تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، افراتفری میں جو بھی کام کیا جائے ،وہ ’’افرا۔تفریح‘‘ بن جاتا ہے۔۔ یہ کالم بھی یوں سمجھ لیں کہ افراتفری میں لکھاجارہا ہے۔۔ کالم نگاروں کو اپنے اپنے کالم بھیجنے کے لیے ایک مخصوص ڈیڈلائن دی جاتی ہے، جس کے مطابق اگر کالم نویس نے دیئے گئے وقت تک کالم نہ بھیجا تو وہ شامل اشاعت نہیں کیا جاتا۔۔ اخبارات کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے۔۔ ہر کام اپنے ٹائم پر کیا جاتا ہے۔۔ اخبار جب پریس بھیجنا ہوتا ہے تو کسی کا انتظار نہیں کیا جاتا۔کوئی جتنا بڑا کالم نویس ہو،اسے ڈراپ کردیا جاتا ہے۔۔ ہمیں اپنے کالم کی ڈیڈلائن سے آدھا گھنٹا پہلے یاد آیا کہ آج کالم بھیجنا تھا،چنانچہ پھر افراتفری میں یہ ’’افرا۔تفریح‘‘ وجود میں آگئی۔۔ اوٹ پٹانگ باتیں حسب روایت پیش خدمت ہیں۔۔ ایک شاعر کسی مشاعرے میں بہت بور کررہا تھا، نوجوانوں نے تو باقاعدہ ہوٹنگ شروع کردی، لیکن شاعر کو احساس نہیں ہوا کہ اسے ہوٹ کیا جارہا، وہ یہ سمجھتا رہا کہ لوگ اس کے شعروں پر داد دے رہے ہیں، شاعر اور فنکار داد کا بھوکا ہوتا ہے۔۔ بس وہ ایک کے بعد دوسری غزل اپنی ڈائری کھول کر سناتے رہے۔۔ اچانک انہیں کچھ یاد آیاتو مائیک پر کہنے لگے کہ ۔۔ میں نے جب پہلی دفعہ نعت لکھی تو سرکار نے مجھے مدینے بلا لیا۔۔میں نے دوسری نعت لکھی سرکار نے دوسری دفعہ مدینے بلا لیا ۔۔۔تیسری نعت لکھی سرکار نے تیسری دفعہ مدینے بلا لیا۔۔حاضرین میں سے ایک نوجوان کھڑا ہوا اور برجستہ کہا۔۔ جناب کبھی حمد بھی ’’ٹرائی کرکے دیکھیں۔۔کل ہم چکن لینے بازار گئے تو پانچ سو اسی روپے کلو میں مرغی کا گوشت فروخت ہورہا تھا، یقین کریں شدت سے احساس ہوا کہ ۔۔میرا کپتان چیختا رہا،مرغیاں پال لو، مرغیاں پال لو۔۔ اگلے کی بات کا پوری قوم نے ڈٹ کر مذاق اڑایا تھا۔۔اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاچک گئیں کھیت۔۔ہمیں تو وہ وقت بھی بہت شدت سے یاد آتا ہے کہ جب پہلے فیل ہونے پر گھر والے شادی کر دیتے تھے۔۔اب حکومت بغیر امتحانات کے پاس کر رہی ہے۔۔اب جان بوجھ کر فیل ہونے والے کنواروں کا کیا بنے گا؟؟ ہمارے ایک دوست اکثر ہمیں جب بھی فون کرتے ہیں تو لازمی ایک طعنہ یہ دیتے ہیں کہ۔۔زندہ ہوں تو بات کر لیا کرو،مرنے کے بعد میں نے بات کرنا شروع کی تو تعویذ ڈھونڈتے پھرو گے۔۔اب یہ اور بات کہ وہ خود عیدین پر ہی فون کرتے ہیں اور پھر حسب روایت یہ طعنہ بھی مارتے ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔آپ کا کردار ہی آپ کو مرد بناتا ہے،باقی مونچھیں تو چوہے، بلی کی بھی ہوتی ہیں۔۔باباجی کی بات پر جتنا غور کریں گے آپ کا ’’ہاسا‘‘ بھی نکلے گا اور آپ کو ان کی باتیں سوچنے پر مجبور کردیں گی کہ۔۔یارباباجی نے کہاتو سچ ہی ہے۔۔ اور یہ بات بھی سوفیصد سچائی پر مبنی ہے کہ ۔۔پاکستان میں ایڈریس شروع کہیں سے بھی ہو، ختم ایک ہی جگہ پہ ہوتا ہے کہ ۔۔ وہاں جاکے کسی سے بھی پوچھ لینا۔۔!!!ایک دن ہم باباجی کے گھر ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے، محفل چل رہی تھی، ساتھ میں اشرف المشروبات، معظم الشربتات، امیر المٹھاسیات، یکساں فی السردیات والگرمیات والدھوپیات والبرسات۔۔’’چائے ‘‘ کے کپوں سے سوندھی سوندھی خوشبوئیں فضاؤں میں بکھر رہی تھیں۔۔ اچانک ہم نے باباجی سے سوال کردیا۔۔یہ تڑپ کسے کہتے ہیں؟؟۔۔باباجی نے ہمیں غور سے دیکھا۔۔اپنی نشست سے اٹھے۔۔کمرے کے کونے کی طرف بڑھے اور وائی فائی کا پاس ورڈ تبدیل کردیا،پھر ہماری طرف مڑے اور بولے۔۔پتر اب محسوس کر۔۔ ان دنوں اسرائیل ،فلسطین ایشو چل رہا ہے۔۔سوشل میڈیا پر ہر دوسرا بندہ جس کو اسرائیل کا راستہ تک معلوم نہیں نہ وہ کبھی اپنے محلے سے باہر نکلا ہے،اسرائیل پر حملے کے لیے پاک فوج کو برا کہہ رہا ہے۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فرانس میں کی گئی گستاخیوں کی سزا پاکستان کے عوام (مسلمانوں) کو دیتے ہیں۔۔۔چلو اس پر نظر ڈالتے ہیں کہ اسرائیل پر حملہ کرنا ہے تو کیسے۔؟؟زمینی حقائق سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔۔ پاکستان سے اسرائیل جانے کا راستہ پتا ہے آپ کو؟؟۔۔شرطیہ کہتے ہیں کہ نہیں پتہ ہوگا آپ کو۔۔اسرائیل تک پہنچنے کے چار ممکنہ راستے ہیں۔۔پہلا راستہ زمینی ہے۔ اس تیز رفتار ترین راستے میں ایران، عراق اور اردن آتے ہیں۔۔ اب آپ بتائیں کہ کون سا ملک آپ کو اپنی فوجیں گزارنے دے گا وہ بھی اسرائیل سے لڑنے کے لیے۔؟؟تو کیا ہم ان مسلمان ممالک سے بھی لڑنا شروع کر دیں؟؟۔۔دوسرا نزدیک ترین راستہ خلیج تک بحری سفر اور پھر سعودیہ سے ہوتے ہوئے اردن اور پھر اسرائیل۔۔یہاں بھی سعودی عرب اور اردن سے گزر کر جانا پڑے گا۔۔ جو ممکن نہیں۔۔تیسرا ممکنہ راستہ بحیرہ مردار سے ہوتے ہوئے اسرائیل کے شہر علت تک جاتا ہے۔۔ اس راستہ میں عمان، یمن، مصر، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک کی بحری سرحدوں سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ ایک بار پھر ممکن نہیں۔۔۔چوتھا اور آخری راستہ سب سے لمبا اور سب سے آسان ہے جو کہ پورے خلیج سے گزر کر، براعظم افریقہ کے گرد گھوم کر، ہسپانیہ (جبل الطارق) کے پاس سے گزر کر پورے یورپ کے دل بحر اوقیانوس میں سے ہوتے ہوئے اسرائیل تک پہنچا جا سکتا ہے جو کہ کسی بھی لحاظ سے ممکن نہیں۔۔تو ایک آپشن اور بھی ہے کہ فضائی حملہ کیا جائے۔۔۔یہاں بھی بات ان لوگوں کی آ جاتی ہے جنہوں نے کبھی ایک پٹاخہ تک نہیں پھوڑا، اور کوئی لڑاکا طیارہ دور سے بھی نہیں دیکھا ہوتا لیکن سوشل میڈیا پر مشورے سنو تو لگتا ہے کہ ایروناٹیکل انجینئرنگ کے پوزیشن ہولڈر ہوں۔ جناب ہمارے جہازوں کی حد پرواز (اضافی ایندھن والے ٹینک لگا کر) اسرائیل تک پہنچنے کی ضرور ہے مگر وہاں پہنچنے پر ایندھن ختم ہو جائے گا تو اس کے بعد کیا ہوگا۔۔؟؟اور درمیان میں واقع کون سا ایسا اسلامی ملک ہے جو ہمیں طیارے اتارنے اور ایندھن بھرنے کی اجازت دے گا اور وہ بھی اسرائیل کے خلاف۔۔؟؟یاد رکھیں کہ درمیان میں وہ سارے ممالک واقع ہیں جہاں سے فرانس میں کی گئی گستاخی کے خلاف کوئی آواز تک نہیں ابھری۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ایک شخص کی موت طوائف کے کوٹھے پر ہوئی، دوسرے کی مسجد میں۔۔ آپ سے پوچھا جائے تو ان میں سے کون جنت میں جائے گا تو آپ کا فوری جواب ہوگا کہ جو مسجد میں مرا۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلا وہاں اس لیے داخل ہوا کہ ان کو نصیحت کر سکے۔ اور دوسرا مسجد میں اس لیے داخل ہوا کہ جوتا چرا سکے۔اس لیے نہ تو ہم اور نہ ہی آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون جنتی ہے اور کون جہنم میں جائے گا۔۔ لوگوں کے بارے میں ان کے ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ نہ کریں۔کیونکہ دِلوں کے تمام رازوں کوصرف اللہ تعالیٰ جانتے ہے۔ ۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔