baryar family ka asal karoobari chehra

احمد علی خان سے ضیاالدین تک۔۔پارٹ فور۔۔

تحریر: رؤف کلاسرا۔۔

میں نے اس کے بعدتین سال تک ڈان اسلام آباد بیورو آفس میں کام کیا اور ان تین برسوں میں ضیاء صاحب جب بھی میری کسی خبر پر ناراض ہوتے تو وہ مجھے کہتے طاہر مرزا صاحب نے تو مجھے خبردار کیا تھا کہ آپ اس سے تنگ ہوں گے۔ یوں ضیاء الدین صاحب نے مجھے طاہر مرزا کی آنکھ سے ہی دیکھا اگرچہ جب میں تین سال بعد ڈان چھوڑنے لگا تو مجھے دفتر بلا کر اصرار کیا  کہ تم ڈان چھوڑ کر دی نیوز نہ جائو۔ میں تمہیں یہیں ڈان میں گریڈ دلوا کر مستقل کروا دیتا ہوں۔ تنخواہ بڑھوا دیتا ہوں۔

یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ ضیاء الدین صاحب مجھے اب اپنی بیوروٹیم کا اہم فرد سمجھنے لگے تھے اور ان کا خیال تھا میرے جانے سے ڈان کی ٹیم کمزور ہوگی خصوصا جب ڈان اسلام آباد سے شروع ہورہا تھا اور دی نیوز نے پاکستان کے ایک اور بڑے صحافی شاہین صہبائی کو ڈان سے توڑ کر دی نیوز کا گروپ ایڈیٹر بنا دیا تھا۔ شاہین صہبائی نے ڈان کی کمر توڑنے کے لیے اسلام آباد بیورو سے تین صحافیوں کو دی نیوز میں آفر کی اور ہم تینوں نے دی نیوز کو جوائن کر لیا۔ میرے علاوہ انصار عباسی، اکرام  ہوتی کو الگ سے ایک بیوروآفس دی نیوز نے بنا کر دیا گیا جس کا کام صرف ایکسلوسو اور سکینڈلز فائل کرنا تھا۔ ہم تینوں کو وہ پیکج دیا گیا جس پر پورے اسلام آباد میں شور مچ گیا اور ہمیں “لیموزین رپورٹرز “کا خطاب ملا۔ شاہین صہبائی کا خیال تھا ہم تینوں ڈان اسلام آباد کے اہم رپورٹرز تھے اور اگر انہیں دی نیوز لے جائیں تو جہاں دی نیوز اوپر جائے گا وہیں ڈان اپنی اشاعت کو کامیاب نہیں کر سکے گا۔  ہماری کمی پوری کرنی کے لیے ضیاء الدین صاحب دی نیوز سے ارشد شریف اور خلیق کیانی کو ڈان میں لے آئے۔ دونوں بڑے تگڑے اور جاندار رپورٹرز تھے۔ یوں ڈان اور دی نیوز میں اب بڑا میچ پڑ چکا تھا۔خیر یہ کہانی پھر سہی۔

اس صبح ضیاء صاحب مجھے بریف کرنے لگے کہ اسلام آباد میں کس قسم کی رپورٹنگ کی جا سکتی ہے۔ مجھے ڈان اخبار اور اسلام آباد کا رپورٹنگ کلچر سمجھاتے رہے۔ کہنے لگے ڈان میں آپ کام کریں گے تو آپ کا نام ہوگا نہیں کریں گے تو بھی کوئی کچھ نہیں کہتا نہ نوکری سے نکالتا ہے۔ مجھے کہا آپ کی خبریں پڑھتا رہا ہوں۔ آپ کے لیے زراعت کی رپورٹنگ ٹھیک رہے گی۔ ان دنوں نواز شریف کی دوسری حکومت تھی تو سرائیکی علاقوں کے کچھ وزیر بھی کابینہ میں شامل تھے۔ کہنے لگے اگر ان سے اپنے ورکنگ ریلشنشپ استعمال  کر سکتے ہو تو کابینہ کی خبریں بھی نکال سکتے ہو۔ضیاءالدین صاحب نے بڑی محبت سے مجھے سب کچھ سمجھایا کہ اسلام آباد کا جرنلزم کا ماحول کیا ہے اور میں کیسے خود کو ایڈجسٹ کرسکتا ہوں۔ اتنی دیرمیں دفتر میں دیگر رپورٹرز بھی پہنچ چکے تھے۔ ضیاء الدین صاحب مجھے لے کر رپورٹنگ روم گئے۔ وہاں سب سے تعارف کرایا اور انہیں بتایا کہ رئوف کو خان صاحب نے اسلام آباد بھیجا تھا۔ان دوستوں میں احمد حسن علوی، محمد یسین، محمد الیاس، احمد حسن سب  سینئر تھے۔ جب کہ باقی دوستوں میں احتشام الحق، فراز ہاشمی، رفاقت علی، انصار عباسی،اکرام ہوتی جیسے بڑے رپورٹرز بھی تھے۔ احتشام الحق کا بڑا نام تھا کہ انہوں نےچار دفعہ پاکستان کا اعلی صحافیانہ ایوارڈ اے پی این ایس جیتنے  کےعلاوہ معتدد عالمی ایوارڈ بھی جیتے جن میں یورپین یونین، اقوام متحدہ، بھارت تک کے ایوارڈز شامل تھے۔احمد حسن علوی نے ہم جونئرز کو جو محبت پیار دی وہ کبھی نہ بھلائی جا سکے گی۔ ماموں شاہ نواز جو ڈان کے فوٹوگرافر تھے وہ اپنی جگہ ایک خوب صورت انسان۔

ضیاء الدین صاحب کو اندازہ تھا کہ میں نیا نیا آیا ہوں لہذا مجھے یہاں رپورٹنگ میں مشکلات ہوں گی۔ انہوں نے روز آتے جاتے مجھے صحافت پر کچھ نہ کچھ سمجھانا شروع کر دیا۔ وہ میری ہر خبر کو خود چیک کرتے بلکہ کئی دفعہ انہیں محسوس ہوا کہ خبر بڑی تھی لیکن شاید میں نے اس کا انٹرو ٹھیک نہیں بنایا تھا۔ وہ میری ہی کرسی پر بیٹھ کر کمپیوٹر سے وہیں خبر کو ایڈٹ  کرنے بیٹھ جاتے اور میں ساتھ کھڑا دیکھتا رہتا کہ انہوں نے کہاں کیا کیا درستگیاں کی تھیں۔ ضیاء صاحب ہم رپورٹرز کی ایک بات سے بہت چڑتے تھے کہ خبر میں ’’ایڈجیکٹیو‘‘ کا استعمال  کیا جائے تاکہ یوں لگے کہ کوئی بہت بڑی دھانسو قسم کی خبر فائل کی گئی تھی۔ وہ ہمیشہ ہم رپورٹرز کو سمجھاتے کہ خبر کا مطلب ہوتا ہے سیدھی سیدھی انفارمیشن شئیر کریں۔ اپنی خواہش کو ایک طرف رکھ کر صرف خبر بنائیں۔ وہ خبر میں کوئی چھوٹا سا کمنٹ یا تبصرہ برداشت نہ کرتے۔ مجھ سے انہیں یہ شکایت رہتی جو میں نے ان کی مسلسل ڈانٹ ڈپٹ بعد دور کی۔ ضیاء صاحب سے چیک کرانے سے پہلے اکثر میں اپنے ساتھی رپورٹرز سے اپنا انٹرو چیک کرالیتا تاکہ میری یہ عادت ختم ہو۔ اکرام ہوتی، یا محمد الیاس صاحب سے اکثر انٹرو ٹھیک کراتا تاکہ ضیاء صاحب کی ڈانٹ سے بچ سکوں۔

بہت جلد تمام ڈان رپورٹرز کے تعاون سے ایڈجسٹمنٹ ہوچکی تھی۔ میں نے زراعت کی بیٹ پر کام شروع کر دیا تھا۔ ایک دن ضیاء الدین صاحب نے بتایا کہ کراچی بزنس سیکشن کے انچارج جاوید بخاری صاحب نے میری کچھ خبریں دیکھی تھیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میں ان کے ویکلی پنک پیجز آرٹیکلز علاوہ ان کے اکانومی پر چارصفحات  کے لیے بھی خبریں فائل کیا کروں۔ مجھے ضیاء الدین صاحب نے ساتھ میں ایجوکیشن بیٹ بھی دے دی۔ کچھ عرصے بعد کراچی سے زبیدہ مصطفے جو اسٹنٹ ایڈیٹر تھیں نے بھی سراہا کہ اچھا ہے کچھ ایجوکیشن سیکٹر کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ یوں ضیاء الدین صاحب کا جہاں مجھ پر کچھ اعتبار بڑھا وہیں حکومتی حلقوں میں بھی کچھ جان پہچان شروع ہوئی۔ میری خوش قسمتی کہ ان دنوں جب میں اسلام آباد آیا اور مجھے زراعت کی بیٹ ملی تو وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ ایک باکمال انسان، بیوروکریٹ اور سابق کرکٹر۔ ان جیسا افسر پھر نہ ملا۔ ایک بہادر، دلیر جو کسی وزیراعظم سے ڈرتا تھا نہ کسی وزیر سے۔ ہر دفعہ ان کا پھڈا وزیراعظم سے ہوتا۔ آخری پھڈا جنرل مشرف اور ان کے تین وزیروں شوکت عزیز، رازاق دائود اور وزیر زراعت جونیجو سے ہوا۔ وجہ کسان تھے۔ وہ غریب کسانوں پر کوئی کمپرومائز نہ کرتے تھے۔

ان سے ملاقات ہوئی تو میرے لیے زراعت کی رپورٹنگ کرنا آسان ہوگیا۔ مجھے لگا کہ زراعت سے تو اہم بیٹ کوئی اور ہے نہیں۔ وہیں سے مجھے بڑے بڑی بڑی خبریں ملنا شروع ہوگئیں۔ ڈان میں رپورٹر کا نام چھپنا ایک ناممکن سی بات تھی اور وہ بھی کسی جوئنر رپورٹر کی۔ جوں جوں میری خبریں زیادہ ہونے لگیں میری خبروں کی وضاحتیں آنا شروع ہوگئیں۔ میں کچھ پریشان ہوا کہ ضیاء الدین صاحب سمجھیں گے میری خبریں درست نہیں ہیں جب کہ میرے پاس تو سب خبروں کے دستاویزی ثبوت تھے۔ ایک دن وضاحت آئی تو میں ضیاء الدین صاحب کے پاس گیا اور کہا سر میں نے سوچا آپ کو بتا دوں میرے پاس سب دستاویزی ثبوت ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں۔۔ ؟ضیاء صاحب مسکرائے اور کہا مجھے سب پتہ ہے۔ تم فکر نہ کرو، رپورٹنگ جاری رکھو۔ وضاحت بھی اس رپورٹر کی خبر کی آتی ہے جو کام کرتا ہے۔ مجھے تمہاری خبروں کی شکاتیں آنا شروع ہوگئی ہیں لیکن مجھے پتہ ہے جو کام کرتا ہے اس کی شکایت ہوتی ہے۔ تم کام جاری رکھو۔یہ فرق تھا ضیاء الدین صاحب اور طاہر مرزا میں۔ ضیاء الدین خود بھی رپورٹنگ سے اوپر آئے اور ابھی بھی رپورٹنگ کرتے تھے لہذا وہ سب سمجھتے تھے۔ جبکہ طاہر مرزا ڈیسک کے بندے تھے کسی بھی بڑے بندے کا فون سن کر فورا رپورٹر پر چڑھ دوڑتے تھے۔

مجھے ڈان میں کام کرتے تین ماہ گزر چکے تھے کہ ایک دن ضیاء الدین صاحب نے اپنے دفتر میں بلایا اور میرے ہاتھ میں ایک لفافہ دے کر کہا احمد علی خان صاحب نے تمہارے لیے کراچی سے بھیجا ہے۔ پڑھ لو۔ ضیا صاحب کی سنجیدگی دیکھ کر میں پھر ڈر گیا کہ خان صاحب نے کیا لکھ کر بھیجا ہوگا۔ لگتا ہے پھر کہیں کوئی بلنڈر مار بیٹھا ہوں ورنہ خان صاحب میرے نام کیوں کر کچھ لکھ کر بھیجتے۔ ایک چیف ایڈیٹر کیونکر ایک عام رپورٹر کو کچھ لکھ کر بھیجے گا۔ یقینا کوئی اہم اور سنگین بات ہی ہوگی۔میں نے ڈرتے ڈرتے لفافہ کھولا اور پڑھنا شروع کیا۔جاری ہے۔۔ (بشکریہ دنیانیوز)۔۔

sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں