خصوصی رپورٹ۔۔
معروف صحافی اور دو روز قبل اسلام آباد سے اغوا ہونے والے مطیع اللہ جان نے اپنے اغوا اور رہائی کی مکمل داستان بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا ،سول سوسائٹی ،سیاسی جماعتوں ،عالمی تنظیموں کے ری ایکشن کی وجہ سے میری جان بچ گئی،اگر کسی جج کے بیٹے کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا تو کیا اسے بھی “مبینہ اغوا”لکھا جاتا؟جس تکلیف سے میں گذرا ہوں کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے،جس طریقے سے اس ملک میں انسانیت کی توہین کی جا رہی ہے اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔تفصیلات کے مطابق معروف صحافی اور تجزیہ کار مطیع اللہ جان نے اپنے یوٹیوب چینل پر دو روز قبل ہونے والے اپنے اغوا کی مکمل داستان تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو روز قبل دس بجے کے قریب میں اپنی اہلیہ کو جی سیکس کے سرکاری سکول میں چھوڑ کر وہیں گاڑی میں بیٹھ کر میسجز اور دستاویزات دیکھنے لگ گیا ،تقریبا گیارہ بجے کے قریب میں گاڑی میں کچھ دستاویزات دیکھ رہا تھا کہ اچانک پولیس کی وردیوں میں ملبوس مشکوک افراد چند گاڑیوں میں آگئے،جن میں سے ایک گاڑی پر پولیس کی لائٹیں بھی لگی ہوئی تھی ،ان مشکوک افراد نے مجھے گاڑی میں سے کھینچ کر نکالا اور مجھ پر تشدد بھی کیا ،میں نے بڑی مزاحمت کی اور اپنی اہلیہ کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اپنا موبائل سکول کے اندر اچھال دیا ،پولیس کی وردی اور سول کپڑوں میں ملبوس ان مسلح اغواکاروں نے مجھے گھسیٹ کر اپنی گاڑی میں بٹھا دیا اور میرے دائیں بائیں پولیس وردی میں لوگ بیٹھ گئے اورگردن سے دبوچ کر میرا سر نیچے کردیا کہ میں کچھ دیکھ نہ سکوں ۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ان لوگوں نے میرے ہاتھوں میں سلور رنگ کی ہتھکڑی لگاتے ہوئے کالے رنگ کا کپڑا میرے منہ پر چڑھا دیا اور آنکھوں میں کس کر پٹی باندھ دی جس سے میرا دم گھٹنے لگا تو میں نے چیخ کر کہا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے،مجھے سانس لینے دیں جس پر انہوں نے منہ پر چڑھایا ہوا کپڑا ناک سے اوپر کر دیا ،وہ لوگ مجھے ذدکوب کر رہے تھے اور بدتمیزی بھی کرتے رہے،اس کے باوجود میرا دم گھٹ رہا تھا لیکن اس کے باوجود ایک بندہ مجھے زدوکوب کرتا رہا ،میں نے کہا کہ میرا نام مطیع اللہ جان ہے اور میں صحافی ہوں ،مجھے بتایا جائے کہ میرا جرم کیا ہے؟لیکن وہ مسلسل بدتمیزی کرتے رہے،اُنہوں نے کہا کہ تم صحافی ہو ،تم اپنے آپکو کیا سمجھتے ہو؟ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟میرا دم گھٹنے لگا تو میں نے پانی مانگا ،کچھ دیر بعد چلتی ہوئی گاڑی رک گئی اور ایک بندہ گاڑی سے نیچے اتر گیا اور پھر مجھے پانی کی بوتل لاکر اپنے ہاتھ سے پانی کے دو تین گھونٹ پلائےاور پھر گاڑی چل پڑی،تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد گاڑیاں رک گئیں،مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ،ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے لوہے کےبڑے بڑے دروازے کھل رہے ہیں۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ان لوگوں نے اس نامعلوم مقام پر مجھے گاڑی سے اتار کرایک جگہ پھینک دیا گیا ،مجھے محسوس ہوا کہ زمین فرشی ہے اور اس پر کوئی چادر بچھی ہوئی اور تکیہ پڑا تھا ، وہاں پر ان لوگوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ،کبھی سر پر اور کبھی کمر پر مارتے رہے،مجھے یہ لوگ بار بار کہتے رہے کہ تمہیں سمجھ نہیں آرہی ،سمجھ تو مجھے آ رہی تھی لیکن شائد سمجھ انہیں نہیں آ رہی ،جب یہاں میں بے حال ہوا تو مجھے لٹا دیا گیا اور وہ لوگ وہاں سے نکل گئے،کچھ دیر بعد وہ لوگ دوبارہ آئے اور مجھ پر پھر تشدد شروع کر دیا ،ان لوگوں نے میرے بچوں کے نام لے کر دھمکیاں بھی لگائیں ،میں نے سوال کیا کہ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟بار بار وہ یہی کہتے رہے کہ تم سمجھ دار ہو تمہیں پتا ہے کہ تمہیں کیا کرنا ہے ،تم اپنے آپ کو بہت پڑھا لکھا سمجھتے ہو ،ویسے تو بڑی باتیں کرتے ہو پھر ہم سے پوچھتے ہو ؟۔
میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی بندھی ہوئی تھی ، کچھ دیر بعد اُنہوں نے آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر کس کے ماتھے پر باندھ دی،جس جگہ مجھے رکھا گیا تھا وہاں سفید رنگ کی دیوار پر پولیس کے کلر میں کچھ نشان بنے ہوئے تھے،دروازے کے باہر ایک دوسرے دروازے پر لٹرین لکھا نظر آیا جبکہ ساتھ ہی بڑے بڑے لفظوں میں “محرر ” لکھا ہوا تھا اور ایک نیلے رنگ کا تیر کا نشان بنا ہوا تھا ،مجھے حیرت اس بات پر ہو رہی تھی کہ میری آنکھوں سے پٹی کھول کر ماتھے پر کیوں باندھی ہوئی ہے؟کچھ دیر بعد وہ لوگ دوبارہ آگئے اور مجھے یہ کہہ کر تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا کہ آنکھوں سے پٹی کیوں کھولی ہے حالانکہ وہ پٹی میں نے نہیں اُنہوں نے خود کھولی تھی۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ جس جگہ مجھے رکھا گیا وہاں ایک کیمرہ بھی لگا ہوا تھا ،میرے ذہن میں بہت سارے خیالات آرہے تھے،میں نے انہیں کہا کہ برائے مہربانی میرے ساتھ جو مرضی کرو لیکن میرےگھر والوں کو بتا دیں کہ میں خیریت سے ہوں اور زندہ ہوں،ان لوگوں میں سے کچھ بڑے مہذب انداز جبکہ کچھ لوگ پشتو میں بولنے کی کوشش کرتے تھے اور صرف اتنا کہتے تھے”ٹائم نشتہ ،ٹائم نشتہ”،وہ لوگ مجھے اسی حال میں چھوڑ کر چلے گئے،چند گھنٹے بعد وہ لوگ دوبارہ آگئے اور آتے ساتھ ہی مجھ پر تشدد شروع کردیا ،پھر میرے ماتھے سے کپڑا اتار کر بڑی مضبوطی کے ساتھ میری آنکھوں پر باندھ دی ،آگے سےہتھکڑی کھول کر میرے ہاتھ پیچھے سے باندھ دی ، پھر بڑی سختی کے ساتھ میرے منہ پر بڑی سی ٹیپ باندھنا شروع کردی،مجھے اسی طرح جکڑ کر گاڑی میں پھینک دیا ،چلتی گاڑی میں انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی ،راستے میں کسی جگہ گاڑی رکی تو ڈرائیور سیٹ سے باہر سے کسی نے پوچھا آپ اگلی گاڑی کے ساتھ ہیں جس پر ڈرائیور نے ہاں کہا جس پر “اوکے” کہا گیا اور گاڑی دوبارہ چل پڑی ،کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد مجھے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا ،مجھے احساس ہوا کہ شائد اب یہ مجھے مار دیں گے ،میں نے دل میں کلمہ پڑھنا شروع کر دیا اور اللہ کو یاد کرنا شروع کر دیا ،ایسے موقع پر اللہ یاد آ جاتا ہے،مجھے جھاڑیوں پر گرا دیا اور ایک بندے نے پشتو زبان میں میرا نام پوچھا جس پر میں نے کہا کہ میں مطیع اللہ جان ہوں جس پر انہوں نے کہا کہ زرک خان نہیں ہو ؟میں نے کہا کہ نہیں میں مطیع اللہ جان ہوں جس پر انہوں نے کہا کہ “غلط بندہ “آگیا ہے،اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ تو کوئی اور بندہ ہے، اس سے مجھے امید پیدا ہوگئی، میں نے کہا کہ میں زرا خان نہیں ہوں مطیع اللہ جان ہوں اور صحافی ہوں، اس نے پھر کہا کہ یہ غلط بندہ آگیا ہے، اس کو چھوڑو۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کہا کہ ہم چلتے ہیں، جاتے جاتے کسی بندے نے میرے سر پر بہت زور سے کوئی چیز ماری، میں بیہوش نہیں تھا لیکن میں نے ایسا ظاہر کیا کہ میں بیہوش ہوں۔ اس بندے نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا اور میرے ہاتھ میں پانی کی بوتل پکڑا کر چلے گئے۔
مطیع اللہ جان کے مطابق ان کے ہاتھ کھول دیے گئے تھے ، جس کے بعد انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے منہ پر لگی ٹیپ ہٹائی اور چلتے ہوئے اسی سڑک تک پہنچے جہاں سے گاڑی ریورس ہوئی تھی۔ سڑک کے بائیں ہاتھ پر آبادی تھی میں اس طرف چل پڑا، وہاں ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس پر حکومت پنجاب کا لوگو بنا ہوا تھا، اس پر تین الفاظ پڑھے ” محکمہ زراعت پنجاب
مطیع اللہ جان کے مطابق انہوں نے ایک مسافر سے موبائل لے کر فون کیا، بھائی کچھ دیر بعد اس جگہ پر آگیا اور اٹھا کر واپس گھر لے آیا۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ اغوا کی تکلیف سے گزرنے کے بعد اگلی صبح ان کی سپریم کورٹ میں سماعت تھی، سپریم کورٹ میں درخواست کی کہ میرے ساتھ یہ واقعہ ہوگیا، میں یہ توقع کر رہا تھا کہ کوئی شخص اغوا کے بعد عدالت میں پیش ہوتا ہے تو اس سے معزز عدالت پوچھتی ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا؟ ایک چیز پر مجھے بہت افسوس ہوا کہ چیف جسٹس نے جب آرڈر لکھواتے ہوئے یہ کہا کہ اغوا ہوا ہے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے مشورہ دیا کہ اغوا نہ لکھیں مبینہ اغوا لکھیں، میں نے بڑے احترام سے کہا کہ یہ اغوا ہے ، جس تکلیف سے میں گزرا ہوں اس کو مبینہ نہ لکھیں۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ اس اغوا کے واقعے کے بعد وہ ایک نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صحافی کے کام کی نوعیت بڑی مشکل ہے، صحافی واحد لوگ ہیں جو کھڑے ہیں۔ مجھ سے میرے الفاظ کا حساب تو لیا جائے گا لیکن میرے پاس الفاظ ہیں ہی کتنے جن کا حساب دے سکوں؟ اس ملک میں انسانیت کی جو توہین ہورہی ہے کیا اس کا بھی کوئی حساب لے گا؟انہوں نے کہا کہ ان کے اغوا کے واقعے پر پوری دنیا سے سخت ری ایکشن آیا، یہی ری ایکشن تھا کہ اس ملک کے سیاسی اغوا کاروں کو مجھے جلد ہی رہا کرنا پڑا۔ توقع کرتا ہوں کہ اس واقعے کو مثال بناکر شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا، کیونکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کا سوال ہے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔