adliya ke darwazay band kyun

عدلیہ کے دروازے بند کیوں؟؟

تحریر: شاکر حسین۔۔

محترم چیف جسٹس صاحب۔۔۔جب مرجائے گی مخلوق تو انصاف کروگے۔۔؟

سیاستدانوں اور بااثر اینکر کیلئے آدھی رات اورچھٹی کے دن کھلنے والی عدالت کے دروازے غریب میڈیاورکرز پر ڈیڑھ سال سے بند ہیں۔ ذمہ دارکون۔۔؟

زیر نظر تصویر باباعبدالرحمن کی ہے۔باباعبدالرحمن اس عہد میں بحیثیت خطاط نوائے وقت کراچی سے وابستہ ہوئے جب خبریں اورسرخیاں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔جب کمپیوٹر آیاتو دوسرے ملازمین کی طرح انہوں نے بھی کمپیوٹر پر پیج میکنگ میں اپنی صلاحیت کا لوہابخوبی منوایا۔یہ وہ ہیرے  ہیں جنہیں محترم مجید نظامی نے تراشہ تھا اوران کے قدرداں بھی وہی تھے۔ظاہر ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتاہے۔بینکار کی اولاد کیاجانے ہیرے کی اہمیت۔

محترم مجید نظامی کے انتقال کے بعد بہت سارے ملازمین کی طرح یہ بھی لے پالک سفاک رمیزہ بٹ کے عتاب کا شکارہوئے ۔انہوں نے کم وبیش 35 سال نوائے وقت کی دل وجاں سے خدمت کی۔نوائے وقت کو ایک مریل پودے سے تناوردرخت بنانے میں ان ملازمین کا خون پسینہ  شامل ہے جس ادراک محترم مجید نظامی کو بخوبی تھا۔یہی وجہ ہے وہ اپنے سینیئر ملازمین کو کبھی  نوکری سے نہیں نکالتے بلکہ ان کی بڑی سے بڑی غلطی پر بھی چشم پوشی سے کام لیتے۔ہاں اگر کوئی ازخود ملازمت چھوڑ جائے تو اسے روکتے بھی نہیں تکریم واعزاز کے ساتھ رخصت کا پروانہ دیدیتے۔

پھر نوائے وقت اوراس کے ملازمین پر قیامت ٹوٹ پڑی جب مجید نظامی صاحب کےبعد ان کی لے پالک رمیزہ بٹ نے عنان اقتدار اپنے ہاتھ لیا۔رمیزہ بٹ نے نوائے وقت اوراس کے ملازمین کے ساتھ وہی سلوک روارکھا جو ایک فاتح فوج کا بدمست سالار مفتوحہ ملک وقوم سے کرتاہے۔رمیزہ بٹ نے کنٹرول سنبھالتے ہی ایک طرف  تمام ملازمین کو چلتاکردیاتو دوسری طرف اردوصحافت میں ممتازمقام کے حامل اخبار نوائے وقت کو بسترمرگ پر پہنچادیا جہاں وہ آخری ہچکیاں لے رہاہے۔راوی کادعوی ہے کہ رمیزہ نے نوائے وقت اورنظامی فیملی سے احسان کا بدلہ ایساچکایاکہ

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو قول من وعن سچ ثابت ہواکہ ’’جس پر احسان کرواس کے شرسے بچوـ‘‘

بہر حال رمیزہ بٹ نے سوائے چند ایک کے تمام ملازمین کو بغیر واجبات کے ریٹائرڈ،جبری ریٹائرڈاوربرطرف کردیا۔ان میں اپنی جوانی کے حسین دن اور یادگارراتیں نوائے وقت کے صفحات کی تزئین وآرائش میں صرف کرنے والے عبدالرحمن بابابھی شامل تھے۔اس پر ستم درستم یہ کہ چارسال گزرنے کے بعد بھی رمیزہ نے انہیں انکاجائز حق نہیں دیا۔واجبات تو درکنار ان کی چھ ماہ کی کرنٹ سیلری بھی نہیں دی۔۔بے روزگار،کسمپرسی اوربیماریوں کے نرغے میں پائی پائی کا محتاج ساٹھ سالہ عبدالرحمن اسپتال پہنچ چکاہے۔افسوس کے سیاستدانوں اوربااثر اینکر کیلئے آدھی رات اورچھٹی کے دن کھلنے والی عدالت ان غریب میڈیاورکرز پر ڈیڑھ برس سے بندہے۔(شاکر حسین)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں