تحریر: نادرشاہ عادل۔۔
اس بحث کو رہنے دیں کہ پرنٹ میڈیا کے دن گنے جا چکے۔ اس استدلال کو بھی ہم رہنے دیتے ہیں کہ پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔آج ہم اپنے پیشۂ صحافت کے بعض بنیادی سوالوں کے خود سے بھی جواب مانگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صورتحال اس قدر سنجیدہ ، بعض اوقات دلچسپ اور اکثر الجھن میں ڈال دیتی ہے کہ کیا دنیا میں پرنٹ میڈیا کی امکانی مگر ناگزیر موت کی ذمے داری عامل صحافیوں پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ صحافت کی جدید ترین ٹیکنالوجی ، ڈیجیٹلائزیشن ، اخلاقی اقدارکے بحران ، پیشے کی حرمت سے بے نیاز، معروضیت سے بیزار، سیاست کے زخم خوردہ اور خبرکے سچ جھوٹ کے چکر سے آزاد ہو رہے ہیں، فیک نیوزکے گھناؤنے چکر نے نئے اور پرانے صحافیوں کی تقسیم گہری کردی ہے، مشاہیران صحافت کے طے کردہ اصولوں سے انحراف کی روش نئے صحافیوں کو اس راستے پر لے جا رہی ہے جہاں ان سے کسی بھی ’’خبر‘‘ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
کیا مسئلہ الیکٹرانک میڈیا کے گیٹ کریش کا ہے، وہ باکردار کمیٹڈ صحافی کہاں چلے گئے جنھیں اپنے قلم ،کردارکی صلاحیت ، خبرکی ہر قیمت پر تلاش اور اس کی صداقت پر ناز تھا، وہ کون سے صحافی ہیں جن کی صحافتی روش سوالیہ نشان بن گئی ہے، ہمارے اکثر سینئر اور بزرگ صحافیوں کو یہ شکایت ہے کہ نیا جرنلسٹ اپنے جرنلسٹک اہداف کا الگ گراف رکھتا ہے، اردو صحافت کرنے والے بعض نوجوان صحافیوں کے بارے میں عام رائے ہے کہ وہ مطالعہ کا ذوق و شوق نہیں رکھتے، خبرکے اسلوب یا کاپی کو زبان کے مروجہ اور مستند مظاہر کی روشنی میں اتنا موثر، جامع اور معنویت سے قریب ترکریں کہ قاری کسی بھی اخبار میں وہی خبر پڑھ لے تو اس کے لیے دوسرے اخبار کے رپورٹر کی خبر سے تقابل آسان ہوجائے۔
ایک بار روزنامہ مساوات کراچی کے ایڈیٹر شوکت صدیقی نے سینئر کرائم اورکورٹ رپورٹرغلام ربانی کی خبر روک کر انھیں بلایا اور مشفقانہ انداز میں سمجھایا کہ خبرکی زبان درست، رواں، سلیس، جامع اور دل نشین ہونی چاہیے، ربانی صاحب نے حسب دستور وہی جملہ دہرایا کہ سر زبان سب ایڈیٹر ٹھیک کریں گے، ان کی یہی تو ڈیوٹی ہے۔ شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ بہترین رپورٹر وہ ہے جس کی خبر دوسرے اخباروںکی خبر سے منفرد اور پوری توجہ سے لکھی ہوئی ہو، جس میں سارے پوائنٹس موتی کے دانوں کی طرح پروے ہوئے ہوں۔
مجھے لکھنے لکھانے کے ابتدائی شوق کے دوران یہ نصحیت ملی کہ آپ علم سیاسیات میں ایم اے کر رہے ہیں لیکن صحافت کا پیشہ اپنانا چاہتے ہیں۔ آپ خبرکس طرح بنائیں گے، میں سوچ میں پڑگیا، ان کا مشورہ تھا کہ اردو کے کسی بڑے اخبارکی روزانہ کی بنیاد پر پانچ مختلف بیٹس کی خبریں من وعن اتارتے رہو اور ردی ٹوکری میں ڈال دو، میں اس نصیحت پر عمل کرتا رہا، خبروں کی تعداد بڑھتی گئی۔
ایک دن اچانک مجھے سامنے بٹھایا اورکہا خبر نقل کرنے کی مشق جاری ہے، میں نے جواب دیا جی سر!کہنے لگے یہ لو صفحہ ایک فرضی خبر بنا کر دکھا دو۔ میں چونکہ خبروں کی کنسٹرکشن سے واقف ہوچکا تھا، سرخی کے ساتھ شہر میں پانی کی قلت سے پیدا شدہ صورتحال کا افسانہ لکھ دیا، خبر دیکھ کر بزرگ صحافی خوش ہوئے کہا یہ فرق ہے ایک مجرد ایم اے صحافت کی ڈگری یافتہ طالب علم میں اور آپ میں۔ وہ خبر نہیں بنا سکتا، بنا سکتی۔ اسے انٹرن شپ کی ضرورت پڑتی ہے۔
آج صحافیوں کی نئی نسل مختلف اخبارات سے وابستہ ہے، بہت سے نوواردان صحافی بلاشبہ کمٹمنٹ دکھاتے ہیں ، ذہین ہیں، مطالعہ سے انھیں دلچسپی ہے، تحقیقاتی رپورٹنگ میں نمایاں بھی ہیں لیکن مجموعی اعتبار سے ان پر الزامات کا سلسلہ اتنا دراز ہے کہ آج تو اہل صحافت معتوب ہیں۔
میڈیا میں چار طرف سے ایک شور برپا ہے کہ آج کاصحافی سچ نہیں لکھتا۔سیاسی افراتفری ، قومی شناخت کے بحران ، بدعنوانیوں کی اعصاب شکن کوریج ، میڈیا ٹرائل اور دو سابقہ حکومتوں پر موجودہ حکومت کے پے در پے الزامات نے پورے میڈیا کو یرغمال بنادیا ہے۔ صحافی اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے تھکن سے چورہے۔ سینئرزکا شکوہ ختم نہیں ہو رہا ، وہ کہتے ہیں کہ صحافت شیکسپئیر کے مال خور شائی لاک کی روایت سے دور رہے تب اہل صحافت کی حرمت برقرار رہے گی ورنہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیاکی مسابقت، کشمکش سے پیدا بحران شدت اختیار کر سکتاہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پیشہ صحافت کو ہمارے سینئرز نے اپنے لہو سے سینچا ہے، وہ مشنری صحافت کرتے رہے، ہم پر الزام ہے کہ ہم مرکنٹائل سوسائٹی میں کمرشل ازم کے ستم رسیدہ منشی ہیں۔ ملک جمہوریت اور آمریت کے جن ادوار سے گزرا ہے ،اس کی جتنی بھی تاریخ مصدقہ کہلائے گی وہ اہل صحافت کے بے داغ بطل جلیلوں کی سرفروشی ، جان نثاری ، بے لوث جذبہ وابستگی اور اخلاص کی قربانیوں کا نتیجہ گنی جائے گی ۔
صحافی فرشتہ نہیں ہوتا مگر اس سے اخباری انتظامیہ اور قوم کو بڑی توقعات ہوتی ہیں، وہ مفادات کے جال سے ہمیشہ بچتا ہے، وہ سماج کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔وہ وسل بلوئر ہے، اس کی خبر ،اس کے کالم، اس کا تجزیہ اس کے انٹرویوز، اداریہ سوچ کے نئے افق وا کرتے ہیں۔ معتوب اور مورد الزام ٹہرائے گئے صحافی کو آج اپنا رول ماڈل برانڈ خود اپنی ’’صحافتی بلاؤں ‘‘ سے بچانا ہے۔
یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ بعض کہنہ مشق و معروف صحافی اسکرین پر آسمانی بلاؤں کی طرح نازل ہوتے ہیں۔ لہذا جو لوگ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہونگے کہ صحافت کو خطرہ داخلی زوال سے ہے، لاریب ! ترغیب و تحریص نے صحافت کو دلدل میں اتارا ہے ۔اسے بہرحال ترقی کی سنارکل سیڑھی پر چڑھتے ہوئے خود کشی سے گریز کرنا چاہئے، وہ اپنی علمی استعداد اور ’’سورس‘‘ کی وسعت بڑھائے گا تو اسے شہریوں کے جاننے کے حق کی تگ ودو میں نئے تجربات سے آشنائی ملے گی۔ اس پر دانشورانہ فالج (انٹلکچوئل پیرالیسس ) کا بھی الزام ہے، 70 ء کے عشرہ کی صحافت پرکمنٹس آچکے ہیں کہ آج کا صحافی اس دور میں ہوتا تو بنگلہ دیش نہ بنتا، عوامی حلقوں میں باتیں ہوتی ہیں کہ لفظوں کی حرمت کا جنازہ جب پارلیمنٹ سے اٹھنے لگے تو اخبارات یا الیکٹرانک میڈیا پر الفاظ و آوازکا جگر پاش شور پر حرف گیری کیسی۔
اب آئیے صحافت کے بین الاقوامی سیاق وسباق کی کھڑکی سے دیکھتے ہیں کہ صحافت پرکیا رائے زنی ہوئی ہے۔ امریکا کا سابق صدر،آزادی ضمیرکا بہت بڑا علمبردار تھامس جیفرسن وہ شخص تھا، جس کی نظر میں سلامتی صرف آزاد پریس میں مضمر تھی ۔اس کا مشہور قول ہے کہ ’’ اگر مجھے فیصلہ کرنا پڑجائے کہ ایک حکومت ہو اخبارات کے بغیر یا اخبارات ہوں حکومت کے بغیر تو میری ترجیح ہوگی کہ اخبارات ہوں حکومت کے بغیر۔‘‘ جیفرسن کے زمانے میں بھی منطق یہی تھی کہ پریس کوریج آنی جانی شے ہے۔
آزاد صحافت مستقل بالذات شے ہے اور وہ دائمی ہے۔ دلچسپ حقیقت ملاحظہ ہو کہ جیفرسن کے ایک ہم عصر مصنف کا کہنا تھا کہ جیفرسن اپنے عہد صدارت کے آخری ایام میں سخت دل گرفتہ تھے۔ حالات اتنے بد تر ہوئے کہ جیفرسن کو کہنا پڑا کہ ’’کوئی یقین نہیں کرے گا جوآج کل اخبارات میں نظرآرہاہے۔‘‘ اس نکتہ پر ایک نکتہ سنج نے کیا خوبصورت بات کہہ دی کہ یہی تو آج ڈونلڈ ٹرمپ کا طعنہ ہے کہ عصری میڈیا خبریں گھڑتا ہے، سورسز بھی ایجاد کرتا ہے،جعلی خبریں دیتا ہے۔ مبصرین اور میڈیا اسکالرز کا موقف ہے کہ جیفرسن نے وقت کے تیور اور میڈیا کی کروٹ کا ادراک نہیں کیا تھا کہ اخبارات آگے جاکر متحارب سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن جائیں گے، حالات مخدوش ہونگے، اور قوم مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کے بحران کا شکار ہوجائے گی۔
آپ کو نپولین بونا پارٹ کا قول سنادوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہزار سنگینیں ہیچ، چارخونخوار اخبارات سے ڈریئے۔ ہٹلرکا کہنا تھا کہ یہ صحافت ہے جو سب سے بالاتر رہتے ہوئے ایک جنونی اور شرانگیز جدوجہد پر آمادہ ہوتی ہے ، ہر اس چیزکو تہس نہس کردیتی ہے جسے قومی آزادی ، ثقافتی ارتفاع اور قوم کی اقتصادی آزادی کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ ایک امریکی دانشورکی سنئے، کہتے ہیں اب شکایت کیسی، کوئی فائدہ نہیں ایک آزاد ترین پریس کے بارے میں سوچنے کا ،کہ ہم نے اس کے لیے کیسی جدوجہد کی، اسے حاصل بھی کیا، اور اب ہمیں اسی آزادی کی نان سنس کو بھگتنا پڑ رہا ہے جو روز اخبارات کی زینت بنتی ہے۔
سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
یہ شعر کمیٹڈ صحافت کا ترانہ تھا۔ صحافی پیغام دیتے تھے کہ آزادی صحافت ہی جمہوریت کا اصل حسن ہے۔ کیا یہ حسن آج گہنا گیا ہے؟(بشکریہ ایکسپریس)