seedha faisla karen social media karden

احمد علی خان سے ضیاء الدین تک ۔۔پارٹ تھری۔۔

تحریر: رؤف کلاسرا۔۔

فون نیچے رکھا تو  لگا ایک لحمے میں زندگی بدل گئی تھی۔ میرا اسلام آباد تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ ایک عجیب سی سنسنی بدن میں دوڑتی محسوس ہوئی۔ میری نوکری گئی نہ میں بیروزگار ہوا۔ خدا کا شکر ادا کیا بغیر کسی سفارش کے احمد علی خان صاحب نے میری زندگی بدل دی تھی۔اتنا بڑا آدمی کہ انہوں نے میری خاطر لاہورایڈیٹر کے ریکمنڈ کیے نام بھی مسترد کر دیے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کراچی سے پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی آغا ناصر کی صاحبزادی جو ڈان کراچی میں لکھتی تھیں وہ بھی اسلام آباد شفٹ ہونا چاہ رہی تھیں۔ خان صاحب نے ان کا نام بھی منظور نہ کیا۔خدا نے احمد علی خان کو میرے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا تھا جس نے میری زندگی بدلنی تھی۔ کہاں میں نوکری سے ہاتھ دھونے والا تھا اور کہاں اچانک ایک ضلعی نامہ نگار سے اسلام آباد ڈان بیوروآفس میں بہترین صحافیوں ساتھ کام کا موقع ملے گا جن کی خبریں فرنٹ پیج پر چھپتی تھیں۔ کئی دفعہ دل میں یہ بات کہیں جاگتی کبھی ڈان کے فرنٹ پیج پر میرا نام بھی کسی بڑی خبر کی طرح چھپے گا؟ پھر ڈر کے مارے ادھر ادھر دیکھتا کہ کس نے میری سوچ پڑھ تو نہیں لی تھی اور مذاق اڑائے گا کہ کیسے دن میں خواب دیکھتا ہے۔

اچانک اس سب خوشی کے درمیان مجھے خان صاحب کی شرط یاد آئی کہ ملتان اس وقت چھوڑ سکتا ہوں جب میں انہیں اپنی جگہ اپنے جیسا  رپورٹر ڈھونڈ کر دوں کیونکہ ملتان بہت اہم اسٹیشن تھا تاکہ میرے جانے کا خلا پیدا نہ ہو۔ میں حیران بھی ہوا تھا کراچی بیٹھے چیف ایڈیٹر کو میرے کام اور شاید اہمیت کا زیادہ ہی احساس تھا۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے پہلے اپنے جیسا کوئی رپورٹر ڈھونڈ کر دوں جبکہ لاہور کا ریذڈنٹ ایڈیٹر طاہر مرزا صاحب مجھے نکالنے کا پروگرام فائنل کیے بیٹھے تھے۔ لاہور ایڈیٹر کے خیال میں، میں ڈان اخبار کے کلچرمیں فٹ نہیں بیٹھتا تھا اور مجھے برطرف کر دینا چاہئے اور یہی اشارہ مجھے عمران اکرام صاحب نے دیا تھا۔ جبکہ کراچی کا چیف  ایڈیٹر نہ صرف میرے کام  اور رپورٹنگ کا فین نکلا بلکہ درخواست میں تمام تر خامیوں اور طاہر مرزا کی ریکمنڈیشن نہ ہونے کے باوجود مجھے نہ صرف آسلام آباد بھیجنے کے احکامات جاری کر چکا تھا بلکہ اب وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ میں جانے سے پہلے اپنے جیسے کوئی رپورٹر ملتان کے لیے تلاش کروں۔

ایک لحمے کے لیے میرے اندر کمینی خوشی نے جنم لیا کہ جب طاہر مرزا صاحب کو یہ پتہ چلے گا جس نامہ نگار کو میں  نکالنے والا تھا اسے خان صاحب نے مجھ سے کنسلٹ یا پوچھے بغیر تبادلہ بھی کر دیا تھا تو ان کی کیا حالت ہوگی۔ مجھے پتہ تھا طاہر مرزا صاحب یقینا چھت سے جا لگیں گے کہ یہ چمت کار کیسے ہوگیا کہ ان کے بھیجے نام نہ صرف خان صاحب نے مسترد کر دیے تھے بلکہ ملتان سے ایک عام سے رپورٹر کو ان کی جگہ بھیج کر ایک طرح سے ان کا مذاق اڑایا گیا تھا۔مجھے ڈر تھا طاہر مرزا یقینا اس پر پھڈا کریں گے کیونکہ ڈان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کسی ریذڈنٹ ایڈیٹر کی سفارش بغیر ہی یہ کام ہو جائے۔ تاہم ایک دوست نے بعد میں تسلی دی کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ احمد علی خان صاحب کا بہت رعب اور دبدبہ تھا۔ انہوں نے فیصلہ کر دیا تھا۔ وہ طاہر مرزا صاحب کے بھی باس تھے۔

اب میں سوچنے بیٹھ گیا کہ میں ملتان اپنی جگہ کسی کا نام احمد علی خان صاحب کو بھیجوں کہ وہ بہترین کام کرے گا ۔ میرے ذہن میں ڈیرہ غازی خان سے ڈان کے نوجوان نمائندہ ندیم سعید کا نام ابھرا۔ میں ندیم سعید کی خبریں شوق سے پڑھتا تھا۔ اس کی سیاسی خبریں اور کمنٹس جو ڈان میں چھپتے تھے وہ بہترین تھے۔ مجھے ندیم سعید کی خبروں میں جان اور تبصروں  میں سپارک محسوس ہوتا۔ ندیم سعید ڈیرہ جیسے اہم اسٹیشن پر تھا جہاں سے صدر پاکستان، گورنر اور کئی اہم وزیر، سردار، خان، لغاری، مزاری، کھوسے، دریشک تھے اور ندیم سعید ان کے دبائو میں آئے بغیر آزادنہ رپورٹنگ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس کے کریڈٹ پر بہترین خبریں تھیں۔میں نے ندیم سعید کو فون کیا اور بتایا اس کے لیے ملتان ایک بہترین موقع ثابت ہوسکتا ہے۔ ندیم کو لاہور نیوز روم میں عمران اکرم بھی پسند کرتے تھے۔ انہوں نے بھی ندیم سعید چوائس کو پسند کیا۔ پھر وہی ہوا کہ ملتان سے ہی ندیم سعید نے اپنا نام بنایا۔ ڈان کے علاوہ اس نے بی بی سی کے لیے کئی شاہکار خبریں کیں۔ کچھ عرصے بعد بی بی سی   والے اسے لندن لے گئے۔ بعد بی بی سی اردو چھوٹ گیا تو کسی اور پراجیکٹ میں لگ گیا اور پھر ندیم سعید لندن کا ہورہا اور یوں پاکستان ایک اچھے صحافی سے محروم ہوا۔

یوں اب میں اپنے تئیں سب بندوبست کرنے بعد ملتان سے رات بھر سفر کرنے بعد اس وقت اسلام آباد ڈان کے بیوروآفس میں بیٹھا ضیاء الدین صاحب کا انتظار کررہا تھا۔شاید مجھے وہیں کرسی پربیٹھے بیٹھے نیند بھی آگئی لیکن کسی نے مجھے کچھ نہ کہا۔گیارہ بجے کے قریب میری آنکھ خود بخود کھل گئی۔ اب صوفی اختر صاحب ضیاء صاحب کے پی ایس موجود تھے۔ انتہائی شاندار اور خیال رکھنے والے۔ انہوں نے بتایا ضیاء صاحب آنے والے ہیں۔ میں واش روم گیا تاکہ منہ ہاتھ دھو کر فریش ہو جائوں۔ صوفی اختر نے پھرچائے منگوائی۔ کچھ بسکٹ کھلائے تو مجھے احساس ہوا میں نے رات بھر سے کچھ نہیں کھایا تھا۔اتنی دیر میں تیزی سے بیورو آفس کا دروازہ کھلا اور ضیاء الدین صاحب تیز چلتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور سیدھے دفتر میں چلے گئے۔صوفی اختر نے کہا یہی ضیاء الدین صاحب ہیں۔ میں پہلی دفعہ انہیں سامنے دیکھ رہا تھا۔ ایک بارعب شخصیت کے مالک  انسان جنہیں دیکھ کر آپ کا خودبخود ان کی عزت کرنے کو دل کرے۔صوفی اختر نے اندر جا کر اندر ضیاء الدین صاحب کو میرا بتایا ملتان کا رپورٹر ملنے آیا ہے۔

ضیاء الدین صاحب نے اندر بلوا لیا ۔ اندر داخل ہوا تو ضیاء الدین صاحب نے مسکرا کر استقبال کیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔مجھ سے بات نہیں ہورہی تھی۔

شاید رات بھر سفر میں مجھے پتہ نہ چلا کہ یہ خبر پورے ڈان میں پھیل چکی تھی کہ خان صاحب نے کراچی لاہور کے رپورٹرکو ایڈیٹرز کی طرف سے کی گئی سفارشات مسترد کر کے ملتان کے کسی نامعلوم نامہ نگار کو اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا تھا۔ سب حیران تھے یہ سب کیسے ہواتھا۔ اب خان صاحب جیسے بڑے آدمی اور ایڈیٹر پر کسی سفارش کا الزام بھی نہیں لگ سکتا تھا۔میں ضیاء صاحب کو بتانے لگا مجھے احمد علی خان صاحب نے کہا تھا آپ سے مل لوں۔

ضیاء صاحب اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور بولے ہاں احمد علی خان صاحب کا فون آیا تھا۔ ساتھ ہی ضیاء صاحب کے چہرے پر کچھ نیا تاثر ابھرا اور بولے لیکن تمہارے لاہور ایڈیٹر طاہر مرزا صاحب کا بھی تمہارے حوالے سے فون آیا تھا۔وہی ہوا تھا جس کا مجھے ڈر تھا۔ طاہر مرزا اس بات کو ہضم کرنے کو تیار نہ تھے کہ خان صاحب نے ملتان سے بندہ سیدھا اسلام آباد بھیج دیا تھا۔میں چپ چاپ سانس روک کر انتظار کرتا رہاکہ ضیاء صاحب اب کیا فیصلہ کرتے ہیں کہ میں جوائن کروں یا واپس ملتان لوٹ جائوں۔ مجھے اندازہ نہ تھا میری وجہ سے تین ایڈیٹرز درمیان یہ ایشو کھڑا ہوسکتا تھا۔ میرا کئریر دائو پر لگ چکا تھا۔ضیاء الدین صاحب کی سنجیدگی سے لگ رہا تھا معاملہ گڑبڑ تھا ۔

مرزا صاحب، احمد علی خان صاحب کے غیرمعمولی فیصلے خلاف تو کچھ نہ کرسکے تھے لیکن اب انہوں نے بڑی سمجھداری سے میرے خلاف آخری کارڈ کھیل دیا تھا۔ میرے راستے میں ایسے کانٹے بوئے کہ جب تک میں ڈان میں رہا ان کی چبھن مسلسل محسوس کرتا رہا۔میں حیرانی اور کچھ صدمے کی کیفیت میں ضیاء  صاحب کی باتیں سن رہا تھا کہ طاہر مرزا صاحب نے فون پر انہیں کیا بتایا تھا۔جاری ہے۔۔(بشکریہ دنیا نیوز)۔۔

sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں