تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
شوکت عزیز نے جنرل مشرف اور شرکا کو نواز شریف کے 1998 کے امریکی دورے کی کہانی سنائی جس میں انہوں نے بل کلنٹن کے ساتھ ایف سولہ طیاروں کی رقم کا معاملہ اٹھایا تھا۔ شوکت عزیز نے دعویٰ کیا کہ گندم اور سویابین کا ایف سولہ کے پیسے سیٹل کرنے کا معاہدہ نواز شریف کر آئے تھے‘ اب انہوں نے تو اس پر صرف عمل درآمد کیا ہے۔ جنرل مشرف اور شرکا بھی شاید یہی سننا چاہتے تھے کہ یہ سارا کیا دھرا نواز شریف کا تھا‘ ان کا کوئی قصور نہیں۔ یوں شوکت عزیز نے بڑے آرام سے اپنی جان چھڑا لی اور سارا نزلہ نواز شریف پر گرایا۔
جب میرے سورس نے مجھے اجلاس کی اندرونی بات بتائی تو میں نے اگلے روز پھر سٹوری فائل کی کہ جنرل مشرف کو اور شرکا کو بیوقوف بنایا گیا ہے۔ نواز شریف نے دورۂ امریکہ میں ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا تھاکہ ایف سولہ کے پیسوں کو گندم اور سویابین کے ساتھ ایڈجسٹ کر لیا جائے۔ میں نے خبر میں لکھا کہ دستاویزات کے مطابق یہ نیا معاہدہ شوکت عزیز نے دو تین ماہ پہلے کیا تھا‘ نواز شریف اس وقت اٹک جیل میں قید تھے۔ نواز لیگ کے سینیٹر ظفر علی شاہ ڈان اخبار کی وہ خبر لے کر اٹک قلعہ جاکر نواز شریف سے ملے‘ جنہوں نے تردید جاری کی کہ انہوں نے ایسا معاہدہ نہیں کیا تھا۔ ظفر علی شاہ نے باقاعدہ اپنے گھر پریس کانفرنس کرکے شوکت عزیز کے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔ کچھ عرصہ بعد نواز شریف نے اپنے دستخطوں سے ایک خط پرویز رشید کے ذریعے بھیجا‘ جس میں میرا شکریہ ادا کیا گیا تھاکہ میری خبر کی وجہ سے وہ سکینڈل ان کے گلے فٹ نہ ہو سکا‘ اور اس کیلئے وہ شکر گزار تھے۔
ضیاالدین کیلئے جنرل مشرف کا دور مشکل ثابت ہورہا تھا۔ انہوں نے اس دن جنرل مشرف کو مشکل میں ڈال دیا تھا جب مشرف نے نواز شریف کی حکومت برطرف کرنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ضیاالدین وہاں موجود تھے۔ جب مائیک ان کو ملا تو انہوں نے سیدھا اور سخت سوال کیا کہ ہم نے آپ کی پوری کہانی سن لی کہ جہاز اغوا کر لیا گیا تھا اور آپ کو برطرف کر دیا گیا تھا جس پر آپ نے مارشل لا لگایا‘ لیکن ہمیں نواز شریف کا مؤقف سننے کا موقع کب ملے گا کہ انہوں نے واقعی جہاز اغوا کیا تھا اور آپ کو برطرف کیوں کیا تھا؟ جنرل مشرف یقینا اس سوال کیلئے تیار نہ تھے لہٰذا وہ کچھ گڑبڑا گئے اور غصے سے بولے: بہت جلد آپ ان کا مؤقف بھی سن لیں گے۔ یہ سوال جنرل مشرف کو یہ میسج بھیجنے کے لیے کافی تھا کہ ملک میں مارشل لا لگنے کے باوجود میڈیا میں کچھ لوگ انہیں ٹف ٹائم دیں گے۔
ضیاالدین اور شاہین صہبائی کی جوڑی بہت خوفناک سمجھی جاتی تھی۔ شہر کے ہر سیاستدان کی کوشش ہوتی کہ وہ اسلام آباد کے چند انگریزی جرنلزم صحافیوں کی گڈ بکس میں رہیں جن میں شاہین صہبائی، ضیاالدین، نصرت جاوید، عامر متین بھی شامل تھے۔ ان کی لکھی پارلیمانی ڈائری کسی بھی حکومت یا حکمران کو ہیرو سے زیرو بنا دیتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب پرنٹ جرنلزم اپنے عروج پر تھی اور ٹی وی چینلز کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا لہٰذا انگریزی اخبارات کے ان ٹاپ کے سیاسی رپورٹرز کی اپنی شان تھی۔ ایاز امیر بھی اس کلاس میں شامل تھے جن کے ڈان میں چھپنے والے کالم کا انتظار کیا جاتا تھا۔ میرا خیال ہے پاکستان میں اگر کوئی جینوئن انگریزی کالم نگار تھا تو وہ ایاز امیر تھے۔
عمران خان صاحب کو بھی میں نے پہلی دفعہ ‘فیس ٹو فیس‘ ڈان کے بیوروآفس میں دیکھا تھا جب وہ نئے نئے سیاست میں پائوں جمانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے اور وہ ایک ایک صحافی اور کالم نگار سے مل کر انہیں اپنے حق میں لکھنے پر قائل کرتے تھے۔ خان صاحب کو پتہ تھا کہ ضیاالدین صاحب کرکٹ کے شیدائی ہیں لہٰذا وہ ضیا صاحب کی اس سائیڈ کا فائدہ اٹھانے دفتر آیا کرتے تھے۔
ڈان کے دنوں میں ہی ایک بڑی خبر میں نے بریک کی۔ ضیاالدین صاحب نے وہ پوری خبر چیک کی۔ اس کی دستاویزات بھی دیکھیں اور مجھے کہا: فائل کر دیں۔ اس خبر کے مطابق وزیر داخلہ جنرل معین الدین حیدر نے قندھار کا دورہ کیا‘ ملا عمر سے اکیلے ملاقات کی اور کہا تھا اسامہ بن لادن کو امریکہ حوالے کر دیں۔ ملا عمر نے کہا تھا کہ وہ کسی تھرڈ ملک کے حوالے اسامہ کو کر دیں گے جہاں اس کا ٹرائل ہو‘ وہ امریکہ حوالے نہیں کریں گے۔ ملا عمر انہیں سعودی عرب، مصر کے حوالے کرنے کو تیار تھے۔ میں نے خبر فائل کی تو وہی ہوا‘ پھر ایک رولا پڑ گیا۔ مجھے اندازہ نہ تھاکہ حکومت کا ردعمل اتنا سخت آئے گاکہ ضیاالدین تک پریشان ہو جائیں گے اور مجھے شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
جس دن سٹوری فائل کی اسی روز ضیاالدین صاحب بڑی پریشانی میں رپورٹنگ روم آئے‘ مجھے بلایا اور کہا: ایک بڑی گڑ بڑ ہوگئی ہے‘ تم فوراً اسلام آباد چھوڑ جائو۔ جب معاملہ ٹھنڈا ہوگا‘ لوٹ آنا‘ ابھی تمہیں خطرہ ہے۔ میں ہکا بکا سن رہا تھاکہ یہ کیا چکر ہے۔ ضیاالدین نے نیوز ایڈیٹر ناصر ملک کو بھی بلا لیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ کر کہنے لگے: مجھے سخت دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اپنے رپورٹر کو کہیں خبر کا سورس بتا دے یا اسے اٹھا لیا جائے گا۔ کہا گیا کہ خبر درست ہے لیکن یہ باہر کیسے نکلی کیونکہ ملاقات میں صرف ملا عمر اور معین الدین حیدر تھے۔ میٹنگ کے کوئی نوٹس نہیں لیے گئے تھے اور لفظ بہ لفظ خبر میں وہی تھا جو دونوں کے مابین گفتگو ہوئی تھی۔ معین الدین حیدر حیران تھے کہ ان کے قندھار سے واپس آنے سے پہلے خبر چھپ گئی تھی۔ ضیا صاحب بولے: ان کا پارہ چڑھا ہوا ہے‘ رئوف وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ لہٰذا تم شہر چھوڑ جائو۔ میں نے اسی لمحے فیصلہ کیا اور پورے اعتماد سے کہا: سر میں فیصلہ کرچکا ہوں‘ جو نتائج بھی ہوں‘ میں نہیں بھاگوں گا‘ آپ کو پتہ ہے میری خبر درست ہے‘ میں کیوں ڈر کے مارے شہر چھوڑ جائوں۔ ضیا صاحب بولے: چلیں ہم خبر کی تردید کر دیتے ہیں کہ جھوٹی خبر تھی‘ تمہاری جان بچانا ضروری ہے۔ میں نے کہا: سر جب خبر سچی ہے تو ہم کیوں اسے غلط کہیں؟ میری ساکھ کا سوال تھا۔ ایسی صورت میں میری خبر پھر کون سیریس لے گا؟ میرا کیریئر تباہ ہوجائے گا۔ ناصر ملک بولے: ضیا صاحب رئوف درست کہہ رہا ہے‘ ہمیں سٹینڈ لینا ہوگا‘ یہ کہیں نہیں چھپے یا بھاگے گا‘ جوہو گا دیکھا جائے گا۔
ضیاالدین صاحب نے اچانک کوئی فیصلہ کیا اور فون اٹھایا۔ میرے اور ناصر ملک سامنے فون پر کسی بڑے آدمی کو کہنے لگے: اگر رئوف کو کچھ ہوا تو میں ایف آئی آر آپ پر درج کرائوں گا۔ یہ کہہ کر فون نیچے رکھ دیا۔ ضیاالدین کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ وہ کچھ دیر چپ رہے‘ پھر اچانک بولے: رئوف یہ کیا چکر ہے‘ تمہارے پاس ملا عمر اور جنرل معین الدین حیدر کی ون آن ون ملاقات کے دستاویزی ثبوت ہیں۔ وہ کہتے ہیں‘ خبر درست ہے جبکہ کوئی نوٹس یا منٹس نہیں بنے تھے‘ یہ کیا مسٹری اور ماجرہ ہے؟ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور اس پراسرار راز سے پردہ اٹھانا شروع کیا جس نے وزیرداخلہ کو بھی چکرا دیا تھا۔۔
نوٹ: بہت سے دوستوں کا خیال ہے کہ اب مجھے اس نامکمل کہانی کو آپ بیتی کی شکل دینی چاہئے۔ اسے آخری قسط سمجھیں۔(بشکریہ دنیانیوز)