تحریر: رئوف کلاسرا
احمد علی خان صاحب بول رہے تھے اور مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کہاں اتنے بڑے اخبار ڈان میں ایک معمولی سا نمائندہ جس کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا اسے ڈان کا چیف ایڈیٹر خود فون کررہا تھا۔میں نے اپنے حواس مجتمع کیے۔ خود کو کچھ سنبھالا اور توجہ سے سننے کی کوشش کی کہ میرے مستقبل کا کیا فیصلہ ہوا تھا۔میری قسمت مجھے آگے لے کر جارہی تھی یا میں ڈان ملتان کی عارضی نوکری سے بھی برطرف کیا جارہا تھا۔ چند لحموں بعد بیروزگار ہو کر میں نے کوئی نئی نوکری ڈھونڈنی تھی یا پھر گائوں لوٹ جانا تھا جہاں سے برسوں پہلے اپنا سفر شروع کیا تھا اور زمینوں پر کاشت کاری کرنی تھی۔
میرے خوف کی وجہ وہی تھی کہ اس وقت تک ڈان کی تقریبا پچاس سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ ایک دورداز علاقے کے ایک نمائندہ نے براہ راست ڈان کے چیف ایڈیٹر کو درخواست بھیج دی تھی کہ لاہور کراچی کے رپورٹرز چھوڑ کر اسے اسلام آباد بھیج دیا جائے۔ سونے پر سہاگا یہ ہوا تھا لاہور کے ایڈیٹر طاہر مرزا مجھے سخت ناپسند کرتے تھے اور ان کی سفارش بھی درخواست پر موجود نہیں تھی۔ طاہر مرزا کو روز میرے خلاف انہیں شکایتیں وصول ہوتی تھی کہ یہ سکینڈل فائل کرتا ہے۔ ایک دفعہ ملتان یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے شکایت کی تو ڈانٹ پڑی۔ ڈان میں سکینڈلز کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ یہ کلچر وہاں نہ تھا۔ بلکہ مجھے یاد ہے میں نے اس وقت بھی 1998 میں جہانگیر ترین کے خلاف خبریں فائل کی تھیں۔ وہ اس وقت شہباز شریف کے زرعی ٹاسک فورس کے سربراہ تھے۔ انہوں نے مرزا صاحب کو فون کر کے شکایت کی تھی تو انہوں نے جہاں مجھے ڈانٹا تھا وہیں انہوں نے نیوزروم کو کہہ دیا کہ اس کی خبریں نہ چھاپیں۔ صرف ملتان ڈیٹ لائن ویکلی چھاپا کریں۔ مرزا صاحب صحافیوں کی اس ایڈیٹر کلاس سے تعلق رکھتے تھے جنہیں کوئی بھی بڑا آدمی فون کر دیتا تو وہ رپورٹر کی بات سننے کی بجائے اسے سیدھے قصور وار سمجھ کر اس بڑے آدمی کو خوش کرتے۔ مرزا صاحب نے اس وقت تک فیلڈ رپورٹنگ نہیں کی تھی لہذا نیوز روم کے بندے تھے۔ رپورٹنگ اور نیوز روم درمیان ہمیشہ ایک سرد جنگ جاری رہتی ہے۔ طاہر مرزا کلچرل اور ادبی سرگرمیوں یا پریس ریلیز صحافت کے قائل تھے۔ جب کہ مجھے شروع سے ہی سکینڈل ڈھونڈ رہے ہوتے تھے کہ ہمیں اخبار میں فائل کرو۔اس وجہ سے آج تک بہت مشکلیں بھی دیکھیں، عدالتوں کے چکر کاٹے، پیمرا میں درجنوں پیشاں بھگتیں بلکہ شاید پچاس کے قریب لیگل نوٹس موصول ہوئے۔ اللہ کا شکر اس نے ہمیشہ سرخرو کیا۔
اس لیے ڈان کے کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں عہدوں کو بائی پاس کرنے کا تصور نہ تھا، وہیں میرا ملتان بیٹھ کر ایک معمولی نامہ نگار کی حیثت سے طاہر مرزا کو بائی پاس کر کے احمد علی خان صاحب کو لکھنا یقینا ایک ایسی بغاوت تھی جس کی معافی کا تصور ہی مشکل تھا۔ جن دوستوں نے ڈان میں کام کیا ہے وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں میں کیا کہہ رہا ہوں۔خیر خان صاحب (احمد علی خان) بولے رئوف صاحب، میں نے آپ کی درخواست منظور کر لی ہے۔ آپ کے تبادلے کا آرڈر بھی جاری کر دیا ہے۔ ابھی آپ کو فیکس ہو جائے گا۔ میری اسلام آباد کے بیوروچیف ضیاالدین صاحب سے بات بھی ہوگئی ہے۔ آپ جب بھی اسلام آباد جوائن کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ بہتر ہوگا آپ جا کر ضیاء الدین صاحب کو مل لیں تاکہ انہیں یہ محسوس نہ ہو اس فیصلے میں وہ شامل نہیں۔ وہ یقینا اس فیصلے کی توقع نہیں کررہے ہوں گے کہ لاہور کراچی کے رپورٹرز چھوڑ کر اسلام آباد جیسے اہم اسٹیشن کے لیے ملتان کے نامہ نگار کو بھیجا جارہا تھا۔ ضیاء الدین صاحب بہترین انسان اور پروفیشنل ہیں۔ امید ہے آپ کو وہ پسند کریں گے۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ وہ بھی آپ کی ملتان سے خبریں پڑھتے رہتے ہیں۔ میں آپ کی ملتان سے خبریں اور ڈیٹ لائن دو سال سے پڑھ رہا ہوں۔ آپ نے ملتان اور سرائیکی علاقوں کے ایشوز پر اچھا لکھا ہے۔ آپ نے ساوتھ میں ہومین رائٹس زیادتیوں پراسٹوریز فائل کی ہیں۔ زراعت اور کسانوں کو آپ نے آواز دی ہے۔ اس لیے جب میں نے ابھی اس فائل میں موجود سب رپورٹرز کے سی وی پڑھنے شروع کیے جن میں سے ایک رپورٹر اسلام آباد بھیجنا تھا تو آپ کی درخواست ساتھ کوئی سی وی نہیں تھا۔ آپ کی کوئی ریمکنڈیشن نہ تھی۔ لیکن آپ کی خبریں مجھے یاد تھیں۔ آپ سمجھے ہوں گے آپ کی خبریں ضائع جارہی تھیں۔ ایسا نہیں تھا وہ رجسٹرڈ ہورہی تھیں اور وہی آپ کی سی وی بنی ہیں۔اگرچہ آپ کی درخواست اس فائل میں سب سے نیچے رکھی تھی۔ میں کچھ حیران ہوا کیونکہ آپ کی درخواست پر طاہر مرزا صاحب کی ریکمنڈیشن نہ تھی۔ طاہر مرزا صاحب پہلے ہی دو تین رپورٹرز ریکمنڈ کر چکے تھے۔-
خان صاحب کچھ رکے اورپھر بولے لیکن ابھی ایک مسلہ ہے۔میرا سانس جیسے رک گیا ہو کہ ساحل کے اتنے قریب آکر قسمت پھر دھوکا دینے والی تھی۔خان صاحب بولے باقی تو ٹھیک ہے لیکن طاہر مرزا صاحب بہت ناراض ہوں گے کہ لاہور ایڈیٹر کی ریکمنڈمیشن بغیر آپ کا تبادلہ کیسے کر دیا گیا ہے۔ خیر ان کی بات ٹھیک ہے پراسس فالو ہو۔ لیکن وہ اچھے بندے ہیں۔میں ان سے آپ کی وجہ معذرت کر لوں گا۔ ان سے ریکوسٹ کر لوں گا۔ انہیں منا لوں گا۔خان صاحب پھر بولے آپ کو پتہ ہے آپ کو کیوں اسلام آباد بھیج رہا ہوں؟میں خاموش رہا۔
خان صاحب نے وقفہ لیا اور بولے دراصل لاہور اور کراچی والے رپورٹرز کو پہلے ہی اچھے مواقع ملے ہوئے ہیں۔ وہ بڑے شہروں میں رپورٹنگ کررہے ہیں۔ لیکن ساوتھ اور سرائیکی علاقوں والےکو یہ مواقع نہیں ملتے کہ وہ بڑے شہر جا کر جنرلزم کریں۔ میں یہ موقع آپ کو دینا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے آپ اسلام آباد جا کر اپنی جگہ بنائیں گے۔ اس طرح وہاں بھی کسانوں کی آواز بنیں۔ غریبوں اور کمزور لوگوں کی آواز بنیں۔خان صاحب بولتے رہے۔ ہاں میں نے آپ کی تنخواہ بھی بڑھا دی ہے کیونکہ اسلام آباد میں گزارہ ملتان کی نسبت مشکل ہوگا۔خان صاحب پھر رکے اور بولے ہاں میاں یاد آیا آپ کو ملتان چھوڑنے کی اجازت ایک شرط پر ملے گی۔ آپ کو اس سے پہلے میرا ایک کام کرنا ہوگا۔میرا پھر سانس رک گیا اور حوصلہ چھوڑ گیا کہ یہ قسمت میرے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی تھی کہ کام ہوتے ہوتے رک رہا تھا۔میں پھر سانس روک کر خان صاحب کی شرط سننے لگا کہ وہ کون سی بات تھی جسے پوری کیے بغیر میں ملتان سے آسلام آباد نہیں جاسکتا تھا۔ایک نیا امتحان میرا منتظر تھا۔خان صاحب نے اپنے مخصوص انداز اور لہجے میں وہ اپنی شرط مجھے سنانا شروع کی۔۔میں نے ان کی وہ سخت شرط سن کر فون نیچے رکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ ڈان دفتر میں ائر کنڈیشنر چلنے باوجود میرے ماتھے پر پسینہ تھا۔ایک اور دریا کا سامنا تھا۔جاری ہے۔۔(بشکریہ دنیا نیوز)۔۔