ata ul haq qasmi or khuaja anderson

آہ، امجد اسلام امجد

تحریر: وقار احمد شیخ۔۔

یوں لگتا ہے پاکستان کی ادبی دنیا اجڑتی جارہی ہے، ایک کے بعد ایک، کئی بڑی شخصیات ہمیں داغِ مفارقت دے گئیں اور آج ادبی دنیا کی نامور شخصیت امجد اسلام امجد بھی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔

امجد اسلام امجد 4 اگست 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے اور 78 سال اس دنیا میں گزار کر آج مورخہ 10 فروری 2023 خالق حقیقی سے جاملے۔ بلاشبہ امجد اسلام امجد ہر فن مولا تھے، اور ادب کی تمام اصناف میں ہی انھوں نے طبع آزمائی کی۔ وہ نہ صرف شاعری بلکہ ڈراما نگاری اور نقاد کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں، جبکہ ان کا شمار اردو کے بہترین اساتذہ میں بھی کیا جاتا ہے۔

امجد اسلام امجد کا تعلق دستکاروں کے خاندان سے تھا، جو 1930 میں سیالکوٹ سے لاہور آباد ہوگیا۔ تین بھائیوں اور چار بہنوں میں وہ سب سے بڑے تھے۔ 1961 میں مسلم ماڈل اسکول سے میٹرک کیا۔ انٹر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے، گریجویشن اسلامیہ کالج سول لائنز سے کی۔ اور اورینٹل کالج سے 1967 میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ ایم اے اردو کیا۔ 1968 میں ہی ایم اے او کالج میں ساڑھے تین سو روپے تنخواہ پر لیکچرار مقرر ہوگئے۔ 1997 میں وہ اسی ادارے سے بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر ذمے داریوں سے سبکدوش ہوئے۔ تدریس سے فراغت کے بعد اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر اور چلڈرن لائبریری لاہور کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت میں فرائض انجام دیتے رہے۔

امجد اسلام امجد باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ بذلہ سنجی اور فقرے بازی میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ ان کی شگفتہ بیانی لطائف و ظرائف سے بھرپور رہی۔ امجد اسلام امجد کہتے تھے ’’ہمارے ہاں لوگ مسائل کی وجہ سے اتنے دکھی ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے اوپر ہنسنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ کامیڈی ہوتی ہی اس وقت ہے جب آپ اپنے اوپر ہنسیں۔‘‘ امجد اسلام امجد سے ملنے والے ان کی بذلہ سنجی کے گواہ ہیں، ان کا شگفتہ مذاق اور برجستگی محفل کو زعفران بنادیتی تھی۔

امجد اسلام امجد کے بقول انھوں نے کہانی کہنا، اسکرین پلے بنانا اور اسکرپٹ لکھنا اپنی خالہ سے متاثر ہوکر شروع کیا۔ امجد اسلام امجد کی خالہ نابینا تھیں جو بچوں کو کہانیاں سنایا کرتیں اور ان کے مزاج کے مطابق کہانیوں میں ردوبدل کرنا بھی خوب جانتی تھیں۔ باقی بچے تو صرف کہانی سنتے تھے لیکن امجد صرف سننے پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ اس پر غور کرتے اور اگر کوئی ڈھیل یا سقم پاتے تو اسے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق دور کرکے اسکول میں سناتے۔ اسی وجہ سے چھٹی جماعت میں ان کے ایک استاد نے ان کا نام کہانیوں کی مشین رکھ دیا تھا۔ کہانی کاری کی بچپن کی یہی صلاحیت آئندہ زندگی میں بھی خوب چمکی۔

امجد اسلام امجد کو بحیثیت شاعر خود کو منوانے میں بہت زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی، یونیورسٹی میں ہی ان کی شاعری کا بہت شہرہ تھا۔ ایوب خان کے خلاف لکھی گئی نظم ’’ہوائے شہر وفا شعاراں‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی۔ 1974 میں امجد اسلام امجد کا پہلا شعری مجموعہ ’’برزخ‘‘ منظر عام پر آیا۔ شاعری کے برخلاف ٹی وی ڈراموں کے لیے انھیں بہت تگ و دو کرنا پڑی۔

امجد اسلام امجد نے ٹی وی کےلیے ڈراما لکھنے کا قصہ کچھ یوں بتایا تھا۔ جس زمانے میں اطہر شاہ خان جیدی کا ڈراما ’’لاکھوں میں تین‘‘ چل رہا تھا، انھوں نے ڈرامے سے متعلق کچھ نکات پر بحث کی تو اطہر شاہ خان کہنے لگے ’’تم خود ڈراما کیوں نے لکھتے؟‘‘ امجد سمجھے کہ شاید وہ طنز کررہے ہیں لیکن دراصل وہ ان کی تنقیدی بصیرت سے قائل ہوکر یہ بات کررہے تھے۔ اطہر شاہ خان کی تحریک پر وہ ڈراما لکھ کر پی ٹی وی میں تین بار گئے لیکن بے نیل و مرام واپس لوٹ آئے۔ 1968 سے 1973 تک ٹی وی کے دروازے ان پر بند رہے۔ 1973 میں پی ٹی وی نے ڈراما لکھنے میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنا ہنر آزمانے کی دعوت دی۔ اور یہاں سے امجد اسلام امجد کی قسمت نے پلٹا کھایا۔ ان کا ڈراما ’’آخری خواب‘‘ پنڈی اسٹیشن سے پیش کیا گیا۔ 1974 میں راولپنڈی اسٹیشن سے ’’حوا‘‘ کے نام سے سیریز شروع ہوئی، جس کےلیے امجد اسلام امجد نے ’’برزخ‘‘ اور ’’موم کی گڑیا‘‘ کے نام سے دو ڈرامے لکھے۔ دلچسپ بات انھوں نے 1975 میں 23 مارچ کا خصوصی کھیل ’’خواب جاگتے ہیں‘‘ لکھا، جو ان کی شادی کے روز دکھایا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے کئی ڈرامے لکھے لیکن ڈراما سیریل ’’وارث‘‘ وہ مرحلہ تھا جس نے پاکستان ٹی وی ڈرامے کی تاریخ بدل دی۔

امجد اسلام امجد کا لکھا ڈراما ’’وارث‘‘ پی ٹی وی کی تاریخ میں ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ امجد اسلام امجد نے اس ڈرامے سے متعلق ایک انٹرویو میں بتایا تھا ’’مجھے کہا گیا کہ تین دن میں کوئی آئیڈیا ہے تو پیش کرو، جس پر میں نے اس ڈرامے کا پہلا اسکرپٹ لکھا۔ اس ڈرامے کی تھیم بارہ سال سے میرے اندر پک رہی تھی۔ ڈراما اتنا زیادہ ہٹ ہوا کہ اس کے اسکرپٹ کو تبدیل کرنا پڑا۔ آخری حصہ جس طرح سے دکھایا گیا، اس طرح پہلے نہیں تھا۔‘‘

امجد اسلام امجد شاعری میں فنی تقاضوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر ابلاغ کے خواہش مند رہے۔ انھیں ہمیشہ ایسی شاعری کرنے میں دلچسپی رہی جس سے وہ صرف اہل علم ہی نہیں بلکہ عام قاری کو بھی متاثر کرسکیں۔ وہ شعر میں موسیقیت اور آہنگ برقرار رکھنے کے موید ہیں۔ نثری نظم کو وہ شاعری نہیں سمجھتے تھے۔ امجد اسلام امجد کے الفاظ میں ’’میرا اپنا نظریہ یہ ہے کہ ہماری زبانوں کی شاعری جو سیمٹیک زبانوں کی شاعری ہے، اس میں قدرت نے عجیب وغریب سہولت رکھی ہے جو مغربی زبانوں کو بہت کم حاصل ہے، یعنی ہمارے vocal cords جو ہیں، وہ تقریباً انگریزی سے دگنی آوازیں نکالنے پر قادر ہیں۔ انگریزی 26 حرفوں میں ختم ہوتی ہے، ہندی کو ملالیا جائے تو ہمارے باون تریپن بنتے ہیں۔ ہم اگر خدا کی دی نعمت کو استعمال نہ کریں تو یہ ہماری کمزوری ہے۔ ہمارے پاس قافیے زیادہ ہیں، ہمارے پاس ردھم کی صلاحیت زیادہ ہے، تو کیوں نہ اس کو استعمال کریں۔ ردھم شاعری کے مفہوم سے قطع نظر آپ کو اپنا اسیر بنالیتا ہے اور مفہوم یاد رکھنے میں مدد کرتا ہے۔‘‘

امجد اسلام امجد کی تصانیف کی ایک طویل فہرست ہے۔ ’’عکس‘‘ اور’’کالے لوگوں کی روشن نظمیں‘‘ شاعری کے تراجم پر مشتمل تصانیف ہیں۔ ’’نئے پرانے‘‘ کے نام سے تنقیدی کتاب، سفرناموں کے چار اور کالموں کے چھ مجموعے بھی منظر عام پر آئے۔ جبکہ کئی یادگار ڈراموں میں ’’وارث‘‘، ’’رات‘‘، ’’دہلیز‘‘، ’’سمندر‘‘، ’’فشار‘‘، ’’دن‘‘، ’’اگر‘‘، ’’انکار‘‘ اور ’’ایندھن‘‘ جیسے منفرد ڈرامے شامل ہیں۔ اچھے ٹی وی ڈرامے کو وہ ادب کا حصہ مانتے تھے۔ امجد اسلام امجد نے چار فلموں ’’حق مہر‘‘، ’’نجات‘‘، ’’چوروں کی بارات‘‘ اور ’’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘‘ کی کہانی اور دو فلموں ’’قربانی‘‘ اور ’’سلاخیں‘‘ کے مکالمے بھی لکھے۔

امجد اسلام امجد نے 1984 میں ’’امروز‘‘ سے کالم نویسی کا سفر شروع کیا تھا اور گزشتہ پچیس سال سے روزنامہ ایکسپریس کے لیے بھی کالم لکھ رہے تھے۔ امجد اسلام امجد اپنی زندگی سے بہت مطمئن رہتے تھے۔ اپنی زندگی میں اطمینان سے متعلق ان کا کہنا تھا ’’نامطمئن ہونے والی کوئی بات نہیں۔ اللہ نے مجھے کسی بڑے امتحان میں نہیں ڈالا، جس چیز کی تمنا کی وہ ملی، ذاتی طور پر کوئی گلہ نہیں۔ ایک تکلیف مجھے ہے کہ میں نے جو بھی کام کیا، اس سے معاشرے میں کوئی Qualitative تبدیلی نہیں آئی۔ معاشرہ بحیثیت مجموعی زوال آمادہ ہے۔‘‘

امجد اسلام امجد کو ان کے فن کے اعتراف میں بے شمار ملکی اور غیر ملکی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 80 کی دہائی میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ برائے حسن کارکردگی جبکہ پی ٹی وی ایوارڈ اور نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ امجد اسلام امجد کی رحلت پاکستانی ادب کے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)

ابصارعالم حملہ کیس، ملزمان پر فردجرم عائد نہ ہوسکی۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں