تحریر: خرم علی عمران۔۔
ویسے تو کہتے ہیں کہ آزادی ہر قیدی کا خواب اور ہر غلام کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے لیکن کچھ افراد یا قومیں اس معاملے میں زیادہ ہی خوش نصیب بلکہ خوشا نصیب ہوا کرتی ہیں اور صد شکر کہ ہم بھی ان میں سے ایک ہیں۔اپنا یہ پیارا سا ملک خداداد جہاں اور بے شمار نعمتوں اور فضیلتوں کا حامل ہے وہاں ایک بڑی نعمت و فضیلت اس وطن عزیز کو ایسی حاصل ہے کہ جس میں اس کا مقابلہ باید و شاید ہی دنیا میں کوئی اور ملک کر سکتا ہو اور وہ ہے آزادی! اب آپ کہیں گے کہ صاحب یہ کیا بات ہوئی؟ آزاد تو بہت سے ملک ہوئے ہیں اور کچھ علاقے اورممالک ہمیشہ سے آزاد ہیں تواسی طرح ہم بھی آزاد کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے ہیں، تو جناب میری مراد وہ آزادی نہیں ہے بلکہ یہ آزادی ہے کہ جس میں جو چاہے جو کرے اور جو چاہے جب کرے لیکن کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور ہم اس عطا، اس نعمت،اس دولتِ آزادی سے مالا مال کیاایک آزاد ترین قوم نہیں ہیں ؟۔ کیا عوام کیا خواص، کیا عالم کیا جاہل، کیاامیر کیا غریب،، کیاعدلیہ،کیا انتظامیہ،کیا مقننہ،کیا اشرافیہ، کیا صحافت کیا میڈیا،کیا پیرکیا مرید، کیا دانا دشمن اور کیا نادان دوست علی ہذالقیاس،سب ہی اس آزادی کو اتنا زیادہ انجوائے کرنے لگے ہیں کہ اب آزادی بھی اہل نظر دیدہ وروں کو کچھ پریشان پریشان سی نظر آنے لگی ہے اور بقول شاعر، ایک نازک سی پری جھیلے گی کتنوں کے عذاب، والا معاملہ سا ہوتا نظر آرہا ہے کہ آزادی اب ہماری شوخیوں سے گھبرائی گھبرائی سی رہتی ہے ۔ اب دیکھیں نا ہماری کوئی بھی سرکار ہو کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو چند چیزوں میں وہ بھی آزادی کی انتہا پر نظر آتی ہے، مثلا قرضے زیادہ سے زیادہ لینے کی آزادی، قیمتیں جلد از جلد بڑھانے کی آزادی، سرکاری فنڈز کے بے دریغ استعمال کی آزادی ، تبدیلی لانے کی آزادی اور میٹھے میٹھے دلاسے دیتے رہنے کی آزادی وغیرہ وغیرہ۔۔
اگر اپوزیشن کو دیکھیں تو وہ بھی بڑی آزاد ہے جناب اور وی الوقت جس آزادی کو وہ بری طرح انجوائے کررہی ہے وہ ہے دھرنے دینے کی آزادی۔جدید محاوروں کی ڈکشنری میں ماہرین نے سچ ہی لکھا ہے کہ جو کسی کے لئے دھرنا کھودتا ہے خود بھی اس میں ضرور گرتا ہے۔ اور بھی کئی آزادیاں ہماری اپوزیشن جسے” ابو زیشن “کہنا زیادہ موزوں محسوس ہوتا ہے ،کو حاصل ہیں جن میں ملک کا اپنے اپنے ادوار میں بیڑہ غرق کرکے معصوم بن جانے کی آزادی، اپنی مضحکہ خیز حد تک پہنچی ماضی میں اختیار کردہ پالیسیز کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی ازادی، احتساب کے خوف سے فورا ہر طرح سے مظلوم و بیمار بن جانے کی آزادی وغیرہ،یہ انہیں حاصل شدہ آزادی کی دیگ کے چند دانے ہیں۔
پھر افراد یعنی میں اور آپ تو ہم بھی بڑے آزاد ہیں جی !جس کا جو دل کرے اسے کرنے کی آزادی، کوئی پوچھنے والا،کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ عوام سے شروع کریں تو وہ اس جام آزادی کی مئے مست میں سر تا پاڈوبے نظر آتے ہیں،جہاں چاہتے ہیں جس در و دیوار،شجر و حجر پر دل کرتا ہے انگریزی محاورے کے مطابق پانی بنانا شروع کر دیتے ہیں ذرا یہ آزادی کسی اور ملک میں تو دکھائیے صاحب! جو پان گٹکا نسوارکھانے والے شوقین پاکستانی ہیں وہ جگہ جگہ ایسے رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں جن سے خوشبو بھی آتی ہے، جس کا جہاں دل چاہتا ہے سرکاری اداروں کے درد منداہلکاروں کے زیر شفقت اپنا ٹھیہ، ٹھیلا، کیبن، کاؤنٹر لگا لیتا ہے اور وہ بھی بلکل معمولی سی غیر سرکاری فیس پر جسے حاسدین خوامخواہ جلن کے مارے رشوت یا بھتہ کا نام دیتے ہیں۔ جس کا جہاں دل چاہتا ہے سرکاری اور نجی اراضی پر ذاتی تعمیر کرلیتا ہے کوئی نہیں پوچھتا، کیا آزادی ہے، اس قبضے کے معاملے میں تو ہم اتنے آزاد اور ماہر ہوگئے ہیں کہ حضرت علامہ رح سے معذرت کے ساتھ،گراؤنڈ توگراؤنڈ نالے بھی نہ چھوڑے ہم نے،کی عملی تفسیر ہر بڑے شہر بالخصوص کراچی میں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جیسے ویرانے میں بہار سی آجاتی ہے اور اس پھرتی سے بیابان آباد ہوجاتے ہیں کہ جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ قریب بہ محال ہے۔
اب ذرا طبقہ بالا دست جو زیر دستوں کے حق میں کسی بلا سے کم نہیں کی بات ہوجائے۔ اس طبقے میں عام طور پر تعلیم و تربیت یافتہ کا توزیادہ پکا پتہ نہیں مگر ڈگری بلکہ ڈگریوں یافتہ لوگ زیادہ ملتے ہیں الا ماشااللہ،تو وہ اپنے اسٹیٹس کے اعتبار سے اس بہت ساری آزادی کو بہت زیادہ انجوائے کرتے ہیں، پھر اگر میرے شعبے یعنی صحافت کی بات کی جائے تو ماشا اللہ ہمارا میڈیا اللہ نظر بد سے بچائے (پرنٹ سوشل اور الیکٹرانک) جتنا اس آزادی کو انجوائے کرتا رہا اور کررہا ہے اس کے لئے مسز ہلیری کلنٹن کی یہ گواہی جو انہوں نے بطور سیکریٹری آف اسٹیٹ پنے دورہ ء پاکستان سے واپسی میں یہ کہہ کر بڑے گھبرائے ہوئے لہجے میں دی تھی کہ پاکستانی میڈیا تودنیا کا آزاد ترین میڈیا ہے، کافی ہے،اس بے مہار آزادی کا ایک یہ نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے کہ لوگ اب جرنلزم کویلو کی بجائے گٹر جرنلزم بڑی آسانی اورآزادی سے کہنے لگے ہیں۔
چند اداروں کے بارے میں زیادہ حد ادب والی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر میں نے کچھ لکھ دیا تو کہیں جبین ناز پر پسینہ نا آجائے اور یہ جبین ناز کا پسینہ کہیں کوئی سیلاب نہ لے ائے،سو اس گلی سے بچ کر نکلتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمارے تجار نما سیاستدان اور سیاستدان نما تاجران، جاگیر داران، دانشوران و دیگران، وکلاء، علماء، خطباء،قوال اور ہمنوا سب سے سب جو چاہتے ہیں کہتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں بھئی لاکھوں جانوں،اموال،عزتوں اور آبروؤں کی قربانی دے کر یہ آزادی اسی لئے تو لی بلکہ چھینی تھی کہ ہم اسے انجوائے کریں اور دوسرے تمام ممالک کواس آزادی سے خوب جلائیں۔ ویسے ایک بات میری ناقص عقل میں نہیں آتی کہ ہمارے یہی آزاد طبع وآزاد صفت عوام و خواص جب کسی دوسرے ملک جاتے ہیں تو وہاں کے قوانین اور طور طریقوں کی بڑی احتیاط سے پابندی کرتے نظر آتے ہیں اور وہاں کے مقامیوں سے بھی زیادہ ادب و تمیز اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے نظر آتے ہیں،ایں چہ بوالعجبی است؟(خرم علی عمران)۔۔۔