khairsh ka khadsha

اہل ادب کی افسوسناک بے ادبی ۔۔۔

تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔

لیجنڈری اطہر شاہ خان تو چلے گئے مگر بھانت بھانت کی درجنوں ادبی تنظیموں اور ہمارے اہل ادب کی کوتاہ فہمی بھی خوب نمایاں ہوگئی ۔۔۔ یوں تو یہ شہر گلزار ادب ، نکھار ادب ۔ رخسار ادب و دنیائے ادب ٹائپ کے درجنوں ادبی گینگز سے بھرا پڑا ہے مگر انکی نمازجنازہ و تدفین میں کسی ادبی تنظیم اور گرو کی وہاں موجودگی تو درکنار انکے لیئے کسی اخبار میں تعزیتی کلمات تک بھیجنے کی بھی کسی کو توفیق نہ ہوسکی حتیٰ کہ انہوں نے سوشل میڈیا پہ بھی اطہر شاہ خان کے لیئے اظہار سپاس اور تعزیت کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی ۔۔۔۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے ادب کے چھوٹے راجن تو اطہر شاہ خان کے کام کو ادب مانتے ہی نہیں اور خواہ وہ ایک سے بڑھ کر ایک مزاحیہ نظمیں و قطعات کہ گئے ہوں یا نہایت معیاری ڈرامے لکھ گئے ہیں یا بیشمار مزاحیہ مضامین اور کالموں کا پہاڑ برابر انبار سپرد قلم کرنے کے اعزاز یافتہ ہوں لیکن یہ ادبی گروگھنٹال ان کے کام کو ادبی کام کے کھاتے میں شمار کرنے سے ہی انکاری ہیں ۔۔ یہاں میرا شکوہ دو ٹکے سے سوٹکے کی سبھی ادبی تنظیوں سے ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں‌ کہ کاش اگر اطہر شاہ خان کا کوئی بیٹا سفیر ، وزیر، صنعتکار یا کمشنر وغیرہ ہوتا تو ان ادبی گروؤں نے اطہر شاہ خان کا جنازہ کندھوں‌ کے بجائے سر پہ اٹھالیا ہوتا ۔۔۔۔

یارو ہمارے عہد کا ایک بہت بڑا آدمی چلاگیا ۔۔۔ اندھیرا اور بڑھ گیا ہے ۔۔۔ لیکن اس کی زیادہ بڑی وجہ اطہر شاہ خان کی رحلت نہیں بلکہ انہیں یکسر نظرانداز کردینے والی شرمناک بیحسی ہے ۔۔۔ ہماری بزم ظرافت کی طرف سے جنرل سیکریٹری فہیم برنی اپنے عہد کے اس لیجینڈ کو الوداع کہنے نہ صرف وہاں موجود تھے بلکہ انکی قبر پہ بزم کی طرف سے ایک کاغذی کتبہ بھی لگا آئے ۔۔۔ کاش کوئی ادبی تنظیم اب انکی تحریروں اور کلام کو جمع کرکے ایک جگہ شائع کرکے اپنی کوتاہی کی کچھ تو تلافی کرسکے ۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website13
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں