تحریر: محمد نواز طاہر
مجھے پانچ سات سال پہلے کا ایک دن یاد آرہا ہے ۔ میں لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج ( تب ابھی وہ صاحب اس منصب کیلئے موزوں قراردیکر کنفرم نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے بارے میں عدلیہ ہی سے متعلق با اختیاروں سمیت کئی ایک ذمہ دارو باشعور لوگوں کی رائے اچھی نہیں تھی)مسٹر جسٹس شیخ مامون الرشید کی عدالت میں بیٹھا تھا ، ابھی عدالت کا انصاف فراہم کرنے کا وقت شروع نہیں ہوا تھا، پنجاب بار کونسل کے ایک سینئر ترین عہدیدار بھی وہیں بیٹھے تھے، اچانک انہوں نے سوال داغ دیا۔۔۔پوچھنے لگے ’’ صحافی بھائی ایس عدلیہ نوں اگے کنج ویکھ رئے او ‘‘( عدلیہ کا مستقبل کیسے دیکھ رہے ہیں ) اب نہ تو میں سرکاری ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بات کررہا تھا اور نہ ہی کس کلاس میں لیکچر دے رہا کہ الفاظ کسی خاص انداز اور بُنت کے ساتھ استعمال کرتا۔ جھٹ ٹھیٹھ انداز میں جواب دیا’’میں ویکھ رہیا واں کہ جج دی کرسی تے بیٹھے بندے نوں کالے کوٹ والا کوئی یا ساں وچوں اُٹھ کے کوئی بندہ آ کے آکھے گا کہ جج صاب سِر اگے کرو ، جج سر نیواں کرے گا تے او بندہ فیر’ مرمت ‘شروع کردے گا تے تسلی نہ ہون تے مُڑ ایہو عمل دہرائے گا( یعنی میں ایسا وقت دیکھ رہا ہوں کہ جج کی نشست پر بیٹھے شخص کو کمرہ عدالت میں موجود کوئی ک کوٹ وایا یا کوئی دوسرا سائل اٹھ کر کہے گا کہ جج صاحب اپنا زر ذرا نیچے کریں ، جیسے ہی وہ سر نیچے کرے گا، وہ شخص کسی بھی چیزسے اس کی ’ مرمت‘ شروع کردے گا اور اور اگر محسوس کرے گا کہ ابھی تسلی تشفی نہیں ہوئی تو یہ عمل دہرائے گا )۔ میرے یہ الفاظ سن کر وہ صاحب بولے کہ یہ کچھ زیادہ سخت بات نہیں ؟ میرا خیال ہے کہ انحطاط ہے لیکن یہ نوبت نہیں آئے گی لیکن حالات جس طرف چل رہے ہیں ، اگر عدلیہ نے ان کا ادراک نہ کیا اور مناسب اقدامات اٹھا کر عوام کا اعتمادبحا ل نہ کیا اور امیدوں پر پوری نہ اتری تو خدا نخواستہ ایسا ہوبھی سکتا ہے لیکن یار دعا کیا کرو کہ اللہ بہتری فرمائے ۔ہماری یہ گفتگو جاری تھی کہ عدالت کا انصاف فراہم کرنے کا وقت شروع ہوگیا ۔ جب جج صاحب کمرہ عدالت میں تشریف لائے تو وہاں موجود عملے سمیت ہر شخص قاضی کی تکریم کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ مقدمات کی سماعت شروع ہوگئی ، دوسرا کیس میرا تھا ، میرے نام کی آواز لگائی گئی تو میں روسٹرم کے قریب وکلاء کیلئے مخصوس نشستوں پر ہی بیٹھا تھا میں اٹھ کر سائیں کیلئے مخصوس جگہ پر کھڑا ہوگیا اور میرے وکیل ایم آر جان ( مجھے اپنے والد مرحوم کی طرح محترم ہیں، باپ جیسے تمام فیصلے کرنے کے کلی اختیارات سمیت) بھی اپنے مخصوص مقام پر کھڑے ہوگئے ، بات شروع ہوگئی ، جج صاحب مجھے ماتحت عدالت کے ایک حکم میں مذکور رقم سے زائد جمع کروانے کیلئے کہہ رہے تھے ، میں درخواست کررہا تھا کہ جب میں اُسی رقم کیخلاف عدالت عالیہ سے رجوع کررہا ہوں اور ساتھ ہی اپنے تنخواہ کا سرٹیفکیٹ بھی پیش کررہا ہوں تو مجھے اعلیٰ عدالت سے رجوع کرنے کا کا فائدہ کیا ہے ؟
میری دادرسی کیا ہے ؟اسی دوران میں نے جج صاحب سے عرض کی کہ جناب میں یہاں ریلیف کیلئے آیا ہوں تکلیف کیلئے نہیں ، میرے یہ الفظ سنتے ہی توقع کے برعکس جج صاحب کا رویہ ہمدردانہ کے بجائے جابرانہ ہوگیا اور وہ سیخ پا ہوگئے ، فرمانے لگے کہ تم عدالت کی توہین کے مرتکب ہورہے ہو ، عدالت میں گفتگو کا ضابطہ ہوتا ہے ،میں تم پر توہینِ عدالت کی کارروائی کرسکتا ہوں ،میں پھر عرض گذار ہوا کہ جناب میں تو ہمدردی کیلئے اپنی بات کررہا ہوں کہ میں یہاں رلیف کیا آیا ہوں تکلیف کیلئے نہیں ، مجھے ریلیف دیں ، وہ مزید بڑھک گئے اور توہینِ عدالت والے الفاط دہرانے لگے ، اب ماحول ظاہر کیسا ہونا چاہئے تھا؟ قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات کے طالبعلم کیلئے تو افسوناک اور سوگوار ہی ہونا چاہئے نا۔۔ ! کمرہ عدالت کا ماحول ناخوشگوار ہوگیا ، میں نے جج سے کہا کہ اب آپ میرا کیس ایک طرف رکھ دیں اور مجھے توہینِ عدالت کا نوٹس دیں ، میں ثابت کروں گا کہ توہینِ عدالت میں نے کی ہے یا آپ جناب کورٹ کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔؟ کمرہ عدالت میں موجود بار کونسل کے عہدیدار اور محتر م ایم آر جان ایڈووکیٹ سمیت کالے کوٹ والے سبھی معاملہ میں’ ٹھنڈک ‘ کیلئے الفاظ کی ’پکھیاں ‘جھلنا شروع ہو گئے لیکن موسم زیادہ گرم تھا۔ میں جج صاحب سے اپنے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کیلئے نوٹس جاری کرنے پر مصر رہا ، گر،م ماحول میں پسینہ بڑھ رہا تھا ، وکلاء سے تعلقداری نے مجھے سرنڈر کرنے پر مجبور کردیا میں یہ کہہ کر عدالت سے باہر نکل آیا کہ میں اپنا کیس واپس لیتا ہوں ، بس توہینِ عدالت کے نوٹس کانتظار کررہا ہوں اور بھی میرے نوٹس کا انتظار کریں ۔
کمرہ عدالت سے باہر نکلا ، ہائیکورٹ کے جج کے اختیارات کا علم تھا جس نے پسینہ فوراً خشک کردیا لیکن جج انصاف کیلئے طالب کیلئے کیا حیثیت رکھتا ہے اس کا بھی ادراک تھا۔بائیس تئیس سال اعلیٰ عدالتوں کی رپورٹنگ کے تجربے نے کچھ نہ کچھ تو سکھایا ہوگا ۔۔؟ سائل کی ساتھ قاضی کا یہ سلوک ؟ سینے میں سونامی لائے ہوا تھا ،میں نے اپنا مشاہدہ ، تجربہ اور ادراک استعمال کرنے کے لئے ذہن کی پوٹلی ٹٹولی اور سیدھی راہ لی ۔۔ میں سیدھا ہائیکورٹ کے پی آر او کے کمرہ میں گیا ، موبال فون میں بیلنس بھی نہیں تھا ، ان دیکھی خاتون کی آواز سن رہا تھا اور خود بول رہا کہ میں نے فلاں جج صاحب کے خلاف قانون میں دستیاب کارروائی کرنا ہے اور ابھی شروع کرنے والا ہوں ، یہ کہہ کر میں نے خاموش ٹیلی فون جیب میں ڈال لیا ، یہ کال جہاں تک پہنچنا تھی ، میرے وہاں بیٹھے ہی پہنچ چکی تھی اور کم و بیش سارا ہائیکورٹ معاملہ جان چکا تھا ، بار تک ہوا پہلے ہی پہنچ گئی تھی ۔ میں بار روم کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں مجھے ایک سینئر بزرگ کی حیثیت سے محتر وکیل جناب اے کے ڈوگر مل گئے جنھوں نے بھر پورہ شکوہ کیا کہ میں نے ان کے قریبی ترین رشتے داری جاننے کے باوجود جج صاحب کے ساتھ مکالمہ کیوں کیا اور اب میں ساتھ ’تڑیاں‘ بھی لگا رہا ہوں ۔۔ وہ مجھے قائل کررہے تھے کہ جو ہوا سو ہوا اب غصہ تھوک دو مگر وہ میرے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ کیا جج کا منصب یہ ہے کہ سائل سے ہمدردی کے بجائے اسے زیر بار اور تھریٹ کرے ۔۔ حالانکہ جج صاب کا معاملہ میں اس وقت ہی سپردِ خدا کرچکا تھا کہ جب پی آر او کے کمرے سے باروم کی طرف آتے مجھے تین چار ایسے ٹیلی فو ن بھی موصول ہوگئے تھے جو مجھے ’’موردن سفیشینٹ‘ مواد فرہم کرنے کی یقین دہانی کوارہے تھے ۔ اور ساتھ ہی اس وقت کے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی اس رائے بھی آگاہ کررہے تھے جو مذکور جج صاحب کے بارے میں تھی یعنی انہین کنفرم نہ کیے جانے سمیت۔۔۔ میں اس معاملے میں اپنے کندھے کسی کی بندوق کو کیوں فراہم کروں ؟ اسی سوچ نے میرا ارادہ اور فیصلہ بدل دیا۔۔۔
اب اس واقعے کا پھر سے یاد آنے کی وجہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار اور بزرگ صحافی و دانشور جناب حسین نقی کے بارے میں سوشل میڈیا پر جاری بحث بنی ہے۔۔اس بحث پر بات کرنے سے پہلے لاہور شہر اور خاص طور پر لاہور کے بھاٹی لوہاری کے نامور ، محترم لوگوں اور ان کے کردارکو خرجِ تحسین و عقیدت پیش کرنا لاز م ہے ۔ لاہور کے پہلوان پوری دنیا میں معروف ہیں تو بھاٹی کے اکھاڑے بھی مشہور ہیں اور ان سے زیادہ یہاں کی پہلوانی مشہور ہے جہاں زیادہ تر بولا جانے والا لفظ پہلوان جی ہے ۔پہلوان جی ذہن میں آتے ہی ایک صحتمندجسم ذہن میں آتا ہے لیکن بھاٹی کے مختصر جسم والے بھی پہلوان ہی کہلاتے ہیں ۔ذرا حسین نقی کو ذہن میں لائیں ، وہ مختصر جسامت والے نہیں ۔ فربہ بھی نہیں اور پہلوان بھی نہیں لیکن دورِ حاظر کے شعوری رستم ضرور ہیں، انھیں ہم لکھنؤ‘ بولا کرتے ہیں، وہ جتنے بڑے قد کے صحافی ہیں اس سے بڑے قد کے دانشور بھی ہیں جمہوریت اور جمہوری قدروں کیلئے ان کا کردار اور جدوجہد کیلئے کاغذ پر نہیں جیلوں کی سلاخوں پر بھی نقش ہے وہ کس قدر حلیم ہیں ، اس کا ذکر جب کبھی ہمارے سینئر ساتھ خاورنعیم ہاشمی اور خالد چودھری کرتے ہیں اور جیل کے واقعات سناتے ہیں تو حسین نقی کے غصے کا اظہار کے احوال قہقہے لگا تے ہوئے کرتے ہیں اور ساتھ عقیدت بھی کرتے ہیں ۔ان کے بقول’ جب ہم لوگ جیل ( جنرل ضیا ء کے مارشل لاء کو للکارنے اور جمہوری سوچ کی بات کرنے کے جرم میں )میں تھے توان دنوں لاہور کے منشیات کے حوالے سے شہرت رکھنے والے والے نجا اور فیجا بھی جیل میں تھے ، ان کی بیرکیں بھی قریب تھے دونوں کے شوروغل پر جب نقی صاحب کو غصہ آتا تو وہ اپنی بیرک کی دیوار کی سلاخیں پکڑ کر نجا فیجا کو للکارے اور کہا کرتے ’ ارے نجا فیجا ، سن لو تم بڑے بدمعاش ہوگے لیکن ہم بدتمیزی برداشت کرنے والے نہیں ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے آپ کی والدہ ماجدہ کی شان میں گستاخی ہوجائے ‘‘ یہ حسین نقی صاحب کے غصے کے اظہار کا انداز ہے ۔۔ جو شخص غصے میں بھی اس انداز سے بات کرتا ہو ۔۔ اس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے کہ وہ عام زندگی میں کیسے گفتگو کرتا ہو گا ؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار اور جناب حسین نقی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری بحث کے مطابق چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں برہمی اور سخت گیر انداز میں حسین نقی سے گفتگو کی ۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث میں چیف جسٹس کے الفاظ کو رعونت ، تکبر ، گھمنڈ، اور گستاخی سے تعبیر کیا جارہا ہے اور چیف جسٹس کی ملامت کی جارہی ہے ۔ صحافتی حلقوں میں بھی چیف جسٹس کے رویے پر تشویش ، دکھ اور مذمت کا اظہار کیا جارہا ، خاص طور پر چف جسٹس کا یہ کہ ’ تم حسین نقی ہو۔۔؟‘ اک ایسا مضحکہ خیز جملہ ہے کہ ایک شخص جس نے بھاٹی میں آنکھ کھولی، لاہور ہی کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی ۔ لاہور ہائیکورٹ بار کا رکن رہا ہو جبکہ لاہور ہائیکورٹ جمہوریت کی بحالی سمیت انسانی آزادیوں کی سرگرمیوں کا محور، مرکز رہی ہو۔۔ہیومن رائٹس کمیشن کے حوالے سے تقریریں کرتا ہو ، چند روز قبل عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں میں دھواں دھار تقریر کرچکا اور یہ نہ جانتا ہو کہ حسین نقی کون ہے ؟ اور پوچھے کہ تم حسین نقی ہو۔ تم کون ہو ؟ سوشل میڈیا کی باتیں چھوڑ دیں ۔۔ اس ایک جملے کو سامنے رکھ لیں ، وکلاء نے چیف جسٹس کو باور کرایا کہ حسین نقی کون ہیں ؟ پھر سوال یہ ہے کہ آخر عدالت میں چیف جسٹس کا یہ رویہ کیوں ؟ کس لئے ؟ بھاٹی کے مختصر جسم والے کی پہلوانی کی للکار کا مطلب کیا ہے ؟ کیا یہ پیغام تو نہیں کہ دانشور ، اور معاشرے کا درد رکھنے والا کوئی شخص عدلیہ سے رجوع کرنے سے باز رہے ، عدلیہ کا رخ نہ کرے ۔۔۔
یہ بات اہم ہے کہ کمرہ عدالت میں بھاٹی کے مخ جسم کے پہلوان اور ’ لکھنؤی ‘ پہلوان کا ’دنگل‘ زیادہ دیر تک نہیں دیکھا ۔۔ لیکن کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت کا کمرہ ’بھاٹی چوک‘ بنایا جاسکتاہے ؟ عدالت کا کوڈ آف کنڈکٹ اس کی اجازت دیتا ہے ؟ پھربھی اگر عام آدمی اورمعا شرے کادرد رکھنے والوں کو عدالتوں میں بے توقیر کرنا بند نہ کیا گیا تو خدانخواستہ عدلیہ یا اس کے کچھ لوگ اسے اس پوزیشن پر لے جائیں گے جس پوزیشن کے خدشات کا اظہار میں نے میں نے ہائیکورٹ کے ایک کمرہ عدالت میں بار کونسل کے عہدیدار سے گفتگو میں کیا تھا ۔۔(محمد نوازطاہر)۔۔