تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
پوری عمر جن دو تین باتوں پر خود پر فخر محسوس کیا تو ان میں سے ایک لحمہ یہ تھا جب میں نے ضیاء الدین صاحب کے ہاتھ سے لفافہ لے کر کھولا اور اس میں سے ایک کاغذ جو ٹائپ ہوا تھا نکال کر پڑھنا شروع کیا۔ ایک غیرمعمولی واقعہ کہ چیف ایڈیٹر ڈان اس طرح آپ کو کمپلینٹ کرے۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو مجھے لگا ہوائوں میں اڑ رہا ہوں۔ خان صاحب نے بہت مختصر لفظوں میں میری رپوٹنگ کی تعریف کی تھی۔ مجھے لگا شاید مجھ سے زیادہ ان کی عزت دائو پر لگی ہوئی تھی کہ انہوں نے لاہور کراچی کے بڑے رپورٹرز جنہیں ریزڈنٹ ایڈیٹرز تک نے ریکمنڈ کیا تھا انہیں پیچھے کر کے دوردراز علاقے کے ایک گمنام نامہ نگار کو ترجیح دی تھی جسے شاید ابھی انگریزی میں اچھی طرح خبر بنانا بھی نہیں آتی تھی۔ ان تین ماہ میں انہوں نے میری خبروں پر نظر رکھی تھی اور اب ایک خط میرے نام بھیجا تھا۔ مجھے لگا کہ مجھے جرنلزم کا سب سے بڑا ایوارڈ مل گیا تھا۔
ڈان کے چیف ایڈیٹر احمد علی خان نے تعریفی خط بھیجا تھا۔ضیاء صاحب غور سے میرے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ان کے مسکرانے کا ایک مخصوص انداز تھا جس سے آپ کوئی بھی مطلب دےسکتے تھے۔بس اتنا بولے خان صاحب نے بھیجا تھا۔ وہ آپ کے کام سے خوش ہیں۔چند سطروں کے اس خط نے مجھے بڑا حوصلہ دیا اور اب میں بڑی خبروں کے چکر میں پڑ گیا۔لیکن ضیاء صاحب جب بھی ناراض ہوتے تو بہت سخت ہوتے اور اکثر وہ سب کے سامنے ہی ڈانٹتے یا مجھے دفتر بلا کر ڈانتے۔احمد حسن علوی صاحب ایک باکمال انسان تھے۔ وہ اکثر مجھے ضیاء صاحب کے کمرے سے اترے ہوئے چہرے ساتھ باہر نکلتے دیکھتے۔ ایک دن مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ مجھے پیار کیا اور کہا ایک گر کی بات بتائوں؟ آپ ضیاء صاحب کو اپنی صفائی نہ دیا کریں ۔ وہ سب کی کلاس لیتے ہیں۔ چپ کر کے سن لیا کریں۔ اس کے بعد یہی کچھ ہوتا۔ لیکن ضیاء صاحب کی اس ڈانٹ کا آنےوالے برسوں میں یہ فائدہ ہوا کہ میں خبر میں غلطی کے امکانات مزید کم کرتا گیا۔ اکثر ڈانٹ خبر سے کم اس بات پر پڑتی کہ میں کسی دوسرے کولیگ کی بیٹ میں سے کوئی بڑی ایکسکلوسو خبر نکال لاتا۔ ان کا خیال تھا اس سے دوسرے رپورٹرز شکایت کرتے اور ڈسپلن خراب ہوتا تھا۔اب میرے لیے مسلہ یہ تھا میں روٹین کی خبریں نہیں کرسکتا تھا۔ صرف ایکسکوسو خبریں۔ مجھے ڈان کی روایت مطابق چھپی ہوئی خبر کے فی سینٹی میٹر ڈھائی روپے سپیس مطابق پیسے ملتے اور ہر ماہ مشکل سے آٹھ دس ہزار کما پاتا اور گھر چلانا مشکل تھا۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی لہذا مشکلات بڑھ گئی تھیں۔ اب ایک ہی حل تھا میں زیادہ محنت کروں۔ زیادہ خبریں تلاش کروں تاکہ سینٹی میٹر زیادہ بنیں اور مجھے کچھ پیسے زیادہ ملیں۔ ملتان میں چھ سو روپے فی ویکلی ڈائری کے ملتے تھے۔ کبھی چھپی کبھی نہ چھپی۔ ہر ماہ دو ڈھائی ہزار بنتے تو اسلام آباد میں ہر ماہ سات آٹھ ہزار بن جاتے۔ اب جب میں زیادہ ایکسکلوسو کرنے لگا تو اس پر کولیگز کو مسائل ہوئے کہ ان کی بیٹ کی خبریں میں کررہا ہوں۔
اس کشمکش میں امریکہ سے شاہین صہبائی اور لندن سے ناصر ملک میرے لیے خوش قسمت بنکر لوٹے۔ دونوں وہاں ڈان کے لیے رپورٹنگ کررہے تھے اور اب واپس اسلام آباد ڈان آگئے تھے۔ ناصر ملک کو ضیاء صاحب نے چیف رپورٹر کا اسٹیٹس دے کر ہم سب رپورٹرز کا انچارج بنایا۔ ناصر ملک شروع میں سختی دکھاتے لیکن دھیرے دھیرے ان کے اندر کے خوب صورت انسان اور پروفینشل نے ابھرنا شروع کیا۔ ناصر ملک سے بھی اسی بیٹ ایشو پر کئی دفعہ جھڑکیاں کھائیں۔
شاہین صہبائی صاحب سے پہلی ملاقات یہیں ہوئی۔ایک دن شاہین صاحب میری میز کے قریب آئے اور دیکھنے لگے میں کیا ٹائپ کررہا ہوں۔ شاہین صہبائی کی شہرت اسلام آباد کے ان بڑے صحافیوں میں سے تھی جن سے واقعی حکومتیں ڈرتی تھیں۔ جن کی فائل کی ہوئی خبر یا سکینڈل یا پارلیمنٹ ڈائری کسی کو بھی ہلا دیتی تھی۔ ان کی خبروں کا بوجھ اٹھانا آسان نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ان کے گھر پر حملہ ہوا۔ ان کے بچوں کے سر پر پستول رکھ کر ڈرایا گیا۔ ان کو گھر سے اٹھانے کا منصوبہ تک بنا تاکہ ان کے قلم کو روکا جائے۔ ڈان پر دبائو اتنا بڑھ گیا تھا کہ پہلے کراچی سے نکال کر انہیں اسلام آباد بھیجا گیا اور جب انہوں نے اسلام آباد میں بھی بڑے بڑے لوگوں کی ایسی تیسی شروع کی تو ڈان نے انہیں امریکہ رپورٹنگ کے لیے بھیج دیا جہاں سے انہوں نے حکومتوں کے لیے مسائل کھڑے کیے رکھے۔ شاہین صہبائی کی بڑی خوبی تھی کہ وہ جرنلزم میں تکلف، تعلقات یا دوستی کو حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔ عامر متین ان کے بارے میں کہتے تھے کئی بار ہوا کہ جس بندے ساتھ رات کو ہم سب نے کھانا کھایا اور گپیں لگائیں تو اگلی صبح ڈان میں اس کے خلاف ہی ان کے نام سے بڑا پیس چھپا ہوتا۔ ان کے نزدیک پہلی اور آخری ترجیح صحافت اور خبر تھی تعلقات نہیں۔ اگر 1990/2010 مسلسل بیس سال تک کوئی ون مین آرمی کا لقب کا حقدار ہے تو وہ شاہین صہبائی تھے جنہوں نے اپنی خبروں، تجزیوں سے حکومتوں کو ٹف ٹائم دیے رکھا۔
شاہین صہبائی ضیاء الدین صاحب سے مختلف جرنلزم سکول آف تھاٹ کے مالک تھے۔ شاہین صہبائی کی فلاسفی تھی کہ وہ خبر بیکار اور وقت کا ضیاع ہے جسے پڑھ کر حکومتوں کو وقت نہ پڑے یا جس کے خلاف فائل کی گئی ہے اس کی راتوں کی نیند خراب نہ ہو۔ وہ نہ طاہر مرزا تھے جو سکینڈل کے خلاف تھے اور نہ ضیاء الدین صاحب جو خبر میں کمنٹ کی گنجائش پر یقین نہ رکھتے تھے۔ شاہین صبہائی سیدھا فائرمارنے پر یقین رکھتے تھے کہ اگر خبر درست ہے، دستاویزی ثبوت موجود ہیں تو پھر ڈر کاہے کا۔شاہین صہبائی کچھ دیر میرے کمپیوٹر پر خبر پڑھتے رہے۔ان کے چہرے پر اچانک دل چسپی پیدا ہوئی اور مجھے کہا اس کا ثبوت ہے تمہارے پاس؟میں نے کہا جی سر۔مجھے کہا چلو پھر ہٹ جائو۔
شاہین صہبائی میری کرسی پر بیٹھے اور انہوں نے خبر کو پھر سے لکھنا شروع کیا اور یوں لگا جیسے یہ خبر میری نہیں ان کی ہے۔ وہ پوری توجہ سے خبر لکھتے اور ایڈیٹ کرتے رہے اور دس پندرہ منٹ بعد اس پر ایک ہیڈ لائن دی اور نیچے نیوز روم کے نام لکھ دیا۔۔۔مطلب تھا کہ رپورٹر بہت جونئیر ہے لیکن میں نے ایڈیٹ کر لی ہے۔ چیک کر کیا ہے خبر درست ہے۔ اسے لگا دیں۔اگلے دن پہلی دفعہ وہ خبر میرے نام ساتھ بیک پیج پر بینر لگی۔ سن دوہزار کی گرمیوں کا موسم تھا۔۔ایک اور خبر فائل کررہا تھا کہ شاہین صاحب چلتے میری طرف آئے اور پوچھا کیاخبر ہے رئوف ؟میں کرسی سے اٹھ گیا۔ شاہین صاحب نے کچھ دیر پڑھا اور چونک گئے۔ فورا پوچھا اس سکینڈل کی فائل ہے تمہارے پاس؟میں نے کہا جی سر۔مجھ سے وہ فائل لی اور وہیں پڑھنے بیٹھ گئے۔کافی دیر بعد فارغ ہوئے۔ ایک گہرا سانس لیا۔ مجھے کہا ایک طرف ہو جائو اور میری لکھی خبر ایڈیٹ کرنی شروع کر دی۔
اگلے دن وہ سکینڈل ڈان کے فرنٹ پیج پر میرے نام سے چھپا اور جنرل مشرف، شوکت عزیز تک سب چھت سے جا لگے۔اس سکینڈل نے پورے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اور اسی سکینڈل پر مجھے پہلی دفعہ اے پی این ایس کے بیسٹ رپورٹر /سکوپ کا ایوارڈ ملا۔جنرل مشرف نے اس سکینڈل کے چھپتے ہی ایمرجنسی اجلاس بلا لیا۔ جنرل مشرف کو لگا ان کی معاشی ٹیم کے سربراہ شوکت عزیز نے ان سے بڑا دھوکا کیا تھا۔ جنرل مشرف کی بل کلنٹن سے پاکستان دورے میں ملاقات میں ہونے والی ایک خفیہ یقین دہانی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا تھا۔سکینڈل چھپتے ہی شاہین صہبائی نے مجھے کہا رئوف اب سب کام چھوڑ دو۔ مجھے جنرل مشرف کے اس اہم اجلاس کی اندورنی خبر چاہیے۔ یہ بہت بڑا سکینڈل ہے۔ اسے تم نے مرنے نہیں دینا۔ میں نے سکینڈل کی سرکاری فائل کھولی اور ایک دفعہ پھر سینکڑوں صحفات پر مشتمل وہ خفیہ معاہدہ پڑھنے لگا جو شوکت عزیز نے جنرل مشرف کو بتائے بغیر امریکیوں سے کر لیا تھا اور اب جنرل مشرف سخت غصے میں تھے کہ ان ساتھ کیا گیا تھا۔شوکت عزیز نے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی دائو پر لگا دی تھی۔جاری ہے۔۔ (بشکریہ دنیا)۔۔