صحافی و تجزیہ کار جویریہ صدیق کا کہنا ہے کہ افواہ سازی اب ایک باقاعدہ صنعت بن چکی ہے اور لوگ افواہ پھیلا کر پیسے کماتے ہیں۔ صرف پیسے نہیں کماتے بلکہ اسے اپنے مذموم مقاصد اور ایجنڈے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا پروپیگنڈا اور افواہ سازی اتنی منظم ہوتی ہے کہ نوجوان ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو افواہ سازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا سیلز بنے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی قسم کی جھوٹی خبریں پھیلتی رہتی ہیں۔ میڈیا پر تو پھر کوئی رولز اور ریگولیشن ہیں لیکن سوشل میڈیا کا تو کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ایک جھوٹی خبر گھڑی جاتی ہے اور پہلے اسے ایک اکائونٹ سے شیئر کیا جاتا ہے اور پھر مخصوص اکائونٹس سے ری شیئر کر دیا جاتا ہے‘ پھیلتے پھیلتے یہ ـ’’خبر‘‘ عام صارفین تک پہنچ جاتی ہے اور وہ بھی اسے آگے شیئر کرنے لگتے ہیں۔ ایس ایم ایس‘ وٹس ایپ‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ ٹک ٹاک‘ یوٹیوب اور میسنجر کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ روزنامہ دنیا میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتی ہیں کہ ۔۔خبر ہمیشہ تصدیق کے بعد ہی آگے شیئر اور پوسٹ کی جانی چاہیے۔ کوئی بھی خبرجس کی حقانیت پر شک ہو اسے آگے مت پھیلائیں۔ ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ ہم پہلے خبر کی تصدیق کریں۔ محض لائکس‘ ہٹس اور ویوز کیلئے ایسی کوئی چیز شیئر نہ کریں جس سے عوام میں خوف وہراس پھیلے یا کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ وٹس ایپ‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب‘ انسٹاگرام اور دیگر سماجی رابطے کی سائٹس اور اپیلی کیشنز کا استعمال محتاط ہو کرنا چاہیے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ ویب چینلز سوشل میڈیا کی خبروں کو نشر کر دیتے ہیں‘ جو تصدیق شدہ نہیں ہوتیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ہر چیز درست نہیں ہوتی لہٰذا خبر کی نشر و اشاعت سے قبل اس کی تصدیق لازمی کریں۔ اسی طرح بہت سی نامور شخصیات کے نام سے سوشل میڈیا اکائونٹس بنے ہوئے ہیں مگر اکثر ایسے اکائونٹس فیک ہوتے ہیں۔ خبر دینے سے پہلے یہ بھی تصدیق کر لینی چاہیے کہ مذکورہ شخص سوشل میڈیا استعمال کرتا بھی ہے یا نہیں۔۔ کلکس اور ویوز کی خاطر ایسی ایسی ‘خبریں‘ بنائی جاتی ہیں جو وقوع پذیر ہی نہیں ہوتیں مگر من گھڑت کہانی بنا کر ان کو عوام میں بیچا جاتا اور پیسے کمائے جاتے ہیں۔