تحقیقاتی صحافی احمد نورانی کے 2 بھائیوں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی، جس کے مطابق رپورٹنگ کی وجہ سے انہیں ’زبردستی غائب‘ کیا گیا ہے۔امریکا میں مقیم احمد نورانی فیکٹ فوکس نامی ایک نیوز آؤٹ لیٹ کے لیے کام کرتے ہیں، جس نے حال ہی میں ایک ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی۔احمد نورانی کی والدہ امینہ بشیر نے لاپتا بیٹوں کی بازیابی کے لیے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس میں سیکریٹری دفاع ، سیکریٹری داخلہ، آئی جی اور ایس ایچ او تھانہ نون کو فریق بنایا گیا ہے۔ایڈووکیٹ ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے ذریعے دائر درخواست میں والدہ نے مؤقف اپنایا کہ سیف الرحمن حیدر اور محمد علی میرے دو بیٹے ہیں، جنہیں اسلام آباد میں ان کے گھر سے رات ایک بجکر 5 منٹ پر سادہ لباس لوگ ’زبرستی اٹھا‘ کر لے گئے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ وہ احمد نورانی کے بھائی ہیں، جنہوں نے حال ہی میں ایک حاضر سروس فوجی افسر کے بارے میں ’وسیع رپورٹ‘ مرتب کی تھی۔درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ بالکل واضح ہے کہ ان کے بھائیوں کی جبری گمشدگی ہے، جس کا مقصد احمد نورانی کی صحافت کو خاموش کرنا ہے۔درخواست کے مطابق مقدمہ کے اندراج کے لیے درخواست تھانہ نون میں دائر کی گئی ہے، مقدمہ بھی درج نہیں کیا گیا نا ہی لاپتا کیے جانے والوں کے حوالے سے ابھی کچھ معلوم ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ احمد نورانی کے بھائیوں کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ہے، اس کے باوجود ’غیر قانونی طور پر اغوا‘ کیا گیا، استدعا کی گئی ہے کہ لاپتا بھائیوں کو بازیاب کرا کے عدالت پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مقدمہ درج کرکے ’غیر قانونی اغوا‘ کرنے والے کے خلاف کارروائی کی جائے، ان کے بھائیوں کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو وہ بھی سامنے لانے کا حکم دیا جائے۔دریں اثنا، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چھاپے اور احمد نورانی کے بھائیوں کی ’جبری گمشدگی‘ کو پاکستان میں ’اختلاف کے مسلسل جبر کی علامت‘ قرار دیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ احمد نورانی کے 2 بھائیوں کی محفوظ واپسی کو یقینی بنائیں، جبکہ حکومت کو ان کی گمشدگی کی فوری، مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنی چاہیے۔