تحریر: ڈاکٹر اجمل خٹک کثر
قیام پاکستان کے بعد جب مسلم لیگی حکومت بنی تو تمام اہم معاملات میں حکومت کا انحصار اُس انتظامیہ پر تھا،جس نے نوآبادیاتی دور میں نظام ِ حکومت کو متحرک کرنے کی تربیت حاصل کی تھی،اس بیوروکریسی کے سامنے ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے ریاست کے تین ستونوں کی نگرانی کے کام کا تصور نہ تھا،اس لئے اخبارات کو شروع ہی سے نگرانی کےکام سے روکا گیا،ملک کے انتظام وانصرام کے فرائض انجام دینے والی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے ذہنوں میں ایک جدید جمہوری ریاست کا تصور ہی نہ تھا، اس لئے قائداعظم محمدعلی جناح کی 11اگست1947کی پالیسی تقریر کو سنسرکرنے کی کوشش کی گئی،یوں آزادی صحافت پر حملے سے ہی نئے ملک میں اخبارات کا سفر شروع ہوا،پھر پاکستان ٹائمز اور امروز کے مدیراعلیٰ فیض احمد فیض کو ایک خبر کی اشاعت پر برطانوی ہند کے نافذکردہ قانون کے تحت گرفتاری ہی سے حکومت کی ترجیحات واضح ہوئیں‘‘۔ مذکورہ اقتباس ڈاکٹر پروفیسر توصیف احمد خان کی کتاب ’آزادی صحافت کی جدوجہد میں اخباری تنظیموں کا کردار‘ سے مستعار ہے۔ آپ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کیے بغیر کسی بھی ملک میں شفاف جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکتا، جیساکہ مذکورہ اقتباس سے عیاں ہے کہ پاکستان ایسی بیوروکریسی کے رحم وکرم پر تھاجس کے ذہن میں جدیدجمہوری ریاست کا تصورہی نہ تھا ،اس سبب اپنے اس عزم کو دائم کامیاب دیکھنے کی خاطر آزادی صحافت پرقدغن کو ناگزیر سمجھاگیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کبھی اپنی روح کے مطابق نافذ نہ ہوسکی۔ جہاں اس سلسلے میں آمروں اور اُن کے حلیفوں قدامت پرست طبقے وفیوڈل لارڈز وغیرہ کے مقاصد عیارانہ تھے تو وہاں جمہوریت کی علمبردار اکثر جماعتوں نے بھی اپنے کردار سے انصاف نہیں کیا۔ یہ درست کہ یہ سیاستدان ہی تھے جن کی جدوجہد کے نتیجےمیں آمر بالآخر اقتدار سول نمائندوں کو منتقل کرنے پر مجبور ہوتے رہے، مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب جب سول بالادستی کی حتمی منزل قریب آ ئی یہ سیاستدان ہی تھے جو سستے داموں نیلام ہوتے دیکھے گئے۔ عہدِ ستم کے اس دوران اگرچہ اہلِ صحافت کا کردار مثالی رہا لیکن گاہے گاہے اس صف کے بھی بعض عناصر جمہوری و اظہارِ رائے کی آزادی کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کیلئے بروئے کار آئے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں اگر جمہوریت حقیقی معنوں میں نافذ نہیں ہو سکی ہے تو اس کی ایک اہم مگر بنیادی وجہ سول حکومتوں کے ساتھ بعض قلم کاروں کا موقع پرست کردار بھی ہے۔
جب ہم تاریخ کے تناظر میں آج کی بات کرتے ہیں تو گوکہ پاکستان میں کسی بھی دور پر اظہار طمانیت نہیں کیا جاسکالیکن شاید دورحاضر کچھ عجیب کشاکش اور ہر شعبہ زندگی کیلئے بے چینی لئے ہوئے ہے۔حالات کے معمول کے مطابق نہ ہونے کاایک اشارہ اس سے بھی ملتاہے کہ حکومت کے تمام وزیر مشیر اپنے اپنے کام چھوڑ کرنفسیاتی جنگ میں مصروف ہیں۔ معروضی حالات بالادست طبقات کیلئےتوباعث ِچین وسرور ہوسکتے ہیں کہ ہر دوران کے لئے سدابہار رہا ہے،جس طرح سابقہ ادوار میں بھی شوگر ومہنگائی مافیاز حکمرانوں کی ضرورت تھے ،آج بھی ان کے بغیر حکومت سانس نہیں لے سکتی ،چہ جائیکہ حسب ِ وعدہ غریب پاکستانیوں کو لوٹنے پر سزادے سکے۔ مہنگائی ،بے روزگاری اور استحصال کے عفریت کے پنجوں سے عوام کب جان چھڑا سکیں گے،کوئی امکان دوردور تک نظر نہیں آتا۔یہی وجہ ہےکہ جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں کو حالات کے جبر نے متحرک ہونے پر مجبور کر دیا ہے، وہاں اہل ِ صحافت نے بھی تنگ آمد بجنگ آمد کا طرزِ عمل اپنا لیا۔گزشتہ دنوں کراچی میں کراچی یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت اور میڈیا کو درپیش مسائل پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے حکومت کو آزادی صحافت کے حوالے سے مسائل حل کرنے کیلئے 3 ماہ کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر اپریل تک مسائل حل نہ ہوئے تو کوئٹہ سے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی جائیگی اور اس کا فیصلہ کن راؤنڈ اسلام آباد میں ہوگا ۔ کہنا یہ ہے کہ آج کی جدید مہذب و جمہوری دنیا بنیادی بشری، جمہوری اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حقوق سے عبارت ہے مگر ہم ہیں کہ جیسے ماضی ہی میں سرکش گھوڑے دوڑا رہے ہیں، ہر شعبے میں ہم گویا بحیثیت مجموعی ترقی معکوس کا شکار ہیں۔ موجودہ دور جہاں پابندیٔ صحافت کے طریقے تبدیل ہوئے ہیں تو وہاں ماضی کی بدعتیں بھی مستعمل ہیں، جہاں عہدِ نو صحافت کے نام پر لے پالک عناصر کی بھیڑ کو دیکھ رہا ہے تو وہاں عہدِ تازہ اسلاف کی زریں قربانیوں کے تناظرمیں صحافی برادری کی جدوجہدکے ایک نئے باب کا بھی منتظر ہے۔(بشکریہ جنگ)