تحریر: خرم شہزاد
کسی بھی ملک میں الیکڑانک اور پرنٹ میڈیاکو عوام کی طرف سے سیاست دانوں اور اداروں پر نگران کا کام کرنا چاہیے۔یہ دراصل عوام کی آنکھیں ہوتی ہیں جن سے وہ سیاست کے ایوانوں کے اندر جھانکتے بھی ہیں اور اداروں کی کارکردگی پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں میڈیا اپنے یہ فرائض بخوبی نبھا رہا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کا قدبین الاقوامی برادری میں بہت بلند ہے۔ میڈیا آزاد ہونے کے باوجود حکومت کی پالیسی گائیڈ لائن کے ساتھ ساتھ ضمیر اور اخلاق کی گائیڈ لائن پر بھی چلتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کے بڑے بڑے نیوز چینلز اپنے ملک کے نظریاتی دفاع کے ساتھ ساتھ ملک دشمنوں کے لیے ایک وبال بھی بنے ہوتے ہیں۔ اپنے دشمنوں کے خلاف وہ اپنے دیکھنے والوں کی ایسی ذہن سازی کرتے ہیں کہ غیر ممالک میں بھی لوگ اُن کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیںلیکن یہ سب پاکستان میں ایک خواب و خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان کے خلاف اگر کسی کی ذہن سازی کرنی ہو تو دشمنوں کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں بس مطلوبہ شخص کو کچھ دنوں کے لیے پاکستانی ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھا دیا جائے اور پڑھنے کو کچھ مخصوص پاکستانی اخبارات تھما دئیے جائیں۔ وہ شخص یقینا ایک ہفتے میں ہی پاکستان کے خلاف وہ زہر اگلنے لگے گا کہ ہمارا دشمن اپنی ہزار سال کی کوشش سے بھی ایسا شخص تیار نہیں کر سکتا۔ اداروں اور لوگوں کی کرپشن کے ساتھ ساتھ خراب ملکی حالات کا وہ ڈیٹا بیس اس کے پاس ہو گا جو شائد ہی کسی کے پاس ہو۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا میڈیا یہ کیا کر رہا ہے آخر۔ ۔۔؟ اور اس کا اصل قصوروار کون ہے۔۔۔؟؟
میڈیا جو کچھ بھی دیکھا رہا ہے وہ سب اپنے ناظرین کے نام پر اور ان کی شہ پر دیکھا رہا ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی میڈیا ہاوس کو ٹوک دیں تو وہ فورا آپ کو جواب دے گا کہ جناب یہ پبلک ڈیمانڈ ہے۔ اگرچہ یہ پبلک ڈیمانڈ چینلز اور اخبارات کی اپنی پیدا کردہ ہے لیکن جب عوام اسے بخوشی قبول کرتے ہیں تو واقعی یہ سب پبلک ڈیمانڈ بن جاتی ہے۔ اسی پبلک ڈیمانڈ کی وجہ سے اب چینلز اور اخبارات بھی مختلف درجوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ افواج کے خلاف خبر دیکھنی ہو تو فلاں چینل اور اخبار۔۔۔ حکومت کے حق میں خبر دیکھنی ہو تو فلاں چینل اور اخبار۔۔۔ حکومت کے خلاف کچھ دیکھنا ہوتو فلاں۔۔۔ اور کچھ نہ دیکھنا ہو تو فلاں۔۔۔ بے حیا کہانیوں والے ڈرامے دیکھنے ہوں تو فلاں چینل اور پاکستانی چینل ہو کر سب کچھ دوسرے ممالک کا دیکھنا ہو تو فلاں چینل۔۔۔ ڈیزائنر ڈریسز دیکھنے ہوں تو فلاں شو۔۔۔ اور ناچ گانا دیکھنا ہو تو فلاں شو۔۔۔ یہ تقسیم اگرچہ چینلز اور اخبارات کی طرف سے تھی لیکن اس کو عوام قبول کرتی چلی گئی اور اب یہ سب ان چینلز اور اخبارات کی ضرورت بن چکا ہے جس سے وہ چاہیں بھی تو ادھر ادھر نہیں ہو سکتے۔
باقی سب باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر ہم صرف اور صرف سیاست کی بات کریں تو ہمارے نیوز چینلز چوبیس گھنٹے ہمیں با خبر رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہر گھنٹے میں ایک سے دو بریکنگ نیوز دینا جہاں ان کی مجبوری ہے وہیں ٹاک شوز کی گرما گرمی میں لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے آپ کے مسائل کو اجاگر کیا ہے اور سیاست دانوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال کر آپ کے لیے جواب مانگا ہے۔چینلز اور اخبارات کے دعوے ایک طرف رکھتے ہوئے میں تمام ناظرین اور قارئین سے سوال کرتا ہوں کہ کیا واقعی اس قدر باخبر میڈیا نے آپ کو باخبر رکھا ہوا ہے اور کیا واقعی آپ با خبر ہیں۔۔۔؟؟ یقینا بہت خوشی سے ناظرین اور قارئین گردن ہاں میں ہلائیں گے اور اپنے پسندیدہ چینل اور اخبار کے بارے میں بتائیں گے کہ اس کی وجہ سے ان کی ہر بات پر نظر ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ بہت باخبر ہیں تو بتائیے کہ ملک کی کسی بھی ایک اسمبلی نے آخری پانچ بل کون سے پاس کئے ہیں۔ ان پر بحث میں کتنے ارکان نے حصہ لیا اور کتنے ارکان نے ہاوس میں موجود ہونے کے باوجود حصہ نہیں لیا۔۔۔؟ یہ بل عوام کی زندگی میں کیا بہتری لائیں گے اور حکومت اور اپوزیشن کے موقف سے پرے اس پر عوام کا کیا موقف ہے۔ ۔۔؟ ان اسمبلیوں میں کتنے بل مسترد کئے گئے اور ان کی وجوہات کیا تھیں۔ ۔۔؟کتنے بل کمیٹیوں کے سپرد کئے گئے اور ان پر کیا پیش رفت ہے۔۔۔؟؟ آپ کے پاس کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں ہے۔ بہت کوشش کریں تو پھر بھی آپ بس ایک آدھ بل کے بارے میں بتا سکیں گے جو کہ بہت معروف ہو لیکن اس کی تفصیل میں کن ارکان نے بحث میں حصہ لیا اور کون سے ارکان چپ شاہ رہے ۔۔ آپ کو نہیں پتہ ہو گا۔ ۔۔؟؟ میرا بہت سادہ سا سوال ہے کہ کسی بھی اسمبلی کا ایک اجلاس لاکھوں روپے کے خرچ سے منعقد ہوتا ہے۔ اس دن کے اجلاس میں کیا کاروائی ہوئی ، اسے جاننا عوام کا حق ہے اور اس حق کا بہترین انداز یہ ہے کہ لوگ خود اسمبلی کی کاروائی دیکھنے جایا کریں اور اپنے بچوں کو بھی لے کر جایا کریں۔ جو لوگ دور دراز رہتے ہیں ان کو میڈیا باخبر رکھے کہ آخر میڈیا کا یہی تو کام ہے۔ چار سو ارکان اسمبلی میں سے پونے چار سو ارکان کا تو مجھے پتہ ہی نہیں کہ پانچ سال میں انہوں نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں۔ کس بل کے حق میں بولے ہیں اور کس کے خلاف ۔۔۔ حق میں بولے ہیں تو کیا بولے ہیں اور خلاف بولے ہیں تو کیا دلائل ہیں۔ پانچ سال کے بعد میں نے اپنے حلقے سے جس شخص کو دوبارہ ووٹ دینا ہے مجھے اس کی پانچ سال کی کارکردگی کے بارے الف بے بھی نہیں پتہ سوائے میڈیا پر آکر ماری گئی بڑھکوں کے۔۔۔ تو میرا سوال اپنی جگہ تو بنتا ہے کہ میڈیا ان پانچ سالوں میں کیا جھک مار رہا تھا اور ہر پل ہر خبر سے باخبر رکھنے کے دعوے دار میڈیا نے مجھے کیا خبر دی ہے۔
میڈیا کے باخبر رکھنے کا اپنا ہی ایک انداز ہے۔ ٹاک شو کے اینکر گاڑی سے اترے، کیمرے تیار ہیں سکرپٹ میز پر رکھا ہوا ہے۔ مہمانوں کے نام پر دو تین مرغے لڑائے، گھنٹہ پورا ہوا اور وہ یہ جا وہ جا۔۔۔ ناظرین خوش کہ بڑا کمال کا پروگرام کیا ہے۔ وہ لوگ جو دس دس سال سے پروگرام کر رہے ہیں ، آپ ان کے تمام پروگرام نکال کر دیکھ لیں ، ان کے مہمان چند مخصوص لوگ ہی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو سکرینوںکو گرما سکتے ہیں ، ان کے پروگرام کو ریٹنگ دے سکتے ہیں۔ ایک عام رکن اسمبلی کبھی ان کے پروگرام کا حصہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے کسی شخص کو بلا کر اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ جناب آپ نے پچھلے ایک ماہ میں اسمبلی میں ایک لفظ تک نہیں بولا، اتنے بل پاس ہوئے ہیں ، اتنی قراردادیں منظور ہوئی ہیں۔۔ آپ اسمبلی میں لینے کیا آتے ہیں اگر آپ نے بولنا ہی نہیں ہے۔
میڈیا کے ناظرین اور قارئین کی مثال دیتے ہوئے تو اب جانوروں کو بھی بدنام نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں جو دے دیا جائے وہ چپ کر کے کھا لیتے ہیں۔ جانور بھی کھانا پسند نہ آنے پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن ایک ناظر یا قاری کو میڈیا جو چاہے دیکھائے ، یہ خاموشی سے بے وقوفوں کے طرح بیٹھا دیکھتا رہتا ہے۔۔۔ اگر یہ جہالت نہیں ہے تو بتائیے کہ جہالت ہے کیا۔۔۔؟(خرم شہزاد)۔۔