تحریر: الطاف حسن قریشی۔۔
پاکستان اِس اعتبار سے بہت سخت جان ہے کہ وہ سقوطِ ڈھاکہ اور دہشت گردی کے معرکۂ ہائے کرب و بلا سے بھی جانبر ہو گیا ہے۔ ماضی میں ریاست بحرانوں کا حل تلاش کرنے میں سرگرداں رہتی جبکہ اب حکمران عام آدمی کو مسائل کی بھٹی میں جلتے دیکھ کر اپنی نظر دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ دکھ یہ بھی ہے کہ اُن کی ترجیحات درست ہیں نہ اُن میں اصلاحِ احوال کی زبردست تڑپ پائی جاتی ہے۔ بس اُن کی طرف سے الفاظ کا دریا بہتا رہتا ہے جس میں ہر آن طغیانی کا سماں رہتا ہے۔ عمرانی ماہرین کا اِس امر پر اتفاق ہے کہ انسانی معاشرے میں علمی اور اَخلاقی توانائی پیدا کرنے اور اِس کے اندر نئی نئی منزلوں کا سراغ لگانے کی روح پھونکنے میں ادیب، شاعر، کالم نگار اور صحافی مرکزی کردار ادا کرتے اور اہلِ نظر افکارِ تازہ سے نئی نئی بستیاں آباد کرتے جاتے ہیں۔ اِسی بنا پر مہذب قومیں اپنے دانش وروں، ادیبوں، فن کاروں، شاعروں اور صحافیوں کو غیرمعمولی قدر کی نگاہ سے دیکھتی اور اُنہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرنے کا اہتمام کرتی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں کی جانب سے اہلِ قلم سے ہر درجہ غیرپسندیدہ سلوک روا رکھا گیا۔ پہلی بار جنرل ایوب خان کو رائٹرز گلڈ بنانے کا خیال آیا جس کے اصل محرک جناب قدرت اللہ شہاب تھے۔ یہ ایک اچھا خیال تھا لیکن اِس سے تاثر یہ قائم ہوا کہ اہلِ قلم کو اہلِ اقتدار کا فرمانبردار بنانے کا بندوبست کیا جا رہا ہے، تاہم اُس زمانے میں اہلِ قلم کی حوصلہ افزائی کے اچھے مناظر دیکھنے میں آئے اور اچھی کتابوں پر انعامات دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’آدم جی ایوارڈ‘ کا بڑا شہرہ ہوا۔ نیشنل بینک کے سربراہ جناب ممتاز حسن نے بھی اہلِ قلم اور ادبی کاوشوں کی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی کی۔ بعد ازاں یہ ماحول تبدیل ہوتا گیا اور ہمیں سیاسی افراتفری نے آ لیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو برسرِ اقتدار آئے۔ وہ ’لفظ‘ کی طاقت کا ادراک رکھتے تھے چنانچہ اُنہوں نے 1976میں فرانسیسی اکیڈمی آف لیٹرز کی طرز پر ’اکادمی ادبیات‘ قائم کی۔ اِس کے بنیادی اغراض و مقاصد میں اہلِ قلم کی قدراَفزائی، پاکستانی لٹریچر کی تدوین اور معیاری کتابوں کی اشاعت کے لیے معقول انتظامات شامل تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے عہد میں اکادمی ادبیات میں بڑی وسعت پیدا ہوئی۔ اِس کا سہرا بریگیڈیئر صدیق سالک کے سر جاتا ہے جو جنرل صاحب کے بہت قریب تھے اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ اُن کی تصنیف ’ہمہ یاراں دوزخ‘ مزاح کا ایک اچھا شاہکار ہے۔ اُن کے مشورے پر جنرل ضیاء الحق نے اُردو کے مایہ ناز اَدیب جناب شفیق الرحمٰن کو اکیڈمی ادبیات کا چیئرمین مقرر کیا۔ اُن کے بعد سندھی، بلوچ اور پشتو زبان کے بلند پایہ ادیب بھی اِس کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اِس دور میں اہلِ قلم کانفرنس منعقد کرنے کی طرح ڈالی گئی جو کئی عشروں تک قائم رہی۔ مستحق ادیبوں کو ماہانہ وظیفہ دینے کا ایک نظام قائم ہوا۔ کم وسائل کے حامل اور بیماری سے نڈھال اہلِ قلم اور اُن کی بیواؤں کو ماہانہ تیرہ ہزار رُوپے ادا کیے جاتے رہے لیکن انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت سے اب یہ وظائف بند ہو گئے ہیں۔ اِسی طرح اکیڈمی کے ریٹائرڈ اہل کار اپنی پنشن سے محروم چلے آ رہے تھے۔ اِس بندش سے دو اَدیب موت سے ہمکنار ہو گئے۔ اب وفاقی محتسب کے حکم پر چند روز پہلے پنشن کی رقم ادا کر دی گئی ہے۔اکیڈمی اِس حال تک اِس لیے پہنچی ہے کہ ایک مدت سے اِسے کوئی بلند نگاہ سربراہ دستیاب نہیں ہوا۔ وفاقی وزارتِ تعلیم کے ڈپٹی سیکرٹری یا جوائنٹ سیکرٹری اِس عظیم تنظیم کے معاملات بےڈھنگے پن سے چلا رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اِس وزارت کے تحت اِس نوع کے چودہ اِدارے قائم ہیں جو ڈیڑھ دو سال سے سربراہوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ اِس میں مقتدرہ قومی زبان (جس کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے)، اُردو سائنس بورڈ، اقبال اکیڈمی، اُردو لغت بورڈ اور نیشنل بک فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ سالہا سال سے اہلِ قلم کانفرنس منعقد ہی نہیں ہوئی جو قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔ اِس کے علاوہ اکیڈمی ادبیات کی رکنیت کا بھی کوئی نظام سرے سے موجود نہیں۔
جب سے عمران خان اقتدار میں آئے ہیں، وہ میڈیا کے خلاف اپنے افکارِ عالیہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں جس کے باعث اَخبارات اور ٹی وی چینلز کے وسائل میں بہت کمی آ گئی ہے۔ حکومت کی میڈیا مخالف پالیسی کے نتیجے میں ہزاروں صحافی روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔ روزگار کے دروازے بند ہونے سے متعدد صحافی اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں اور کچھ شدتِ غم سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اِس کے علاوہ نڈر اور صداقت شعار صحافیوں پر قاتلانہ حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران ہمارے ہاں 33صحافی لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور آج تک پولیس اُن کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکی ہے۔ حال ہی میں جواں ہمت صحافی عزیز میمن کے بہیمانہ قتل نے پوری قوم کو ایک سوزِ نہاں سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ خوف غالب آتا جا رہا ہے کہ قوم فکری، اخلاقی توانائی اور آوازِ صداقت سے یکسر محروم نہ ہو جائے۔ یہ حالات اربابِ اختیار سے گہرے غور و فکر اور فوری اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ علم، تخلیق اور جستجو سے بےتعلقی اور لاپروائی اکثر اوقات صحت مند جذبوں اور بلند حوصلوں کیلئے موت کا پیغام ثابت ہوتی ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔