ہمہ وقت مستعد عمران خان سوشل میڈیا بریگیڈ نے خط کی آڑ میں عدالتی نظام ہتھیا لیا، سپریم کورٹ کی ہدایات پر بننے والا کمیشن، بن کھلے مُرجھا گیا۔اسٹیبلشمنٹ دباؤ کا رونا رویا جا رہا ہے ، دراصل اس وقت عدالتی نظام بقلم خود سوشل میڈیا دباؤ کے نیچے چل رہا ہے ۔عدلیہ عمران خان کے رحم وکرم پر ہے، فل بینچ جب مانگا تو مل گیا۔ سوشل میڈیا پروپیگنڈا کے سامنے پورا وطنی نظام گھٹنے ٹیک چُکا ہے۔شرطیہ پنڈورا باکس کھلنے کو ہے۔ سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔جنگ ” میں شائع ہونیوالے کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کا سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو خط بھونچال کیا پیدا کرتا؟ ہمہ وقت مستعد عمران خان سوشل میڈیا بریگیڈ نے خط کی آڑ میں عدالتی نظام ہتھیا لیا۔ خط کے مندرجات سے اُصولی اتفاق کہ 6 ججوں کا مؤقف زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہے ۔ ایک عرصہ سے ایجنسیوں کی مداخلت نے مملکت کو گھائل رکھا ہے۔ من پسند ججوں کے بینچ بنانے کا رواج بھی زمانہ قدیم سے رائج تاآنکہ قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی حد تک ازالہ کر دیا ۔ججز خط کا چیف جسٹس پاکستان کو ملنے سے پہلے کمپنی کی مشہوری کیلئے میڈیا کے حوالے کرنا ، نیتوں پر سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ خط کے منظرِ عام پر آتے ہی، چیف جسٹس پاکستان کا ردِ عمل مثالی تھا ۔ 6 ججوں سے ملاقات، فل کورٹ میٹنگز ، وزیراعظم سے فوری ملاقات اور انکوائری کمیشن کی تشکیل سب کچھ پلک جھپکتے کر ڈالا۔ حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دیا تو جسٹس تصدق جیلانی بخوشی راضی ہوگئے ۔ البتہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا بریگیڈ کی گالم گلوچ کی تاب نہ لاتے ہوئے بعدازاں معذرت کرلی۔ ۔دوران سماعت قاضی صاحب نے سوشل میڈیا کے دباؤ کا ذکر کیا ، ” تصدق جیلانی صاحب کی معذرت اُسی دباؤ کا ہی نتیجہ تھی ” ۔ قاضی صاحب بنفس نفیس دباؤ میں نظر آ ئے ، شاید یہی وجہ کہ بار بار جھوٹے پروپیگنڈے پر وضاحتیں دینا پڑیں۔ جملہ معترضہ ،ذاتی طور پر چیف جسٹس صاحب کا ممنون کہ 8فروری 2024ءالیکشن کا سہرا قاضی عیسیٰ کے سر باندھنا ہوگا۔ قاضی صاحب نے جب عہدہ سنبھالا ، شدومد سے ایک بات تسلسل سے دُہرائی بھی ” الیکشن ہو کر رہیں گے اور ہوکر رہے ” ۔کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ ججز خط دوحصوں پر مشتمل ، ایک حصہ ایجنسیوں کی مداخلت پر شکایت ہے ۔ جبکہ دوسرا مدعا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے عدالتی معاملات کو مخصوص انداز میں چلانا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ دباؤ کا رونا رویا جا رہا ہے ، دراصل اس وقت عدالتی نظام بقلم خود سوشل میڈیا دباؤ کے نیچے چل رہا ہے ۔آج اسٹیبلشمنٹ مع تمام عمران خان مخالفین کی عزت و تکریم اُسی ہتھیار کی زد میں ہے ۔ ذاتی طور پر واقف ہوں کہ عمران خان کو سوشل میڈیا کی زبان و بیان کی چاشنی سے دلی تسکین ملتی ہے ۔ ہمیشہ خوش دلی اور فراخدلی سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔آخری خبریں آنے تک انصافی سوشل میڈیا دباؤ کے مقابلہ میں ایجنسیوں کا دباؤ طفلِ مکتب ہے ۔وہ کالم کے آخر میں لکھتے ہیں کہ اب جبکہ سپریم کورٹ معاملہ ہاتھ میں لے چُکی، شرطیہ پنڈورا باکس کھلنے کو ہے۔ سپریم کورٹ جب اس کیس کو آگے بڑھائے تو لازم کہ پچھلے 10/12 سال کا احاطہ کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ اپنے ججوں پر مشتمل کمیشن بنائے اور سب ملوث کرداروں کو سچ بولنے پر اُکسائے۔ جو جرنیل، جو جج، جو سیاستدان سچ نہ اُگلے اسکو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ پلیز! قاضی صاحب کر ڈالیں کہ یہی ملکی سلامتی کا واحد راستہ ہے۔ وگرنہ بھاری دل کیساتھ عرض کروں گا، 6 ججز کیس جوں جوں آگے بڑھے گا ، مملکت توں توں مزید گردابوں میں پھنسے گی۔ آنیوالے اگلے چند مہینے دل دہلانے کو ہیں ،مملکت کی چولیں ہلانے کو ہیں۔ مجھے خدشہ ہے بہت کچھ مٹنے کو ہے ، اگر کچھ باقی بچا وہ ناکافی رہنا ہے۔