سینئر صحافی ، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ ۔۔صحافی و شاعر احمد فرہاد کون سا احمد فراز کا رشتہ دار تھا کہ جسٹس محسن اختر کیانی نے اس کی گمشدگی کو اتنی اہمیت دی؟ ایسے اٹھائے جاتے تھے تو کوئی پوچھتا نہیں تھا‘ کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ ایسا موسم بدل رہا ہے کہ بات بات پر رسوائی کا سامان پیدا ہو رہا ہے۔ ہم پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا تھا اور اب ہمارے ساتھ وہ ہو رہا ہے جس کا کبھی تصور نہ تھا۔ مجبور ہو کر اس احمد فرہاد کو رونما کرانا پڑا۔ کیا ہوا کہ مظفرآباد کے کسی تھانے میں اس پر مقدمہ قائم کرنا پڑا؟ یہ کون سی ایسی انوکھی بات ہے‘ یہاں تو ایسا چلتا ہے۔ لیکن جسٹس کیانی کے تیور دیکھیے کہ پھر بھی یہ مسئلہ فارغ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کہتے ہیں کہ پتا تو چلے کہ گمشدگی کے پیچھے کون سے ہاتھ تھے۔ یہ دن بھی آنا تھا۔دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں ایاز امیر لکھتے ہیں کہ ۔۔مصیبتوں میں گھرے وزیراعظم شہباز شریف نے کیا دانشورانہ بات کی تھی کہ عدلیہ میں چند کالی بھیڑیں ہیں جو ہر قیمت پر قیدی نمبر فلاں کو ریلیف مہیا کرنا چاہتی ہیں۔ اس تبصرے پر طوفان اُٹھنا شروع ہوا تو اٹارنی جنرل نے جھٹ کہا کہ وزیراعظم تو ماضی کی بات کر رہے تھے‘ حالانکہ وزیراعظم نے یہ نہیں کہا تھا کہ کالی بھیڑیں تھیں‘ انہوں نے کہا تھا کالی بھیڑیں ہیں۔ لیکن ہم کون ہیں جو اُن کی تردید کریں‘ درست وہی ہو گا جو وہ کہہ رہے ہیں۔ بہرحال صورتحال کچھ اچھی نہیں‘ حالات پہلے بھی قابو میں نہ تھے لیکن اب تو ہاتھ سے بالکل نکلے جا رہے ہیں۔ رجیم چینج کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن سرکش جماعت قابو میں نہ آئی اور کمبخت عوام ہیں کہ بپھرے ہی جا رہے ہیں۔ ہمارا کوئی گھڑا ہوا افسانہ سننے کے لیے تیار نہیں۔ الیکشنوں سے پہلے کون سے پاپڑ نہ بیلے گئے؟ کون سی ہنرمندیاں نہ دکھائی گئی تھیں؟ لیکن کچھ نہ کام آیا اور عوام نے وہ کیا جو ازلی دشمن نہیں کرتے۔ اور اب اسلام آباد کے جج صاحبان ہیں جو کسی کہانی کو دوام بخشنے کے لیے تیار نہیں۔