی ٹی سی“ اور ”بی ایڈ“ کی شرط ہوتی ہے اور ہماری دینی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہعلما کی تربیت اورفرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے مختلف ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے اگر علما اس زہر کو ختم کرنے کے لیے کوشش کریں گے تو امید ہے یہ زہر ہماری زندگیوں میں سے نکل جائے گا اور اس وقت ہمیں اس محاذ پر جنگ لڑنے کی بہت ضرورت ہے۔
برصغیرپاک وہند کی قد آور شخصیت کے ساتھ گزرے لمحات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ان کی وفات سے علمی و دینی حلقوں میں ایک ایسا خلا رہ گیا ہے جو شاید ہی پر ہوسکے۔اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، خطاؤں سے درگزر فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین
ـ(مدثر سبحانی)۔۔