تحریر: وقاص احمد بیگ۔۔
وں تو مجھے صحافت میں آئے بارہ سال سے زائد ہو گئے لیکن اگر کوئی ثبوت مانگ لے تو میں صرف دس سالہ صحافتی کیرئیر کا ہی ثبوت پیش کر سکتا ہوں ان بارہ سالوں میں صحافت کو میں کبھی سچا نہیں سمجھ سکا ہاں ان دس سالوں سے قبل کہیں سچی صحافت ہوئی ہو گی تو پتہ نہیں۔اس دور کے دوران بڑے اچھے اچھے صحافیوں سے ملنا ہوا ان کے ساتھ کام کو موقع بھی ملا۔مگر زیادہ تعداد میں موقع پرست اور مفاد پرست صحافی ہی ملے۔ لڑکیوں کی خریدو فروخت کرنے والے بھی صحافت کا لبادہ پہنے گھومتے دیکھے اور الیکٹریشن پر بیٹری چوری کا الزام لگا کر صلح کے نام پر اے سی کی قیمت وصول کرتے صحافی بھی دیکھے اپنے ہی دوست کی کار چوری کر کے وزیرستان کے چوروں سے کار واپس دلوانے کے نام پر چار لاکھ لیتے بھی صحافی نظر سے گزرے اور صحافت کی آڑ میں منشیات فروش بھی دیکھے، کوٹھوں کے سرپرست صحافیوں سے بھی ملا۔مگر سب سے زیادہ پریشانی مجھے اک دن کے صحافیوں سے ہوئی جو اکثر سال کے اختتام پر کسی صحافتی تنظیم کے الیکشن پر نظر آتے ہیں اور افسوس اس وقت اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے جب ان تمام ایک روزہ صحافیوں کی سرپرستی میں بڑے صحافیوں کی تصاویر نظر آتی ہیں۔اب میرے شہر کے حالات ہی دیکھ لیں جب ملکی سطح پر یونین آف جرنسلٹ برنا کے دو گروپ ہوئے یعنی۔۔رانا عظیم اور افضل بٹ گروپ تو فیصل آباد میں تنظیم کے مزید تین گروپ بن گئے جن میں ایک کی سربراہی مرحوم شمس الاسلام دوسرے کی ایکسپریس نیوز کے سابق رپورٹر رانا حبیب اور تیسرے کی مساوات کے سابق رپورٹر اور بزرگ صحافی جاوید صدیقی نے لی کچھ دوستوں کے سوالات کی وجہ سے جاوید صدیقی اور شمس الاسلام صاحب والے گروپ آپس میں مل گئے۔ پھر مجھ پر اصلیت اس وقت کھلنا شروع ہوئی جب بنا کسی درخواست اور بنا کسی ممبر شپ فارم فل کرنے کے روزنامہ جنگ کے اس وقت کے حاضر اور اب کے وقت میں سابق رپورٹر عبداللہ صاحب نے کہاکہ وقاص بھائی آپ ہماری تنظیم کے ممبر ہیں تین سو روپے سالانہ فیس جمع کروا دیں سو تعلق اور دوستی پر ہم نے تین سو قربان کئے اور ممبر شپ فیس جمع کروا دی اس واقع کے دو یا تین دن بعد مجھے معلوم ہوا کے میں فیصل آباد یونین آف جرنلسٹ برنا کے افضل بٹ گروپ کے شمس الاسلام ناز گروپ میں جاوید صدیقی گروپ کی جانب سے بطور ایگزیکٹیو ممبر الیکشن میں امیدوار ہوں بہت سے سوالات ذہن میں تھے مگر کس سے پوچھتا خیر اگلے دن جائے واردات یعنی الیکشن کی جگہ پہنچ گیا۔ اور ہر ایک سے پوچھنے لگا کے بھائی کس کی تنظیم ہے؟کس نے بنائی ہے؟ صحافیوں کی فلاح بہبود کے لئے کیا کرتی ہے یہ تنظیم؟میں کیسے ممبر بن گیا؟الیکشن میں کاغذات نامزدگی پر میرے دستخط کس نے کر دئے؟ ابھی ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہا تھا کہ معلوم ہوا کہ جاوید صدیقی نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا میں نے حیرانی کے عالم میں جاوید صدیقی صاحب کو کال کی کہ جناب ہم کیا آپ کے کوئی مزارع ہیں جو سب کچھ آپ طے کر رہے ہیں وہ بھی بنا کچھ پوچھے بتائے؟ خیر ووٹنگ شروع ہوئی تو میں جن دوستوں کو جانتا تھا ان سے ہر ہر فرد کے بارے میں پوچھنے لگا کہ یہ ووٹر کون ہے؟ کس ادارے سے ہے؟کس اخبار سے ہے؟کس ٹی وی سے ہے؟ کہاں ہوتے ہے؟ کیونکہ اس دن کے ووٹرز میں سے میں نے ساٹھ فیصد سے زائد ووٹرز کو کبھی نا جانا تھا نا دیکھا تھا خیر سوالات کے جواب تو نہیں ملے بس ووٹنگ کا ٹائم ختم ہو گیا اور میں بطور ایگزیکٹیو ممبر کامیاب قرار پایا پہلا اجلاس ہوا اسی مقام پر میں بھی موجود رہا سوائے کھانا کھانے کے میرے سمیت کسی نے کچھ نہیں کیا نا کہا اس کے بعد بھی دھکم پیل اور بن بلائے ہی سہی مگر میں اس تنظیم کے پانچ اجلاسوں میں شامل ہوا جو اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد میں ہوتے تھے نام نہاد کمیٹیاں بننا شروع ہوئی تو میں نے عرض کی کہ جناب مجھے اسکروٹنی کمیٹی کا ممبر بنائیں تاکہ پتہ تو چلے کے کون کون ہے اور ہم کون ہے بس وہ میرا آخری اجلاس تھا پھر مجھے کبھی اجلاس میں نہیں بلایا گیا اور کب سال ختم ہوا کب نئے الیکشن کا اعلان ہوا مجھے کچھ پتہ نہیں بس الیکشن کے دن معلوم ہوا تو اپنے ساتھ والے کابینہ ممبران سے پوچھا اور سوشل میڈیا پر بھی لکھا کہ جناب یہ ہو کیا رہا ہے؟پر کچھ پتہ نہیں ہاں البتہ اب اسی تنظیم کا اک اور الیکشن ہے اور مجھے معلوم ہوا کہ میں اب اس تنظیم کا ممبر نہیں ہوں مجھے یہ سن کر اچھا لگا مگر میرے سوال باقی ہیں۔۔کہ تنظیم کا مقصد کیا ہے؟ممبر کیسے اور کون بناتا ہے؟؟
ملکی سطح کے لیڈر افضل بٹ صاحب کو اس تنظیم سے کیا کیا فائدے ملتے ہیں؟؟
فیصل آباد میں گذشتہ کئی برسوں سے ایک بندہ بار بار صدر کیوں بنتا ہے ؟اور لیڈران خود الیکشن میں کیوں کھڑے نہیں ہوتے ؟کیوں کنگ میکر بننے کی کوشش میں رہتے ہیں؟ الیکشن کے بعد اور پہلے یہ تنظیم فیصل آباد کے صحافیوں کے لئے اب تک کیا کیا کارنامے سر انجام دے چکی ہے؟ اس تنظیم کے لاتعداد ایک روزہ ممبران الیکشن کے بعد سال بھر کیا کرتے ہیں؟چوبیس فروری کو الیکشن میں وہی چہرے کیوں کامیاب ہونگے؟ کل کے بعد اتنے سارے ووٹر جو کے امیدواروں کی کامیابی ہیں کہاں جائیں گے؟ ممبران سے لی گئی فیس کا حساب کون کسے کب اور کس طریقہ سے دیتا ہے؟ صحافی تنظیموں کو اک دن کے صحافیوں کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟یہ تحریری اس تنظیم کے ساتھ میرا ذاتی تجربہ ہے جبکہ دیگر تنظیموں میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے اس تحریر سے اختلاف آپ کا حق ہے ملکی سطح پراس گروپ کے لیڈر افضل بٹ صاحب اگر اس سچائی سے انکار کرتے ہیں تو میں ان کے جواب کا بھی منتظر رہوں گا۔۔
اب سوچ رہا ہوں کے آغاز میں لکھے گئے افراد کا ون بائی ون بائی نیم تعارف کا اک سلسلہ شروع کروں جس میں بتا سکوں کے کون ڈیک مکینک تھا اور لاکھوں کا مالک کیسے بنا کون گوالہ تھا اور آج سنئیر رپورٹر کیسے بنا کون کون چینلز کی ڈی ایس این جی پر بھتہ وصول کرنے جاتا ہے اور کون کون کہاں کہاں غیر قانونی کارووبار کرتا ہے ان سب کے لئے میری صحافت کی بد تر صورتحال اور ایسے افراد کے تعارف پر مبنی کتاب۔۔لگام۔۔۔ جلد مارکیٹ سے دستیاب ہوگی۔اک دن کے صحافی اس تحریر سے دور رہیں۔۔( وقاص احمد بیگ)۔۔