ahtesab re ahtesab

احتساب رے احتساب۔۔

تحریر:عادل علی

پچھلے دو تین دن سے ملک میں معیشت کو لے کر بہت گہما گہمی پائی جا رہی ہے۔ بزنس کمیونٹی کے ساتھ اہم ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بات کو صیغہ راز میں رکھنے کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ملاقاتیں کون کر رہا ہے کیونکہ اب تک یہ بات ہر سوں پھیل چکی ہے۔

خبر ہے کہ ملک میں کڑا احتساب ہونے جا رہا ہے جس میں کسی کو بھی کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دی جائیگی۔احتساب کا دائرہ کار بہت وسیع بتایا جا رہا ہے۔ خبروں کے مطابق ملک میں ہر قسم کی چوری کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائیگا اور انہیں احتساب کے شکنجے میں لایا جائیگا۔

زمینوں پر قبضہ کرنے والوں سے لے کر ہر قسم کی اسمگلنگ کے خلاف بھی کریک ڈاون کیا جائیگا۔ بیرونی کرنسی سمیت اناج کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائیگی۔ سیاستدانوں سے عوام کے پیسے کا حساب لیا جائیگا، کاروباری طبقے سے ٹیکسز کا حساب لیا جائیگا اور ان کے گھپلوں پر انہیں قانون کے کٹہرے میں بھی لا کر کھڑا کیا جائیگا اور اس سے عوام کو فائدہ پہنچایا جائیگا۔

اچھا اب یہ ساری باتیں بہت عمدہ ہیں سن کر بہت اچھا لگتا ہے مگر جان کی امان پاوں تو عرض کروں کہ احتساب کا یہ نعرہ نیا نہیں ہے۔قوم اب تک چار بار کڑے احتساب کے مراحل بھرپور انداز میں دیکھ چکی ہے اور ہر بار ہوا پھر یہ ہی ہے کہ سیاستدانوں کو آکر ملک بھی سنبھالنا پڑا ہے اور احتساب کرنے والوں کی ساکھ بھی بحال کروانی پڑی ہے۔

دور حاضر میں اب کچھ بھی چھپا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کی ترقی نے ملک میں رہنے والے بچوں کو بھی نرم و سخت مداخلت کی تشریح سمجھا دی ہے۔

دودھ کی رکھوالی پر بلا بٹھا دیں اور دودھ کے غائب ہونے پر بلا ہی گھر والوں سے گمشدہ دودھ کا حساب مانگنا شروع کردے تو یہ زرا اچھنبے کی بات ہے کیونکہ سوال رکھوالی کرنے والے سے کیا جاتا ہے۔

پاکستان اللہ میاں کا سر سبز کھیت ہے جسے نیچے سے اوپر تک سب ہی کھا رہے ہیں مگر احتساب و انصاف کے لیے محض سیاستدان و عام عوام کو شمار کیا جاتا ہے اور ملک کے حقیقی طبقہ اشرافیہ کو استثنیٰ دے دیا جاتا ہے۔

ہم بہت روادار و روایتوں کے امین لوگ ہیں۔ ہم نے اب تک پچھتر سال پرانی روایات کو بھی بطور ورثہ زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہم آج بھی بوقت ضرورت لوگوں میں غداری کے فتوے بانٹ دیتے ہیں اور یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ملک اپنے سب سے اہم ہتھیار سے مستفید نہ ہو؟ الحمداللہ ہم طالبان، جماعت اسلامی، تحریک لبیک جیسے کئی نایاب و نادر اثاثوں کے مالک ہیں جنہیں ہم موقع کی مناسبت سے استعمال کرتے رہتے ہیں اس کے علاوہ قوم میں مزید بٹوارے کے لیے ہم فرقہ واریت و لسانیت سے بھی مالا مال لوگ ہیں جہاں جس چیز کی بھی ضرورت ہو اس کا تڑکہ لگا دیتے ہیں جبکہ سیاسی مقدمات کی چھڑی تو اپنی جگہ ہے ہی۔

ہمارے ہاں سیاستدانوں سے آج بھی چند لمحوں میں اربوں رپے برآمد ہوجاتے ہیں ساتھ ہی ہیرے جواہر بھی مل جاتے ہیں مگر راوی محو حیرت ہے کہ دوران تفتیش نوٹوں سے بھری لانچوں سمیت سونے کی پلیٹیں کہاں غائب ہو جاتی ہیں۔

گزشتہ ایک آدھ ہفتے میں جعلی خبروں کے ذریعے ہم لگ بھگ چار سو ارب روپے کی رقم برآمد کر چکے ہیں۔

ہمارا میڈیا ہر طرح سے ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ جو لوگ کل عمران خان کو ہیرو بنانے میں مصروف تھے انہی کو ہم نے آج کل عوامی حکمرانی کو ناکارہ ترین قرار دینے پر معمور کیا ہوا ہے کہ سیاستدان محض ملک لوٹنے کے لیے آتے ہیں اصل تو ہم ہیں جنہیں غم جاناں (قوم) نے نڈھال کر رکھا ہے اور ہم ہی وہ ہیں جو اس درد کا مداوا بھی کرینگے۔

ہم اپنی قوم کی تو کیا ہی بات کریں سبحان اللہ نہایت ہی صابر و شاکر لوگ ہیں۔ ہر حال میں ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔ دیکھیں جناب بات یہ ہے کہ دنیا تو ہے ہی محض عارضی زندگی اور آخرت کے مراحل نہایت مشکل ہیں اس لیے ہم ابھی سے قوم کو دوزخ میں “ایڈجسٹ” ہونے کی عادت ڈال رہے ہیں!

یہ سارے کام ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ جو دودھ ہم پی جاتے ہیں اس کی گمشدگی کا سوال ہم سے نہ کیا جائے نہ ہی کسی کا دھیان ہماری طرف جائے بس اتنا سا ہی تو خواب ہے۔

شومئی قسمت کہ اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ قوم جان چکی ہے۔

جس کا کام اسی کو سانجھے کے تحت آپ کام کے ماہرین کو جب تک مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے نہیں دینگے وہ عوام کی توقعات کے مطابق نتائج دے نہیں پائینگے لہذا احتساب کے مواقع آتے جاتے رہینگے مگر حالات ایسے ہی رہینگے۔

بدلاو تب ہی ممکن ہے جب آپ اپنا آپ بدلیں گے۔(عادل علی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں