تحریر: شکیل احمد بازغ
کوئی لاکھ بار بھی کہہ لے کہ ایسے ملک نہیں چل سکتا۔ ہر بار ایسے ہی چلا ہے ملک، اب تو یہ ڈرامے واضح ہو چکے ہیں۔ کہ حکومتیں سپلیمنٹری طرز پر چل رہی ہیں۔ جمہوریت کے ڈیکورم دنیا بھر کیلئے جو بھی ہوں۔ پاکستان میں جمہوریت کو حالات کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ تاکہ عوام کا جمہوریت کے کھُرے تک پہنچنا نا ممکن رہے۔ عوام معاملات کو جزوقتی طور دیکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی سیاست میں دہائیوں کا تجزیہ کئے بغیر حقائق واضح نہیں ہوتے۔ یہاں تو ایک فیصلے پر اسی دن فوری سے مٹھائیاں بانٹ دی جاتی ہیں۔ اور بغلیں بجائی جاتی ہیں۔ مگر چند ہی روز بعد مٹھائیوں کو حلق میں انگلی ڈال کر اگلنا پڑتا ہے۔ عدالتوں کا کام ہے آئین کی تشریح کے تناظر میں فیصلے کرنا۔ عدالت کے فیصلے کو یا تو انصاف کی فتح قرار دے دیا جاتا ہے۔ یا پھر سیاسی فیصلہ کہہ کر رد کرکے پورے لاؤ لشکر کیساتھ چڑھائی کر دی جاتی ہے۔ یہ چڑھائی، پریس کانفرنسز، میڈیا ٹاکس، ٹی وی شوز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ادھر عدالتوں میں موجود سیاسی جماعتوں کے وکلاء ونگز بھی عدالتوں کے احترام آئین اور قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈال کر متحرک ہوکر عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔ خفیہ ایجنسیز پر ججز بارہا الزامات لگا چکے کہ ہمارے کام میں مداخلت ہوتی ہے۔ لیکن کوئی ایک بھی ایسا جج یا پینل اس مداخلت سے ناراض ہوکر کام نہیں چھوڑتے۔ یعنی اگر یہ الزامات درست ہیں تو اور مداخلت غلط ہے تو بھئی عدالتوں میں بیٹھے ججز کے علاوہ رہ کون گیا ہے جو غلط کو پکڑے اور ملک کو سیدھی پٹڑی پر چلائے۔ اگر عدالت ہی سیاسی یا خفیہ دباؤ میں آکر فیصلے دینے لگیں گے تو پھر ملک کیا یونہی سیاسی و خفیہ جنگلی چلائیں گے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ دو سیاسی جماعتوں کے بعد اب دو سیاسی متحد گروہوں میں سے ایک ایوان میں مسند اقتدار پہ بیٹھا ہوتا ہے تو عین اس وقت مخالف جماعت کا قائد، قائدین یا اتحادی جماعتیں یا جیل میں ہوتی ہیں یا پھر انہیں کارنر کر دیا جاتا ہے۔ ملک میں اگر من مرضی یا دباؤ کے فیصلے ہونگے۔ تو اس سے ایک تو عوام ہمیشہ سے پستے رہیں گے۔ کوئی قومی بیانیہ یا قومی اتحاد فروغ کبھی نہیں پا سکے گا۔ قومی شناخت قومی وقار قومی ترقی قومی نظریہ سب کچھ تباہ و برباد ہوتا رہے گا۔ ویسے اس سے زیادہ اب اور تباہی کیا ہوگی کہ ملک کو سامراج کی بھیک اور بدلے میں انکی پاکستانی نظریئے کے مخالف پالیسیز کے وعدوں پر چلایا جا رہا ہے۔ انصاف نام کی شے باقی نہیں رہی۔ یعنی اب عدالتوں میں کون جاتا ہے۔ انصاف کی تاخیر یا نا انصافی کے خدشات کی وجہ سے لوگ خود ہی صحیح غلط فیصلے کرنے لگے ہیں۔ ملک مجموعی طور پر افراتفری دھونس دھاندلی لا قانونیت معاشی بحران عدم اعتماد اور بدنظمی کا شکار معلوم ہوتا ہے۔ حکومتوں کا کنٹرول کہیں باقی نہیں رہا۔ دہشت گرد غنڈے دندناتے پھرتے ہیں۔ تاجروں کی لوٹ مار پوچھنے والا کوئی نہیں، حکومت از خود عوام پر انکی طاقت سے زیادہ ٹیکسز کا بوجھ ڈال کر ترقی کے خواب دیکھ رہی ہے۔ خط غربت سے نیچے عوام کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اندرونی و بیرونی قرضے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ملکی خود مختاری ختم تر ہو کر رہ گئی ہے۔ جُرائم پیشہ افراد لوٹ مار اور قتل و غارت گری میں شیر ہو چکے ہیں۔ لوگ عدم تحفظ بھوک اور بے سر و سامانی کا شکار ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے کوئی انتظام موجود نہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیمز بنانا خواب ہو کر رہ گیا۔ بجلی ترسیلات کی کمپنیاں لوڈ شیڈنگ کیساتھ بے مُہار اضافی بوجھ اور اذیت ناک لوڈ شیڈنگ کر رہی ہیں۔ پوچھنے والا کوئی نہیں لوگوں کا کاروبار اور سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ تمام اشرافیہ بظاہر مخالف رہ کر عوام کو تقسیم کرکے عالمی استعمار کی نوازشات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ظالم کا کام کاروبار اور ظلم بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جمہوریت اپنے مقاصد کے عین مطابق اہداف کامیابی سے حاصل کر رہی ہے۔ سب اپنا اپنا چورن کامیابی سے بیچ رہے ہیں اور یہ جعلی پھکیاں عوام بخوشی پھانک رہے ہیں۔
اس سب کو کہتے ہیں لا قانونیت کا راج، اندھیر نگری چوپٹ راج، اور ناکام ریاست۔ کچھ عرصہ مزید ایسے ہی چلے گا۔
ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے۔
ان شاء اللہ جمہوریت کے تمام ظلم ختم ہونگے۔ ہر شاخ پر بیٹھے الو کا احتساب ہوگا۔ اور اس ملک کو اللہ عظیم قیادت عطا کرے گا۔ جو لوگوں کو ابن الوقتوں کے جبر سے نجات دے گا۔اللہ اعلم۔۔(شکیل احمد بازغ)۔۔