تحریر : ساجد آرائیں
سب سے پہلے تو ایک پیشکش ہے۔ اگر کوئی گمنام تاریکیوں میں ڈوبا ہوا موجودہ دور میں فحش فلموں میں کام کرنے والا ماضی کا کوئی اداکار جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنی پروموشن چاہتا ہے تو دنیا نیوز سے رابطہ کرے۔ آپ کا بیٹا دنیا نیوز کا ملازم ہے یا نہیں، امید ہے آپ کو بِھی جھوٹ بولنے ، اپنے سے بڑے اداکاروں کی پگڑی اچھالنے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کا پورا پورا موقع دیا جائے گا ۔ کیونکہ یہ تو طے ہو گیا ہے کہ دنیا نیوز میں نہ تو کوئی ایڈیٹر ہے اور نہ ہی چیک اینڈ بیلنس رکھنے والی کوئی اتھارٹی۔ ورنہ ایک میزبان سرا سر غلط ، حقائق کے منافی اور بغیر تحقیق کے سوال پوچھنے کی جرات بھی کیسے کر سکتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھول جائیں کہ کامران شاہد اداکار شاہد کا بیٹا ہے۔ یہ بھی بھول جائیں کہ یہ خودنمائی کے لیے کوئی مینیجڈ، پلانٹڈ تاریخی جھوٹ کا پلندہ انٹرویو ہے۔ اس سب سے پہلے دو حرف بھیجیں اس صحافی پر جس کو یہ ہی نہیں معلوم کہ 70 اور 80 کی دہائی میں ایک بھی سال ایسا نہیں ہے جب اداکار ندیم کی صرف ایک فلم ریلیز ہوئی ہے۔ انٹرویو کرنے کا بنیادی اصول ہے کہ آپ کے پاس مکمل اور مستند معلومات ہوں لیکن آپ سوال پوچھ رہے ہیں کہ جب ان سالوں میں ندیم سال میں صرف ایک فلم کرتے تھے ؟ موصوف سوال پوچھتے ہیں کہ جب محمد علی بزرگ ہو گئے ، وحید مراد کا ڈاؤن فال آ گیا۔ ندیم سال میں ایک فلم کرتے تھے تو ابا جی میرے پیارے ابا جی میرے سوہنے ابا جی صرف آپ ہی آپ سپر اسٹار تھے۔؟؟
کامران شاہد صاحب۔۔۔ اگر آپ نے باپ کی خدمت ہی کرنی ہے تو انہیں گھر میں بٹھا کر فروٹ وغیرہ کھلائیں ، آئس کریم کھلائیں ۔ آپ کو یہ کس نے حق دے دیا کہ نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے باپ کی خدمت میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے جھوٹا ، متنازعہ ترین اور حقائق کے منافی انٹرویو کریں۔ آپ اپنی گھریلو باپ بیٹے کی محبت کو جھوٹ کا لبادہ پہنا کر عوام الناس کے سامنے تاریخ مسخ کریں یہ حق آپ کو کس نے دیا۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ آپ کو کس بیوقوف جاہل نے کہہ دیا تھا کہ ندیم سال میں صرف ایک فلم کرتے تھے ۔ آپ کو کس جاہل نے یہ معلومات دیں کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف شاہد ایسا اداکار ہے جو سال میں 14 فلمیں کرتا تھا اور اسکے بعد شائد سلطان راہی۔ ؟ کیا آپ نے تحقیق کی اس بارے میں ؟ کیونکہ آپ نے یہ الفاظ شاہد صاحب کو بار بار دہرائے کہ آپ وہ واحد اداکار تھے جن کی سال میں چودہ پندرہ فلمیں ریلیز ہوتی تھیں۔
جناب عالی ، سن 1979 میں سلطان راہی کی 30 فلمیں، سن 1981 میں سلطان راہی کی 28 فلمیں ، سن 1983 میں سلطان راہی کی 26 فلمیں ، سن 1986 میں سلطان راہی کی 31 فلمیں ، سن 1987 میں سلطان راہی کی 20 فلمیں، سن 1988 میں سلطان راہی کی 21 فلمیں، سن 1989 میں سلطان راہی کی 36 فلمیں، سن 1990 میں سلطان راہی کی 33 فلمیں اور سن 1991 اور 1992 میں سلطان راہی کی 30 فلمیں ریلیز ہوئیں ہیں اور یہ ایسا ریکارڈ ہے جو آپ کے پیارے ابو سمیت دنیا کے کسی بھی اداکار کے پاس نہیں ہے۔ جب آپ کے سوال ہی جھوٹ پر مبنی تھے تو جواب دینے والے کا جھوٹ بولنے کا حوصلہ تو مزید بڑھنا تھا۔ اور جب آپ باپ بیٹا یہ تاریخی جھوٹ بول رہے تھے تو آپ کے دماغ میں کیا تھا کہ کیا پاکستان میں فلمی صحافت اس قدر پست ہے کہ آپ کے ان جھوٹوں کے گلے میں پٹہ ڈال کر آپکے اس سفید جھوٹ کو سرعام چوک چوراہوں میں نہیں گھسیٹا جائے گا ؟
شاہد صاحب فرماتے ہیں کہ انہوں نے وحید مراد پر ترس کھا کر فلم “مقدر” پروڈیوس کی۔ یہ منہ اور مسور کی دال کہ پاکستان کا وہ اداکار جو کبھی بھی صف اول میں نہیں آیا وہ وحید مراد کی مدد کرے گا۔ ؟ سارا زمانہ جانتا ہے کہ فلم “مقدر” فلم اینڈ آرٹ ادارے کی فلم تھی جو شاہد کی ہی وجہ سے مکمل نہ ہو سکی۔ اور فلم آرٹ کس کا ادارہ تھا یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہونے والے سپر اسٹار لیجنڈ وحید مراد آخری سانس تک بھی کبھی مالی پریشانی کا شکار نہیں رہے وحید مراد کی پریشانی کی واحد وجہ انکا زوال تھا۔ وہ کبھی بھی مالی پریشانی کا شکار نہیں رہے کہ شاہد صاحب کو مالی مدد کرنا پڑتی۔ اداکارہ رانی کے بارے میں شاہد صاحب جو فرما رہے تھے کم سے کم وہ خود اندر سے شرمندہ تو ہو رہے ہوں گے کہ وہ کس کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ یوسف خان جن کے رعب اور دبدبے کا ایک زمانہ گواہ ہے شاہد صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے یوسف خان کو ان کے سامنے بے عزت کیا۔ شاہد صاحب کے بےلگام جھوٹ مزید سنیے کہ موصوف فرماتے ہیں کہ میں نے اداکار محمد علی کو انگلی کے اشارے سے شٹ اپ کال دی اور کہا کہ مجھ مت کچھ سکھاؤ۔ مجھے سب آتا ہے۔ یہ منہ اور میسور کی دال کہ موصوف مزید فرماتے ہیں کہ نازیہ حسن ہوٹل کے کمرے میں انہیں گانے سناتی تھی۔
قارئین کرام۔۔۔ کیا کوئی شخص جو خود کو ایک سیلبریٹی بھی سمجھتا ہو کیا وہ اپنے ہوش و حواس میں نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر ایسا بول سکتا ہے ؟ شاہد صاحب جب یہ سفید جھوٹ اور لغویات فرما رہے تھے تب ان کے سامنے بیٹھے کامران شاہد صاحب قہقے لگا کر ہنس رہے تھے۔ یہ کس قسم کا انٹرویو تھا ۔۔ یہ کس قسم کی بے ہودگی تھی ۔ جس بات پر شرم آنی چاہئیے اس بات کو بڑے فخر سے بتایا جا رہا تھا کہ میں فلم کے ڈائریکٹر کو ڈائریکشن دیتا تھا کہ میرا اس گانے میں کھڑے ہونا فضول ہے مجھے جانے دو۔ ڈائریکٹر نے مجبور کیا تو میں سیٹ چھوڑ کر چلا گیا۔ جناب یہ فخر نہیں شرم کا مقام ہے۔ نان پروفیشنل رویہ ہے ۔ وہ نان پروفیشنل رویہ جس کی وجہ سے آپ ہمیشہ ایک ثانوی قسم کے عامیانہ اداکار رہے۔ پرفارمنس آپ کی بہت زبردست رہی ہے لیکن آپ کا نان پروفیشنل رویہ ، قبرستانوں میں آپکے سکینڈل اور غیر فلمی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کبھی بھی ایک صف اول کے اداکار نہیں رہے۔ آپ سابق چیف جسٹس یا سیاستدانوں کی جیسے چاہے پگڑیاں اچھالیں لیکن اگر آپ وحید مراد ، محمد علی، سلطان راہی ، رانی بیگم یوسف خان یا شباب بردران کی تضحیک کریں گے تو آپ کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔ ہم فلمی تاریخ مسخ نہیں ہونے دیں گے۔
آپ اپنے فلمی معلومات سے عاری بیٹے کی نظر میں تو ہیرو ہو سکتے ہیں۔ آپ اپنے بیٹے کی وجہ سے ایک نیشنل ٹی وی کا پلیٹ فارم بھی حاصل کر سکتے ہیں لیکن آپ وہ مقام کبھی حاصل نہ کر سکے جو ایک لیجنڈ کو حاصل ہوتا ہے ۔ وحید مراد کے خلاف غلط بیانی کر کے سفید جھوٹ بول کر ، محمد علی کی بے توقیری کر کے، یوسف خان ،رانی بیگم اور نازیہ حسن کے خلاف لغویات فرما کر آپ نے اپنے پستہ فلمی قد کو مزید پست کر لیا ہے ۔ اور قدرت نے یہ کارنامہ آپ کے اپنے بیٹے کے ہاتھ سے سرانجام کروا دیا ہے۔(ساجد آرائیں)۔۔
(ساجد آرائیں معروف فلم ڈائریکٹر سید نور کے اسٹنٹ ہیں، یہ تحریر ان کی فیس بک وال سے لی گئی ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر اداکار شاہد یا اینکرپرسن کامران شاہد اس کا جواب دینا چاہیں تو ہم اسے بھی ضرور شامل اشاعت کریں گے۔ علی عمران جونیئر)۔۔